Loading
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی صدارت میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں جبری گمشدگیوں کا سخت نوٹس لیا گیا۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے آئینی فریضے پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اس اہم اجلاس میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان شریک تھے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے آئینی فریضے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اجلاس میں شریک ملک کے سینئر ترین جج صاحبان نے عہد کیا کہ جج صاحبان کو بیرونی دباؤ سے تحفظ دیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ جبری گمشدگی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے گی جو ایگزیکٹو کی آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے ادارہ جاتی رد عمل تیارکرے گی، جو اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے متعلقہ فریقین کو پہنچایا جائے گا۔ شہریوں کی جبری گمشدگی کے مسئلے پر بہت برسوں بعد عدلیہ کی ایک انتہائی اہم کمیٹی میں کیا جانے والا یہ فیصلہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک انتہائی اہم اقدام ہے۔ ملک میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہا ہے مگر اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی جبری گمشدگی کا مسئلہ ایک نئی جہد کے ساتھ سامنے آیا۔ اس صدی کے ابتدائی برسوں میں کوئٹہ سے کچھ افراد کے لاپتہ ہونے کی خبریں اخبارات میں شایع ہوئیں۔ اس وقت کے رکن قومی اسمبلی جمعیت علمائے اسلام کے حافظ حسین احمد نے ان افراد کی رہائی کے لیے کافی عرصے تک کوشش کی مگر ان کی کوشش رائیگاں گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق حافظ حسین احمد کو مری قبیلہ کے افراد کی بازیابی کا یقین دلایا گیا تھا مگر حافظ صاحب کی کوشش کے باوجود معاملہ حل نہ ہو سکا۔ مگر نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی فوجوں نے کابل میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تو پھر دہشت گردی کی یہ جنگ پشاور اور کوئٹہ کے راستے کراچی تک پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے ساتھ خیبر پختونخوا سے سیکڑوں افراد کے لاپتہ ہونے کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بننے لگیں۔ اخبارات نے جبری گمشدگی کے مسئلے کو اجاگرکرنا شروع کیا۔ الیکٹرانک میڈیا پر جبری گمشدگی کے مسئلے پر بحث و مباحثہ ہونے لگا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی اس عہدے پر معزولی کے خلاف تحریک میں ایک مسئلہ شہریوں کی جبری گمشدگی کا تھا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے چیف جسٹس کی حیثیت سے بحالی کے بعد پہلی دفعہ جبری گمشدگی کے مسئلے کو اولین اہمیت دی۔ چیف جسٹس کے حکم پر ایک انتہائی بیمار شخص کو اسٹریچر پر رکھ کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی سے تعلق رکھنے والے اس شخص کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے جبری گمشدگی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک مستقل کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کو کمیشن کا سربراہ مقررکیا گیا۔ کمیشن میں ہائی کورٹ کے دو ریٹائرڈ ججوں اور ایک سابق انسپکٹر جنرل پولیس کو بھی شامل کیا گیا۔ جسٹس جاوید اقبال تقریباً 20 سال کے قریب عرصے تک کمیشن کے سربراہ رہے ۔ کمیشن نے محض مختلف ذرایع سے ملنے والی رپورٹنگ پر ہی اکتفاء کیا۔ اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جون 2025تک موصول ہونے والے کیسوں کی تعداد 10592 تھی مگر کمیشن صرف 1914 مقدمات نمٹا سکا۔ اس دوران مختلف صوبوں کی ہائی کورٹس نے شہریوں کی جبری گمشدگی کے مقدمات میں اہم فیصلے دیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ شخص کی یوں واضح تعریف کی کہ اگر کوئی سرکاری ایجنسی کسی شہری کو لاپتہ کرے تو یہ تمام جبری گمشدگی کہلائے گا۔ سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرضداشتوں پر فیصلہ دیا کہ حکومت لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کے ایک وفد سے ملاقات پر مجبور ہوئے۔ مگر ان ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ جبری گمشدگی کے مسئلے پر انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مستقل کوشش کی۔ ان کوششوں کا ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یورپی یونین نے بھی نوٹس لیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ہر سال ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ شامل ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سالانہ اجلاس میں جب بھی پاکستانی مندوب مقبوضہ کشمیر میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر دنیا کی توجہ دلاتے ہیں تو بھارتی مندوب پاکستان میں جبری گمشدگی کے بارے میں عالمی اداروں کی رپورٹوں کے حوالے دیتے ہوئے شور مچاتے ہیں۔ یورپی یونین نے پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے تک جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دیتے ہوئے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کی شرائط عائد کردیں۔ یورپی یونین نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جبری گمشدگی کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے قانون بننا ضروری ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جبری گمشدگی کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے ایک مسودہ قانون قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا۔ سینیٹ میں اس مسودے پر خواندگی کا ایک مرحلہ مکمل ہوا ہی تھا کہ اس وقت کی انسانی حقوق کی وزارت کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ انکشاف کیا کہ یہ مسودہ قانون سینیٹ سیکریٹریٹ سے لاپتہ ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی اس مسودہ قانون کو پارلیمنٹ کے تمام مراحل سے گزار کر قانون بنانے کی زحمت برداشت نہیں کی مگر جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین، بچے اور لاپتہ افراد کے لواحقین اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے تھے تو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا مگر یہ اعلان محض ایک اعلان ہی رہا۔ جبری گمشدگی کی بناء پر ملک میں تضادات ابھر کر سامنے آئے۔ اس وقت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انارکی کی صورتحال رہی۔ بلوچستان بھر میں لاپتہ افراد کے لواحقین ہر شہر میں اور شہر کی مرکزی شاہراہوں پر دھرنے دیتے ہیں۔ کئی دفعہ گوادر سے چین جانے والی شاہراہ اور کوئٹہ سے کراچی جانے والی شاہراہ بند رہتی ہے۔ روزانہ سندھ ہائی کورٹ، بلوچستان ہائی کورٹ ، پشاور ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں کسی نہ کسی فرد کے لاپتہ ہونے کے خلاف عرضداشت کی سماعت ہورہی ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن جو 22 برسوں سے جبری گمشدگی کے مسئلے کے حل کے لیے جستجو کر رہا ہے، اس کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے، تو اس کو ہر صورت میں عدالت میں پیش کرنا چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں مگر ماورائے عدالت اقدامات سے نہ صرف انصاف پامال ہوتا ہے مگر شہریوں اور ریاست کے درمیان فاصلے بھی طویل ہوجاتے ہیں جس کا مخصوص مفادات کی حامل قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی قیادت میں پالیسی ساز کمیٹی کے اس فیصلے پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوا تو اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ فرد ریاست کا اثاثہ ہوتا ہے اور اس کی گمشدگی ریاستی اثاثے کی گمشدگی ہوتی جس کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا جائے تو ممکنہ طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے ضمن میں مثبت پیش رفت واقع ہو۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل