Loading
تحریر (ڈاکٹر مبشرہ صادق) فیمن ازم، تحریک نسائیت یا تحریک آزادی نسواں یورپ کی پیداوار ہے، مغرب نے فیمن ازم کے نام پر عورت اور مرد کے درمیان صنفی مساوات کا تصور (gender equality) پیش کیا ہے، یعنی عورت اور مرد بالکل یکساں ایک دوسرے کی مانند ہیں، دونوں کے درمیان صنفی قسم کا کوئی فرق موجود نہیں ہے لہٰذا زندگی کے ہر میدان میں انہیں یکساں سمجھا جائے۔ یہ صنفی مساوات بظاہر ایک خوبصورت تصور معلوم ہوتا ہے مگر واضح طور پر فطرت کے خلاف ہے اور جو چیز فطرت کے خلاف ہو وہ سرے سے قابل عمل ہو ہی نہیں سکتی اور نہ ہی کسی طرح سے اس کے مثبت نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ فطرت کے خلاف ہونے کی اس کی چھوٹی سی مثال یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کو قدرت نے الگ الگ صلاحیتیں دی ہوئی ہیں کوئی صلاحیت جو ایک میں ہے وہ دوسرے میں نہیں ہے، آج سائنس سے ثابت ہو چکا ہے کہ مرد کے دماغ کی بناوٹ اور عورت کے دماغ کی بناوٹ میں فرق ہے، مرد کا دماغ اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی سوچ کو ایک نقطہ پر فوکس کر سکتا ہے جبکہ عورت کا دماغ فطری طور پر ایسا ہے کہ وہ بیک وقت مختلف چیزوں کے بارے میں سوچ سکتی ہے، اس بنا پر عورت کا فکری فوکس ایک نقطہ پر نہیں رہتا بلکہ پھیل جاتا ہے جبکہ مرد کا فکری فوکس محدود رہتا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں کے فکری سوچ کے نتائج یکسر مختلف ہوتے ہیں، اگر صرف اسی فرق کو مدنظر رکھ کے دیکھا جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں آئے گی کہ عورت اور مرد کی ذمہ داریاں الگ الگ کس لیے رکھی گئی ہیں اور کامیابی کا معیار یہی ہے کہ دونوں اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پورا اتریں۔ اسی طرح کی اور دیگر وجوہات کی بنا پر اسلام دونوں صنفوں کو یکساں نہیں بلکہ برابری کی سطح پر رکھتا ہے، قرآن کریم میں ایک مقام پر اہل ایمان کی دعا بتائی گئی ہے، اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور نجات کے لیے دعا کی گئی ہے، جس کا جواب اللہ تعالیٰ اس طرح فرماتے ہیں ’’ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو‘‘ (آل عمران)۔ اس سے معلوم ہوا کہ عزت و احترام کا دئرہ کار ہو یا جزا و سزا کا، حقوق و فرائض کا ہو یا عدل و انصاف کا، ان سب میں مرد وعورت برابر ہیں، صرف ذمہ داریوں کے میدان میں دونوں کا دائرہ کار الگ فرمایا ہے، جیسا کہ ’’اُم المنومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد سب نیک اعمال سے بڑھ کر ہے تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ (تمھارے لیے) عمدہ جہاد حج ہے‘‘ (صحیح بخاری)۔ اب اس فرمان کے تحت عورت بیک وقت ایک عمل کی ادائیگی میں دو اعمال کا ثواب پا لیتی ہے۔ آج فیمنزم کے نام پر عورتوں کی طرف سے بے ہودہ قسم کے مطالبات اور بغیر اسلام کو جانے اسلام پر ناانصافی کے الزامات کسی طرح سے بھی مثبت رویوں کی ترجمانی نہیں ہے، اسلام پر بولنے سے پہلے اسلام کو جاننا ہوگا اور سمجھنا ہوگا پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ اسلام سے بڑھ کر فیمنزم کا ہامی اور کو ئی نہیں ہے جتنا اسلام نے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھا اور اسے عزت و وقار کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ اس کی مثال کوئی مذہب بھی نہیں دے سکتا، جہاں تک مرد کی شرافت کا معیار عورت کی عزت کرنا قرار دیا گیا ہے، فرمان رسولؐ ہے کہ (ما اکرم النساء الا کریم وما اھانن الا لئیم) ’’عورتوں کی عزت وہی شخص کرے گا جو شریف ہو اور عورتوں کو وہی شخص بے عزت کرگا جو کمینہ ہو‘‘ (الحدیث)۔ اب اس کے بعد اور کونسا معیار چاہیے آج کی عورت کو! اپنے حقوق کی بات یا مطالبہ کرنا برائی نہیں ہے بلکہ یہ تو زندہ ضمیر قوموں کی پہچان ہے لیکن اپنے حقوق کا ہی مطالبہ ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کا مطالبہ، جیسا کہ آج کل یہ عورت کے حقوق دلانے سے زیادہ مردوں کے حقوق غصب کرنے کی ایک تحریک بن چکی ہے جس نے عورت کو مرد کے برابر لانے کے بجائے اس کے مخالف کھڑا کر دیا ہے، فیمنزم کا مقصد عورت کی خودمختاری تھا، جو کہیں دور ہی رہ گیا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداء تو عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے جانے کے مطالبے سے ہوئی تھی مگر آہستہ آہستہ اس کی ہیئت بدلتی گئی۔ دور جدید کی فیمنزم میں بات اب حقوق سے بہت آگے بڑھ گئی ہے، اب ان کے مطالبات میں یہ شامل ہو چکا ہے کہ عورت ہر قسم کی ذمہ داریوں سے آزاد ہے، جیسا کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ فطرت کے اصول کے خلاف ایک کھلی جنگ ہے اور جب بھی کبھی فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اس کا نتیجہ سوائے بربادی کے اور کچھ نہیں نکلتا، انسانی عقل کو جب تک مذہب کی لگام نہ ہو وہ بے اعتدالیوں پر ضرور اترے گی اور مذہب بھی وہ ہونا چاہیے جو خالص خدائے واحد کا ہو چونکہ یہ تحریک کچھ ناانصافیوں کے ردعمل کے طور پر ابھری تھی جس میں سر فہرست یورپ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھے جانے پر اس تحریک کا آغاز ہوا، پھر ہر ملک میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اس تحریک نے زور پکڑا اور آج ہر ملک میں فیمنزم کے ایجنڈوں میں ان حقوق کا مطالبہ کیا جاتا ہے جن سے عورت کو محروم رکھا جاتا ہے۔ آج فیمنزم کی جو تحریک ہمارے معاشرے میں ابھری ہوئی ہے اس کو بھی اپنی صحیح سمت کا تعین کرنا ہوگا، آزادی اور حقوق کا مطالبہ ہے تو اسلام نے جو عورتوں کو حقوق دیے ہیں ان کو مانگا جائے، اس وقار اور عزت کا مطالبہ کریں جو اسلام نے عورت کو بخشا ہے، ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ ضرورت ہی اس امر کی ہے کہ عورت کو اس کی وہ شناخت دی جائے جو اسلام نے اسے دی ہے۔ اتنا تو واضح ہے کہ جن مسائل اور حقوق و اختیارات کے تناظر میں فرانس، برطانیہ، امریکا اور پورے مغرب میں یہ تحریک شروع ہوئی وہ تمام کے تمام مسائل اسلام اس تحریک سے بارہ صدیاں قبل ہی حل کر چکا تھا۔ عورت ہر رشتے میں قابل احترام ہے، زندگی کے ہر میدان میں چاہے اس کا تعلق تعلیم سے ہو یا معاش سے، سیاسی ہو یا معاشرتی، عائلی ہو یا قانونی اس کو ان تمام حقوق سے نوازا جائے جو اللہ رب العزت نے اسے دئیے ہیں، یہ ہے اسلامی فیمنزم کا وہ دائرہ کار جسے آج کی عورت کو ٹھوس بنیادوں پر متعین کرنا ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل