Loading
شام میں جب سے مزاحمتی گروہوں نے اسد حکومت کا تختہ پلٹا اور ملک کو اپنے کنٹرول میں لیا تو اکثر لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ شامی حکومت کے بڑے پیمانے پر خاتمے کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کی نمائندگی اس کی افواج کرتی ہے، جسے وہ شامی عرب فوج کہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے مخالف گروہوں کی قیادت حیات تحریر الشام، ’’سابقہ النصرہ فرنٹ‘‘ کر رہی ہے جس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرچکا ہے جس کے بعد شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ اسد کی وفادار افواج کی جانب سے شہر کے دفاع یا اسد حکومت کے چہرے کو بچانے کے لیے ان گروہوں پر ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی، چنانچہ دھڑوں کا مارچ حما اور پھر حمص کی طرف جاری رہا۔ متوازی طور پر، ہم دیکھتے ہیں کہ جنوب میں اسد کے مخالف دھڑوں نے درعا، سویدا اور قنیطرہ کے جنوبی گورنروں پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا، جس میں رقہ اور دیر الزور کے شہروں سے اسد کی حامی افواج کے انخلا کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مشرقی شام میں، انہیں کرد فورسز ’’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘‘ کے حوالے کر دیا گیا، یہاں تک کہ مخالف دھڑے دمشق شہر کے آس پاس پہنچ گئے، جس کے بعد نمائشوں میں ملٹری آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کی تشکیل کا اعلان کیا گیا، جس کے نتیجے میں مختلف دھڑوں نے شامی دارالحکومت دمشق میں شامی فوج کے افسران اور اس کی سکیورٹی شاخوں کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت کو کنٹرول کیا اور اسد حکومت کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا۔ اس پورے منظر نامے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ دھڑے اسد کی افواج حتیٰ کہ اس کے روسی اتحادی کی طرف سے کسی بھی طرح کی مزاحمت کے بغیر کیسے اتنی تیزی سے آگے بڑھے اور ایک کے بعد ایک شہر پر فتح کیسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ وہی شامی گروپس ہیں جنہوں نے کئی علاقوں میں روسی افواج کی بمباری کا سامنا کیا جس میں ہمیشہ ہی صرف عام شہری مارے جاتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ شام میں جس منظر نامے کا سامنا ہم کر رہے ہیں اس کا تعلق حکومت مخالف دھڑوں کی طاقت یا اسدی قوتوں کی کمزوری سے نہیں ہے، بلکہ ترکی اور روس کے درمیان امریکی اسرائیلی چھتری کے تحت ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ہے، جس کی روسی صدر پیوٹن کی جانب سے لگائی گئی قیمت اسد نے ادا کی، جس کی ابتدا لطاکیہ اور طرطوس میں حمیمیم نیول ایئر بیس سے کی گئی۔ اس کھیل کے آخر میں ترک انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور حالیہ وزیر خارجہ، مسٹر ہاکان فیدان کی انجینئرنگ نے بھی اہم کردار ادا کیا، جس سے ہمیں سمجھ آتی ہے کہ یہ تنازع ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کیوں موجود رہا۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہفتے کے روز ہونے والے آستانہ فریقین کے اجلاس نے ابھی تک اس کے تمام راز افشا نہیں کیے ہیں، لیکن جو بات یقینی ہیں وہ یہ کہ شام کے سیاسی نقشے پر اسد کا اب کوئی مقام یا کردار نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ کا بحران تاریخ کا ایک پیچیدہ، کثیر الجہتی اور طویل ترین تنازع ہے۔ چین، امریکا، روس، ترکی اور اسرائیل کی دلچسپیاں کئی جہتوں پر محیط ہیں، جن میں توانائی، جغرافیائی سیاست، اور اقتصادی تعلقات شامل ہیں۔ یہ علاقہ عالمی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے ہمیشہ ایک مرکزی میدان رہا ہے۔ اس تنازع میں اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ سب سے اہم اور تنازعات کی جڑ قرار دیا جائے تومیں سمجھتا ہوں کہ غلط نہیں ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے باخبر لوگ اور ماہرین شام میں اسد حکومت کے ردعمل سے حیران ہیں کہ کیسے اسد حکومت نے بغیر کسی مزاحمت کے شام کو حکومت مخالف دھڑوں کے حوالے کردیا۔ یہاں تک کہ روس نے بشارالاسد کی مدد کی اپیل پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ یہ وہی روس ہے جو یوکرین میں امریکا سمیت مغربی دنیا جس میں نیٹو کے 32 ممالک بھی شامل ہے کی دھمکیوں کے باوجود شام میں اسد کی بھرپور مدد جاری رکھے ہوئے تھا اور پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ 1970 سے بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے ساتھ دوستانہ تعلقات جو 50 برس سے زائد عرصے سے قائم تھے، اچانک ہی سردمہری کا شکار ہوگئے ؟ اس سوال کا جواب ہی درحقیقت شام کی حکومت کے زوال کے اسباب ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ 6 دہائیوں سے زیادہ عرصے تک، ایک جابرانہ آمر کی بعث پارٹی نے ملک شام پر حکومت کی۔ لاکھوں شامی اسد کی حکومت کے مظالم سے دوچار ہوئے جو اس خاندان کی حکمرانی میں پیدا ہوئے، جیے اور مر گئے۔ اسد حکومت کا خاتمہ شامیوں کے لیے ایک خوشی کا موقع ہے۔ شامیوں کا غم ان مناظر پر بھاری ہے جنہوں نے اسد کی جیلوں سے اپنے بھائیوں کی آزادی کے دوران دلوں کو لہولہان کردینے والا وقت گزارا لیکن اب مشکل وقت گزرگیا ہے، شام کے حالات ہر لمحہ بدل رہے ہیں۔ اب شام اسد کا نہیں رہا، تمام شامیوں کے لیے اب ایک شام ہے۔ جو مناظر شام کی سرزمین سے سامنے آرہے ہیں، حماہ، حمص، دمشق اور ان کے دیہاتوں سے، انہوں نے غزہ کے عوام کی مصیبتوں اور درد کو فی الحال بھلا دیا ہے جن میں صہیونی افواج افواج کی وحشیانہ بمباری سے شہید ہونے والے بچے خواتین اور نہتے فلسطینیوں کی کٹی پھٹی لاشیں دکھائی جارہی تھیں۔ کئی کئی دن سے بھوکے بچے جو بھوک سے تڑپتے ہوئے بے ذائقہ شوربے کا انتظار کر رہے تھے۔ غزہ کی گلیوں میں زخمیوں کو ایمرجنسی گاڑیوں کے بجائے گدھا گاڑیوں پر ڈال کر طبی امداد کے لیے دربدر جسموں کے ٹکڑے لیے پھرتے پریشان دیکھا جاتا تھا، ہاں شام نے وقتی ہی صحیح ہمارے چہروں پر اطمینان بکھیردیا، ہم بھول گئے جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے وہ نسل کشی ہے۔ لیکن ایک خوشی ہے کہ چلو غزہ نہ سہی شام میں تو مظلوموں کی داد رسی ہوگی۔ ظلم کے اس طویل دور کے اختتام پر اب ان چہروں پر مسکراہٹ کا دور آئے گا جو 50 برس سے جبر کا سامنا کررہے تھے۔ خوشی کے اس موقع پر اب مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بشار الاسد اور اس کے خاندان نے 1971 سے لے کر 8 دسمبر 2024 تک شام کو کیسے چلایا۔ مجھے ان خفیہ اور ظاہری ہاتھوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں جن کی مدد سے پہلی بار اس کے عوام نے “بشار، جاؤ” کا نعرہ بلند کیا تھا جو شام میں بحران کی ابتدا تھا، مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں کہ اسد کے والد نے 1980 کی دہائی میں جو قتل عام کیے اور نہ ہی اس سے کہ اس کے بیٹے نے عرب بہار کے دوران جو مظالم ڈھائے۔ میں ان لاکھوں شامی مہاجرین کے بارے میں بھی فکر مند نہیں ہوں جو شام سے نکالے گئے اور دنیا کے مختلف حصوں میں آج بھی بھیک مانگ رہے ہیں، مجھے ان ہزاروں افراد کی بھی پروا نہیں جو اسد کی جیلوں میں صرف اس لیے قید تھے کہ انہوں نے اس حکومت کی خواہش کی تکمیل نہیں کی، مجھے اس پر بھی اضطراب نہیں کہ کیا کچھ اسد کی فوج نے معصوم مظاہرین کے ساتھ کیا۔ مجھے اس بات کا بھی کوئی غم نہیں کہ مستقبل میں شام میں کون حکومت کرے گا، نہ ہی مجھے نئے حکومتی نظام کے بارے میں کوئی تشویش ہے، یا ان حکام کے تعلقات اپنے ہمسایہ ممالک سے کیسے ہوں گے، اور نہ ہی یہ کہ وہ شام کی تعمیر نو کے لیے کیا راستہ اختیار کریں گے۔ مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں کہ شام میں اب جو لوگ حکومت میں آئیں گے ان کے ملک دشمن عناصر اور غیر ملکیوں کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات ہیں۔ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ دراصل ایک بلبلے کی مانند ہوتے ہیں، جو پہلی سرد ہوا کا سامنا کرتے ہی فوراً پھٹ جاتے ہیں اورپھر وہی ہوتا ہے جو اسد اور اس کے والد کے ساتھ ہوا، جو انہوں نے ظلم کے طور پر چھوڑا تھا بالاآکر ختم ہو جاتا ہے۔ میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کی طاقت اس کی قانونی حیثیت سے آتی ہے، اور وہ اس وقت مستحکم رہتی ہے جب وہ عوام کی خواہشات اور مشکلات کو اپنے مقصد میں شامل کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں جذباتی، قانونی اور اخلاقی پہلو شامل ہیں۔ میرے لیے اہم یہ ہے کہ اسد کی جابرحکومت ختم ہوگئی لیکن اب جو حکومت برسراقتدار آئے گی وہ مظلوم شامیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرے گی۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اتنی طویل تمہید باندھنا پڑھی جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ یہاں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ شام میں حکومتی دھڑن تختے کا غزہ اور لبنان سے اتنا گہرا تعلق ہے جس کا شاید عام شہریوں کو معلوم نہ ہو۔ کیا آپ کومعلوم ہے کہ غزہ پر اسرائیلی دہشتگردی کو یہ مضمون لکھتے تک 431 دن مکمل ہوچکے ہیں یعنی تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ۔ اس سارے وقت میں ہم نے دیکھا کہ عالمی برادری، اقوم متحدہ، اسلامی ممالک اور یورپی ممالک سمیت تمام ہی دنیا اسرائیلی جارحیت کے خلاف مذمت کرتی رہی لیکن اسرائیلی جارحیت ایک دن کے لیے بھی نہیں رکی۔ 7اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی دہشتگردی میں اب تک شہداکی مجموعی تعداد 44,758 ہوگئی جس میں ایک لاکھ 5ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں جن کے پاس طبی امداد کے نام پر صرف امید ہے۔ (میں نے اس مضمون کو مختصر کرنے کی بہت کوشش کی لیکن مجبور ہوں کہ کامیاب نہیں ہوسکا۔) بات کر رہا تھا شام کی خانہ جنگی کی، جس کا لبنان، غزہ سے گہرا تعلق ہے۔ قطر، امریکا، مصر، اردن، فرانس، غزہ اور لبنان کی جنگ بندی کے لیے متحرک تھے لیکن ڈیڑھ سال گزرجانے کے باجود کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا اور پھر اچانک امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک جذباتی بیان دیا اور کہا کہ اگر 20 جنوری سے پہلے غزہ میں جنگ بندی نہیں کی گئی تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دوں گا اور پھر مشرقی وسطیٰ کے حالات میں ڈرامائی تبدیلیاں ہوئیں اور شام، حکومت مخالف دھڑوں کے کنٹرول میں آگیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے 2006 کی طرح ایک بارپھر صہیونی ریاست اسرائیل کو ذلت آمیز شکست دی، نیتن یاہو لبنان اور غزہ میں طاقت کے بدترین استعمال کے باوجود اپنا ایک بھی عسکری مقصد حاصل نہیں کر سکا تھا۔ نہ تو حماس کےزیر حراست یرغمالیوں کو رہا کروا سکا اور نہ ہی حماس کے حملے روک سکا۔ نہ حزب اللہ کے حملوں سے شمالی اسرائیلی شہری اپنے گھروں میں واپس جانے پرراضی ہوئے۔ اس دوران حزب اللہ نے صرف سرحدی علاقوں ہی کو نہیں بلکہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سمیت مختلف شہروں کو نشانہ بنایا۔ حزب اللہ نے نیتن یاہو کے ذاتی گھر پر حملہ کیا، اسرائیلی داخلی سلامتی کی خفیہ ایجنسی شاباک کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا، بن گورین ایئرپورٹ پرحملہ کیا۔ اسرائیلی وحشیانہ بمباری حزب اللہ کو نہ روک سکی۔ اس دوران اسرائیل کے کم سے کم 150 سے زائد فوجی لبنان کی سرحدی جنگ میں مارے گئے۔ یہ نقصان صہیونی ریاست کے لیے ناقابل تلافی ہے۔ جب عالمی دباؤ اور طاقت کے بدترین استعمال کے باوجود بھی اسرائیل کی تباہی کو نہیں روکا جاسکا تو پھر حزب اللہ اور حماس کے اسلحہ کی سپلائی لائن جو کہ شام سے وابستہ تھی، اس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بشار الاسد ایک ظالم جابر اور بدترین ڈکٹیٹر تھا لیکن اس نےاسرائیل کے خلاف حماس اور حزب اللہ کی جو مدد کی اس سے انکار ممکن نہیں ہے اور یوں میں اس طویل قصے کو مختصر کرتا ہوں کہ بشار الاسد کی حکومت کو اسرائیل کی خواہش پر امریکا، روس اور ترکی کی معاونت سے ختم کر دیا گیا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل