Saturday, July 19, 2025
 

طوفانی بارشیں، نئی منصوبہ بندی کی ضرورت

 



پنجاب میں بارشوں سے جاں بحق افراد کی تعداد 106 سے تجاوز کرگئی ہے، کئی شہروں میں رین ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ راولپنڈی، چکوال اور گرد و نواح میں شدید طوفانی بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی ہے۔ لاہور میں موسلادھار بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ خستہ حال عمارتوں اور بوسیدہ مکانات کی چھتیں گرنے کے باعث سب سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئی ہیں۔ ملک بھر میں جاری شدید اور طوفانی بارشوں کا سلسلہ اس وقت محض موسمی مظہر نہیں رہا بلکہ ایک ہمہ جہت بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے، جو انسانی زندگی، معیشت، انفرا اسٹرکچر اور ماحولیاتی توازن پر کاری ضرب لگا رہا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی ان بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت واشگاف کردی ہے کہ ہم ایک ایسی تبدیلی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں روایتی طریقہ کار، بوسیدہ حکمرانی کا ڈھانچہ، اور غیر فعال منصوبہ بندی اذیت کے ساتھ ساتھ نقصان دہ بھی بن چکے ہیں۔ یہ حالات محض اتفاق یا قدرت کی طرف سے نازل کردہ آزمائش نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمزور حکمرانی، غفلت اور پیش بینی کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ ان بارشوں کے نتیجے میں ہمارے ندی، نالوں اور دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہورہی ہے، جب یہ سب سیلابی ریلے دریائے سندھ میں داخل ہوجائیں گے تو سندھ میں سیلاب کے خطرات بڑھ جائیں گے، لٰہذا سندھ حکومت کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ پیش بندی کرتے ہوئے مناسب اقدامات کرے، تاکہ سندھ کے باسیوں کو وسیع نقصانات سے بروقت بچایا جاسکے۔ اس وقت شہری علاقوں میں سڑکیں دریا کا منظر پیش کر رہی ہیں، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، بجلی کی فراہمی معطل ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہو چکے ہیں، وہیں دیہی علاقوں میں ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں، فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، مویشی بہہ گئے ہیں اور کئی مقامات پر بنیادی زندگی کی سہولیات بھی دستیاب نہیں رہیں۔ اس تمام صورتحال میں ریاستی مشینری کا جو کردار ہونا چاہیے تھا، وہ نظر نہیں آیا۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جن اداروں کو متحرک اور فعال ہونا چاہیے تھا، وہ یا تو وسائل کی کمی کا رونا روتے نظر آئے یا مکمل خاموشی میں ڈوبے رہے۔ سوال یہ نہیں کہ بارش کتنی ہوئی، سوال یہ ہے کہ ہم نے اس بارش کو بحران میں بدلنے کے تمام اسباب کیسے پیدا کیے۔ گزشتہ دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جو عالمی تحقیقاتی رپورٹس شایع ہوتی رہیں، ان میں پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا گیا تھا جو موسمیاتی تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ رکھتے ہیں۔ مگر ہمارے پالیسی ساز اداروں، حکومتوں اور بیوروکریسی نے مسلسل ان انتباہات کو نظرانداز کیا۔ نہ تو مناسب انفرا اسٹرکچر بنایا گیا، نہ نکاسی آب کا کوئی جامع منصوبہ بنایا گیا، نہ ماحولیاتی تحفظ کو سنجیدگی سے لیا گیا اور نہ ہی عوامی شعور اجاگر کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ یہ صورتحال اب مزید برداشت کے قابل نہیں رہی۔ ہر سال ہم اسی طرح کے مناظر دیکھتے ہیں، وہی خبریں، وہی نقصان اور وہی دعوے۔ لیکن کوئی دیرپا حل، کوئی طویل المیعاد حکمت عملی، کوئی انقلابی پالیسی سامنے نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنی سوچ، حکمرانی کے انداز اور ترجیحات میں بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے، ایسے بحران نہ صرف دہرائے جائیں گے بلکہ ان کی شدت بھی بڑھتی جائے گی۔آج کی دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کو ایک حقیقت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہروں اور دیہی علاقوں کو ان تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے پاس نہ صرف جدید موسمیاتی پیش گوئی کے نظام موجود ہیں بلکہ وہ انفرا اسٹرکچر، شہری منصوبہ بندی اور زراعت کے شعبوں میں بھی ماحولیاتی عوامل کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں اب بھی ماحولیات ایک ’’ ثانوی‘‘ یا ’’ اضافی‘‘ موضوع سمجھا جاتا ہے جسے صرف بین الاقوامی کانفرنسوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اب اس المیے کو ایک موقع سمجھ کر خود کو ازسرنو منظم کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک ایسا جدید، مربوط اور فعال نظام تشکیل دیں جو صرف ردعمل نہ دے بلکہ پیشگی تیاری کرے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ڈیٹا جمع کرنے، اس کا تجزیہ کرنے اور بروقت فیصلے کرنے کے قابل ادارے چاہییں۔ ہمارے ہر ضلع، ہر تحصیل اور ہر یونین کونسل میں ایسے مراکز ہونے چاہییں جو نہ صرف مقامی خطرات سے واقف ہوں بلکہ ان سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی رکھتے ہوں۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق شعور کو شامل کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسل ان خطرات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو۔ میڈیا، دینی ادارے، سماجی تنظیمیں اور مقامی حکومتیں اس میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ہر شہری کو معلوم ہونا چاہیے کہ بارش کے موسم میں اسے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں، کس ادارے سے رابطہ کرنا ہے اور کس طرح اپنے اور دوسروں کی مدد کرنی ہے۔ اس کے علاوہ، موجودہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور نئے سرے سے منصوبہ بندی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ شہروں میں نکاسی آب کے لیے زیر زمین ڈرینج سسٹم، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مصنوعی جھیلیں اور تالاب، دیہی علاقوں میں حفاظتی بند اور نالوں کی صفائی، پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے بچاؤ کے لیے درختوں کی شجرکاری اور کھلی جگہوں کی منصوبہ بندی سمیت بے شمار ایسے اقدامات ہیں جن پر فوری عملدرآمد ضروری ہے۔ زرعی شعبہ اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ بارشوں اور سیلابوں سے فصلوں کی تباہی نہ صرف کسانوں کے لیے معاشی تباہی کا باعث بنتی ہے بلکہ ملک کی غذائی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ ہمیں فصلوں کے بیمہ، پانی کے انتظام اور جدید زراعتی تکنیکوں کے استعمال کو فروغ دینا ہوگا۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ہماری موجودہ زرعی پالیسیاں موسمیاتی حالات کے مطابق ہیں یا انھیں بھی نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ قانون سازی کا شعبہ بھی اس وقت خالی نظر آتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جو قوانین موجود ہیں، وہ یا تو غیر مؤثر ہیں یا ان پر عملدرآمد کی کوئی صورت موجود نہیں۔ ہمیں فوری طور پر ایک جامع ’’ ماحولیاتی تحفظ ایکٹ‘‘ کی ضرورت ہے جس میں تمام شعبوں جیسے تعمیرات، صنعت، زراعت، شہری منصوبہ بندی، اور تعلیم کے لیے لازمی ماحولیاتی اصول وضع کیے جائیں اور ان پر عملدرآمد کے لیے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا جائے جسے مکمل قانونی اختیارات حاصل ہوں۔ معاشی طور پر بھی ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی، اگر ہم ہر سال اربوں روپے کا نقصان سہتے رہیں گے اور اسے قدرتی آفت کہہ کر ٹالیں گے، تو معیشت کبھی مستحکم نہیں ہو سکے گی۔ اس کے برعکس اگر ہم ان پیسوں کو قبل از وقت بچاؤ کے اقدامات، انفرا اسٹرکچر کی بہتری اور نظام کی اصلاح پر خرچ کریں تو نہ صرف نقصانات کم ہوں گے بلکہ ہزاروں قیمتی جانیں بھی محفوظ رہیں گی۔عالمی سطح پر پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو موسمیاتی خطرات کے حوالے سے شدید خطرے میں ہے۔ ہمیں بین الاقوامی اداروں، ماحولیاتی فنڈز اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ اپنی شراکت داری کو فعال بنانا ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ضرورت کے مطابق نہ صرف مالی وسائل حاصل کریں بلکہ تکنیکی مدد، ماہرین کی خدمات اور تحقیق و ترقی کے منصوبے بھی اس تعاون کا حصہ بنائیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم رسمی بیانات، وقتی ہنگامی امداد اور سیاسی نمائشوں سے آگے نکل کر ایک سنجیدہ، فعال اور نتیجہ خیز نظام کی طرف قدم بڑھائیں ہر سال بارشوں کے بعد وہی خبریں، وہی تباہ کاریاں اور وہی بے بسی، اب قابل قبول نہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا پاکستان چھوڑنا ہے جو نہ صرف محفوظ ہو بلکہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر آج ہم نے خود کو نہ بدلا، توکل کا مورخ ہمیں ان قوموں کی فہرست میں شامل کرے گا جو موقع ہوتے ہوئے بھی غفلت کا شکار ہوئیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنا مستقبل تباہ کر بیٹھیں۔ مگر اگر ہم نے آج سے، اسی لمحے سے، اپنی سمت درست کر لی تو یہی بحران ہماری نجات کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے، یہ وقت کا تقاضا ہے، اور یہ تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ماضی کی غفلتوں کو دہرائیں گے یا ایک نئی سوچ، نئی حکمت عملی اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے، ایسا پاکستان جو آنے والی نسلوں کے لیے باعثِ فخر ہو، محفوظ ہو اور موسمیاتی بحرانوں کے خلاف سینہ تان کر کھڑا ہو۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل