Saturday, July 19, 2025
 

غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

 



آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں اور باہر برسات کا طوفان برپا ہے، اور میرے پیچھے کھڑکی، تیز آندھی اور موسلادھار بارش کے تھپیڑوں سے تھرا رہی ہے، اور دیوار کے ساتھ ایستادہ السٹونیا کا گھنا درخت، جو ہمارے گھر کی دوسری منزل سے بھی اوپر جا چکا ہے، ہوا میں جھوم رہا ہے، یہی برسات کے دن تھے، جب ایک روز ہم گھر سے نکلے، اور گھومتے گھومتے، اور باتیں کرتے کرتے، اور پیدل ہی چلتے چلتے شہر سے باہر زمیندار کالج پہنچ گئے۔ کالج توگرمیوںکی تعطیلات کے باعث بند تھا، ہم نے سوچا، کینٹین جا کے دیکھتے ہیں، شایدکوئی موجود ہو اور ہم چائے پی سکیں۔ لیکن، اس سے پہلے ہی ایکا ایکی تیز آندھی اور طوفانی بارش نے ہمیں آلیا۔ ہم بھاگ کر کالج کے بیرونی برآمدے میں اپنے کلاس روم، جہاں انگریزی کے پیریڈ ہوا کرتے تھے، کے باہر کھڑے ہو کر بارش تھمنے کا انتظار کرنے لگے۔ مجھے یاد ہے، ہم کلاس روم کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے کھڑے تھے کہ انور نے محویت کے عالم میں کہا، ’یار ،پتا نہیں لوگ کیوں اپنے گھر، اپنے شہر، اپنے پیاروں اور ان خوب صورت نظاروں کو خیر باد کہہ کے اجنبی ملکوں میں چلے جاتے ہیں، اور وہیں زندگی گزار دیتے ہیں۔‘ میں نے کہا، ’ سب سے زیادہ تم کشمیری لوگ ہی باہر جاتے ہو، اور وہ بھی لندن میں۔‘ اس نے کلاس روم کی دیوار تھپتھپاتے ہوئے کہا،’ میں تو یہیں رہوں گا اور لیکچرر بنوںگا، اور اسی کلاس روم میں پڑھایا کروں گا، اور برسات میں یہیں کرسی پر بیٹھ کے بارش کا نظارہ کیا کروں گا۔‘ جب کچھ دیر بعد بارش رک گئی، اور میں نے اس سے کہا،’ پروفیسر صاحب، اب واپس آجائیں‘، تو وہ کھلکھلا کے ہنس پڑا تھا،اور اس لمحہ اس کا گورا چٹا کشمیری چہرہ اور بھی دمکنے لگا تھا۔ مگر، اس وقت کیا معلوم تھا کہ قدرت کوکچھ اور ہی منظور ہے۔ انور، وجیہہ کشمیری تو تھا ہی، لیکن کلاس میں اس لیے بھی نمایاں ہوتا تھا کہ سر میں خوب تیل لگا کے آتا تھا، اور اسی طرح جوتوں کو بھی خوب پالش کرکے آتا تھا ۔ ایک روز اس کے بال کچھ زیادہ ہی جگمگ جگمگ کر رہے تھے، اور اتفاق سے بیٹھا بھی اگلے بنچوں پر تھا ، جب پروفیسر ایم اے خان کلاس روم میں داخل ہوئے۔ پہلے تو اسے دیکھ کر کچھ ٹھٹھکے، پھر بے ساختہ کہا، ’انور، تم لوگو کا کولہو تو نہیں؟ ’نہیں سر‘، انور نے مودب لہجہ میں کہا۔’’ تو پھر یہ پورا کولہو سر پر انڈیل کے کیوں آ جاتے ہو؟‘ اس پر پوری کلاس ہنسنے لگی۔ انور نے، مگر اپنی عادت نہ بدلی۔ کہتا تھا، ’یار، روکھے پھیکے بھی کوئی بال ہوتے ہیں۔‘عام طور پر شلوار قمیص ہی پہنتا تھا ، مگر فائل ، جیسا کہ ان دنوں رواج تھا، اس کے پاس وہی ہوتی تھی، جس میں کنگھی اور شیشہ جڑے ہوتے تھے ۔ چمکتے بالوں اور جوتوں کے علاوہ اس کی ایک اور پہچان ہر وقت مسکراتے رہنا تھا، خوش مزاج ، پُرامید اور بے نیاز۔اور، پھر وہ حادثہ رونما ہوا، جس نے انور کو بدل کے رکھ دیا۔ یہ جنرل ضیاء کے مارشل لا کا دور تھا۔ انور کے والد پیپلزپارٹی کے حامی تھے، اور وہ خود بھی جمعیت سے وابستگی کے باوجود پیپلزپارٹی کا پرستار تھا۔ انھی دنوںکالج میں کوئی احتجاج ہوا، جس کی پاداش میں پولیس نے انور کو بھی گرفتار کر لیا۔ اس رات انور کے والد کی پریشانی دیکھی نہ جاتی تھی کہ پتا نہیں تھانے میں اس کا کیا حال ہو گا، پولیس اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ پیپلزپارٹی کے مقامی عہدیداروں نے کوئی مدد نہ کی، تو زندگی میں پہلی مرتبہ چوہدری پرویزالٰہی کی رہائش گاہ پر گئے۔ ان کے سیکریٹری کے فون پر پولیس نے انور کے ساتھ کوئی بدسلوکی تو نہ کی، لیکن جو چند ہفتے اس نے، بغیر کسی جرم کے، گجرات جیل میں گزارے، اس کے بعد وہ پہلے جیسا انور نہ رہا، جو لیکچرر بننا چاہتا تھا، اور ہمیشہ تعجب کرتا تھا کہ لوگ سات سمندر پار کیوں چلے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جس روز وہ رہا ہوا، اور شام کو ہم اس کے گھر بیٹھے تھے، اس نے کہا، میں نے فیصلہ کر لیا ہے، میں نے یہاں نہیں رہنا ہے۔ چند روز بعد معلوم ہوا ، وہ اسلام آباد گیا ہے۔ واپسی پر اس نے بتایا کہ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں داخلہ لے رہا ہے۔ ’پنجاب یونیورسٹی میں کیوں نہیں؟‘ میں نے پوچھا۔ کہنے لگا، ’لاہور کی نسبت اسلام آباد سے امریکا یا یورپ جانا آسان ہے، اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں‘۔ چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ اس کا داخلہ ہو گیا ہے، اور وہ اسلام آباد چلا گیا ہے۔ شروع شروع میں وہ بہت خوش تھا کہ اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ اس دوران ایک مرتبہ ایک جاب انٹرویو کے لیے میرا اسلام آباد جانا ہوا، تو اس کے پاس ہی ٹھہرا۔ یہ کوئی کوٹھی تھی، جس کی بیسمنٹ میں اس کا کمرہ تھا، اورگرمیوں میں بھی کافی ٹھنڈا محسوس ہو رہا تھا۔ شام کو کھانا کھا کے باہر نکلے اور چلتے چلتے دور نکل گئے، تو ایک جگہ رُک کے کہنے لگا، یار، باہر جانے کی کوئی صورت نہیں بن رہی ، شب تاریک و منزل دور و نقش جادہ ناپیدا۔ والدین پرمزید بوجھ نہ بننے کے لیے کوئی جز وقتی نوکری بھی کر رہا تھا۔ میں نے کہا،’ یہیں رہ جاؤ؟‘ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ شاید یہ آپشن وہ بالکل ترک کر چکا تھا۔ اسی طرح ایک بار لاہور آیا،اورمیرے پاس ہی رکا۔ میں نے محسوس کیا کہ بہت مضطرب ہے۔ اسے ملتے ہوئے اب یہی احساس ہوتا تھا کہ وہ روز بروز ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ پھر ایک روز معلوم ہوا کہ آخر کار باہر چلا گیا ہے، اور مختلف ملکوں سے ہوتا ہوا، خطروں سے کھیلتا ہوا، کسی نہ کسی طرح اسپین پہنچ چکا ہے۔ آخری اطلاع یہ تھی کہ’ آج کل برطانیہ میںہوتا ہے، لندن میں ہی شادی کر لی ہے،تاہم گجرات کی نسبتاً جدید آبادی شادمان کالونی میں نیا گھر بھی بنا لیا ہے، جہاں اس کے والدین رہتے ہیں۔ سوچا، چلو آخرکار وہ اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے۔ قدرت نے، مگر انور کے ساتھ عجیب ہی کھیل کھیلا۔’ غربت اس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا‘۔ معلوم نہیں کس طرح کے حالات کا شکار تھا کہ ایک روز گجرات اس کے والدین پر یہ خبر بجلی بن کے گری کہ انور کے دماغ کی نس پھٹ گئی ہے اور اسپتال پہنچنے سے پیشتر ہی زندگی کی بازی ہارگیا ہے۔ اس کا بے روح جسد واپس گجرات پہنچا، تو لندن میں اس کے بیوی بچوں میں سے کوئی بھی ساتھ نہ تھا۔ جس طرح تنہا اور خالی ہاتھ گجرات سے گیا تھا ، اسی طرح تنہا اور خالی ہاتھ واپس آ گیا تھا۔ جب کبھی گجرات جاتا ہوں ، اور گئے دنوں کی تلاش میں زمیندارکالج کی راہداریوں میں پھرتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ اگر وہ جرم بے گناہی میں قید نہ ہوتا، اور وہی پہلے والا ’انور‘ ہوتا، تو کبھی بددل ہو کے، خود کو خطرے میں ڈال کے باہر نہ جاتا، اور زندگی گنوا کے واپس نہ آتا، یہیں لیکچرر ہوتا اور آج بھی ہمارے پاس ہوتا، مگرغالبؔ نے کہا تھا  ؎   شحنہء دہر برملا ہرچہ گرفت، پس نداد کاتب بخت در خفا ہر چہ نوشت حک نخواست

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل