Friday, September 27, 2024
 

قرض کی خوشی میں عبداللہ دیوانہ

 



آج پورے ملک میں مبارک سلامت کا شور و غوغا ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمارا سات ارب ڈالر کا قرضہ منظور کردیا ہے اور آخری اطلاعات کے مطابق پہلی قسط بھی جاری کی جارہی ہے، جو کہ امید ہے ہمیں تیس ستمبر تک مل جائے گی۔

سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ قرضہ منظور ہونے پر ہمیں اور ہماری حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے مبارکباد کا پیغام بھی دیا گیا ہے۔ مجھے تو یہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف محسوس ہوا، پتہ نہیں آپ لوگوں کی اس پر کیا رائے ہے؟ اگر قوم کو یہ بتایا جائے جس سات ارب ڈالر کےلیے ہماری پوری ریاست گھٹنوں پر آئی ہوئی تھی، اس سات ارب ڈالر سے زیادہ کے اثاثے تو پڑوسی ملک کے ایک اداکار کے ہیں تو آپ سوچیے کہ اس قوم کے دل پر کیا گزرے گی۔ ان حالات میں کیا من حیث القوم ہمیں یہ قرضہ ملنے پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے؟ یا اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے پستی کے سفر کی وجوہات جاننا چاہیے؟

ہمارا یہ پستی کا سفر کوئی سال دو سال کی کہانی نہیں، یہ تو دہائیوں کا سفر ہے۔ ہمیں بہت چالاکی سے اس جال میں پھنسایا گیا ہے۔ جب ہم ایک زرعی ملک تھے تو ہمیں ایک صنعتی ملک بننے کا خواب دکھایا گیا۔ ابتدا میں امداد اور پھر تقریباً نہ ہونے والے سود کے ذریعے قرضوں کا آغاز کیا گیا۔ ابھی سفر درمیان میں ہی تھا کہ قرضوں کی نوعیت بدلنے لگی اور ہمیں ہماری مرضی کی مشینری کے بجائے بیچنے والے کی مرضی کے مطابق سامان اور ان کے مشیر کی خدمات خریدنے کا بار اٹھانا پڑا اور آج یہ قرضے ہمارے لیے ایک ایسی دلدل بن گئے ہیں کہ جس میں ہم دھنستے ہی جارہے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں مل رہا۔

میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

اگر آپ ایک گھر بھی چلاتے ہیں تو اس کا سیدھا سادہ سا طریقہ ہے کہ آپ کے اخراجات آمدنی سے کم ہونے چاہئیں، تاکہ ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔ مانا کہ ملک چلانا اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور آج کوئی بھی ملک یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ وہ مکمل طور پر قرضوں سے آزاد ہے، مگر یہ قرضے کسی تناسب سے ہوتے ہیں۔ ملک کی موجودہ جی ڈی پی یا قرضوں کی صورت میں متوقع آمدنی کو مدنظر رکھ کر لیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرضے آمدنی میں اضافہ کرنے کےلیے مانگے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کےلیے یا ماضی کے قرضوں یا اس کے سود کی ادائیگی کےلیے یہ قرض لیتے ہیں۔

اب آپ سب کے ذہنوں میں یہ سوال آنا فطری ہے کہ یہ قرضے ادا کیسے ہوں گے؟ اور یہ قرضے ادا کون کرے گا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ قرضہ لے رہے ہیں اس کا جواب تو ان کو بھی نہیں معلوم اور بھلا معلوم بھی کیوں ہو؟ ان کی اولاد، کاروبار، رہائش غرضیکہ علاج معالجہ تک سب بیرون ملک ہے تو انھیں اس سے کیا سروکار کہ قرضہ کون ادا کرے گا۔ ان کا کام تو صرف قرض لینا ہے جو کام وہ بہت احسن اور خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔ غالب جب قرض لیتے تھے تو ان کے پاس تسلی دینے کےلیے والد مرحوم کی پینشن کا آسرا تو تھا، پھر بھی انھیں حقیقت کی آگہی تھی تو کہہ گئے کہ:

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

بس یوں سمجھ لیجیے کہ فاقہ مستی کے رنگ لانے کے دن قریب قریب آہی گئے ہیں۔ جس کو یقین نہیں اپنا بجلی کا بل ایک دفعہ اور دیکھ لے۔ اب تو دنیا ہمارے اثاثے بھی گروی رکھنے کو تیار نہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے سو روپے کی چیز کے پندرہ یا بیس روپے لگاتے ہیں اور وہ بھی ہم پر احسان جتا کر۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم انھیں دوست کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہیں، کیونکہ ہماری ماضی کی حرکتوں کا پھل کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ ویسے کسی فرد واحد پر بھی جب برا وقت آتا ہے تو اس کے اثاثے اونے پونے داموں پر اپنے ہی لیتے ہیں تو ملکوں کو استثنیٰ کیوں ہو۔ ان تمام حالات میں سب سے بری خبر یہ ہے کہ اب ان کی نظر ہمارے اسٹرٹیجک اثاثوں اور ہماری زرعی زمینوں پر ہے۔ اگر اللہ نہ کرے ایسا ہوا تو نہ ہمارے پاس خوراک ہوگی اور نہ ہی مستقبل کے خواب۔ جب مستقبل ہی مخدوش ہوگا تو کاہے کے خواب۔

اللہ تعالیٰ ہمارے ارباب اختیار کو سمجھ عطا فرمائیں کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کریں، تاکہ آمدنی اور اخراجات میں توازن لایا جاسکے اور ان قرضوں کے انبار میں کمی لائی جاسکے۔ اخراجات میں کمی کہاں لانی ہے یہ چونکہ ممنوعہ علاقہ ہے اس لیے اس پر نہ کچھ لکھنا چاہیے اور تصویر لینا تو بالکل منع ہے۔ اس لیے آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اب دوا کی نہیں دعا کی ضرورت ہے‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل