Loading
تمغہء امتیاز 22 جون 2025 ء کی اطلاع کے مطابق امریکہ آخر ایران اسرائیل جنگ میںکود پڑا تھا، اسرائیل کے موقف کی حمایت کر تے ہو ئے اچانک ایران کی ایٹمی تنصیبات پر پوری قوت سے حملہ کردیا اور پھر یہ کہا کہ امریکہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے، ہمارا تصور یہ کہتا ہے کہ اس کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں ناچتے ہو ئے یہ فلمی گا نا گایا ہو گا، میر ا نشانہ دیکھے زمانہ،میراشانہ دیکھے زمانہ اور اس پورے منظر کو نیتھن یاہو ،نے براہ راست دیکھاہو گا ، اس سے پہلے ہی امریکہ کی مد د سے اسرائیل نے ایرانی ٹاپ ملٹری لیڈر شپ ، اہم ایٹمی سائینس دانوں کو نشانہ بنایا اور انہیں شہید کیا۔ کہاں سے گو لی، گو لہ، میزائل یا ڈرون آیا، گھر میں گھس کر مارا،کس علاقائی ، ملکی یا عالمی قانون کے تحت قتل کیا ؟Operation midnight hammerآپر یشن ہتھوڑا ئے نیم شب ، اس آپریشن میں MOPs-Tomahawks-GBU-57 کے فتھ اور سیکتھ جنرنیشن یعنی وہ جدید ترین ہتھیار استعمال ہوئے جو اس سے قبل امریکہ نے کہیں استعمال نہیں کئے تھے۔جِن ہتھیاروں کو ڈیولپ کرنے میں امریکہ کو دو دہائیاں لگیں تھیں وہ ایران کے خلاف اس مختصر جنگ میں استعمال ہوئے۔ MOB مدر آف بمز جس کا وزن 30000 پو نڈ لمبائی 20 فٹ 31.5 انچ ڈایا میٹر ہے، اس طرح کے کئی بم بی۔ ون بمبار طیاروں سے گرائے گئے۔ یہ بم زمین کے نیچے گہرائی میںبنے بنکر ز کو تباہ کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں،، آپریشن ہتھوڑا ئے نیم شب،، کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہم نے ایران کی ایٹمی صلاحیت یعنی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے، اب ایران کو امن کا معاہدہ کرنا ہو گا ۔ ورنہ ۔ رونہ ۔یعنی پھر اس سے زیادہ طاقت کے استعمال کی دھمکی دی گئی۔ انگریزی زبان ’جو امریکہ کی بھی قومی زبان ہے‘ کا ادب اور فلسفہ بے مثال ہے۔ مگر اس پر جد ید اسلحہ ایک صدی سے غالب ہے، انگریزی کی ایک ضرب المثل ہے When you have a hammer everything looks like a nail یعنی جب آپ کے پاس ہتھوڑا ہو تو ہر شے ، ہر مسئلہ آپ کو کیل دکھائی دیتا ہے پاکستان میں داد گیر کسی کو سبق سکھانے کو خفیہ انداز میں کہتے ہیں ’ٹھوک دے‘ بہرحال امریکہ نے عراق ، یمن ، شام ، لیبا اور دیگر کئی ملکوں کی طرح ایران میں بھی ہتھوڑا چلا یا اور ،،ٹھوک دینے کی کو شش کی ، مگر اس بار یہ کو شش پوری طرح کامیاب نہیں ہو ئی ۔ ہتھوڑے کا درست استعمال ہم نے دلیپ کمار کی ایک انڈین فلم مزدور میں دیکھا تھا، جس کا سین یوں تھا کہ کسی چھوٹے سے شہر میں دلیپ کمار ’جو ایک ٹیکسٹائل مل میںمزدور اور مزدور لیڈر بھی ہے‘ اس کے گھر ایک بے روز گار نوجوان میکنیکل انجینئر ٹھہر تا ہے۔ دلیپ اسکی مدد کرتا ہے۔ ٹیکسٹائل مل سے سستے داموں کٹ پیس دلواتا اور وہ اِن کو فروخت کرکے روزی کما لیتا ہے۔ دو پہر کو کھانے کا ٹفن ٹیکسٹائل مل میں دلیپ کمار کو پہنچاتا ہے۔ ایک دن مل کی مشین خراب ہو جا تی ہے۔ مشین کو ٹھیک کرانے کے لیے انجنیئر کولکتہ سے بلوانا پڑتا ہے۔ یوں انجینئر کا معاوضہ اور پھر اُس کے آنے تک مل کا بند رہنا ،اس سے مالک مزدور سب کا نقصان ہے ، اتنے میں بے روزگار انجینئر کھانا لیکر آتا ہے ،دلیپ کمار مل مالک کو کہتا ہے یہ بھی انجینئر ہے اس کو آزمالیا جا ئے ،مالک کہتا کہ آپ مشین کو ٹھیک کر نے کے کتنے پیسے لو گے ؟نوجوان جواباً ایک ہزار روپے کا مطالبہ کرتا ہے، نوجوان انجینئر مشین کو اسٹارٹ کرواتا ہے جو فوراً رک جاتی ہے، پھر ہتھوڑا منگواتا ہے اور ہتھوڑا لیکر مشن کے کسی ویل کے ایکسل پر ہلکے درجے کی چوٹ مارتا ہے مشین چل جا تی ہے مشین ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اس پر مالک کہتا ہے کہ ہتھوڑے کی ایک ضرب کے ایک ہزار روپے؟ نوجوان جواب دیتا ہے ، ہتھو ڑے کی چوٹ کا صرف ایک روپہ ہے ، 999 نو سو ننانوے روپے اس بات کے ہیں کہ ہتھوڑے کی چوٹ کہاں اور کتنی شدت سے لگا نی ہے۔ ہتھوڑا پہلی بار دنیا میں سابق سوویت یونین کے جھنڈے پر دانتری کے ساتھ لہرایا تھا۔ روس میں اشتراکی انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کی بادشاہت کے خلاف اکتوبر 1917 ء آیا تھا جس کے پس منظر میں کارل مارکس اور لینن کے اشتراکی نظریا ت تھے۔ سوویت یونین نے اپنے پرچم پر درانتی کا نشان کسانوں اور ہتھوڑے کا نشان مزدروں کی شناخت کے حوالے سے رکھا تھا۔ یعنی اکتو بر 1917 ء کے انقلاب کے بعد سوویت یونین میں مزدوروں اور کسانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ یہی طبقات اقتدار اعلیٰ کے مالک تصور کئے گئے ، روس 1914 ء سے 1917 ء پہلی جنگِ میں ایک کروڑ کے قریب جانیں قربان کر چکا تھا۔ انقلاب کے بعد لینن نے روس کو جنگِ عظیم اوّل سے نکال لیا ۔1924 ء میں لینن کا انتقال ہو گیا۔ اُس وقت تک روس میں انقلاب کی سرخ حکومتی اورسفیدا نقلاب مخالف قوت میں جنگ جاری تھی ابھی طے نہیں پا یا تھا کہ اشترکی انقلاب کامیاب ہو گا یانہیں۔ مگرجب 1925 ء میںاقتدار پر جوزف اسٹالن کی گرفت مضبوط ہو گئی تو اُس نے ہتھوڑے کے مخالفین کو ایسا ٹھوکا کہ اپنے دور حکومت میں تقریبا ًایک کروڑ افراد کو قتل کردیا۔ بڑی تعداد میں مخالفین کو سائبریا اور دیگر سرد ترین علاقوں میں قید رکھا۔ سوویت یونین نے ہنگری کے علاوہ بھی مشرقی یورپ اور بلقانی ریاستوں میں ہتھوڑا چلایا اور ہتھوڑے والے پر چم کو بلند رکھا۔ سابق سوویت یونین کو ایک اچھا موقع دوسری جنگ عظیم کے دوران ملا جب وہ برطانیہ ، فرانس ، کینیڈا،آسٹریلیا اوریورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ کے اتحادی بلاک میں شامل ہوا۔ مئی 1945 ء میں سب سے پہلے سوویت یونین ہی کی فوجیں جرمنی میں داخل ہو ئیں۔ پھر بعد میں یہ جرمنی ،مشرقی مغربی جرمنی میں تقسیم کر دیا گیا اور مشرقی جرمنی 45 سال تک یعنی 1990 ء سوویت یونین کے کنٹر ول میں رہا، سوویت یونین نے اُس وقت طاقت کے نشے میں خوب ہتھوڑا چلا یا۔ جہاں کہیں اشتراکیت کے لیے ذرا فضا ہموار دیکھی اُس ملک اور اُس ملک کے عوام کو ٹھوک دیا۔ 1945 ء اگست میں امریکہ نے جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیرو شما میں لٹل بوائے اور فیٹ مین نامی دو ایٹم بم گراکر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا اوراعلان بھی حقیقی ثابت ہوا، باوجود اس کے کہ امریکی پرچم پر 50 ستارے اور13 سفید اور سرخ لکیریں ہیں۔ امریکہ نے تاریخ کا سب سے زور دار ہتھوڑا استعمال کیا 7 اور 9اگست 1945 کو دو ایٹم بموں سے جاپان کو دو مرتبہ ٹھوک دیا امریکہ واقعی ’بمباٹ‘ ہے، شاید لفظ ’بمباٹ‘ ہمارے قارئین کے لیے نیا یا اچھو تا ہو، مگر کو ئٹہ کے پرانے باسی اس سے بخوبی واقف ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں تک کو ئٹہ میں ایک بھاری بھرکم فٹبالر حاجی بمبارٹ کے نام سے ہو اکرتا تھا۔ فٹ بال سے ریٹائرمنٹ کے بعد اُس نے ایک ،،چائے خانہ ،، پرنس روڈ پر ’طوفان میل ہوٹل‘ کے نام سے کھو ل لیا تھا۔ وہ اپنی نو جوانی میں دفاعی کھلاڑی(ڈیفینڈر) کی حیثیت سے فٹ بال کھیلتا تھا اور اُس کی کک سے ایک دو مرتبہ فٹ بال پھٹ گیا تھا اس لئے اُس کا نام بمبارٹ ہو گیا تھا۔ پھر حج کر نے کے بعد وہ حاجی بمبارٹ کہلانے لگا۔ سوویت یونین اپنے ہتھوڑے کے غرور میں جہاں چاہتا کسی ملک کے عوام کو ہتھوڑے سے ٹھوک دیتا تھا، دنیا کا ہر مسئلہ سوویت یونین کے لیے کیل تھا۔ سوویت یونین کو یہ معلوم نہ تھا کہ کچھ قومیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں کوئی کیل نہیں گُھستی چاہیے کتنی ہی قوت سے ہتھوڑے کی ضرب لگا ئی جائے ۔1980-81 ء سوویت یونین نے افغانستان کو بھی ٹھوکنے کی کوشش کی تھی، افغانستان میں ہر طرف پہاڑ ہیں، افغان قوم کے عزائم بھی چٹانوں کی طرح مضبو ط تھے، آخر سوویت یونین اس کوشش میں 1990 ء میں خود ہی ٹوٹ گیا۔ پھر امریکہ نیٹو ممالک کے ساتھ افغانستان میں ہتھوڑا چلانے آیا ، تورا بوراکردیا، مدر بم گرائے لیکن اسے بھی تقریباً بیس سال بعد ناکام ہو کررخصت ہونا پڑا اور رسوائی الگ ہوئی۔ دوسری طرف عراق ، شام ،لیبیا، سوڈان ، سومالیہ اور دیگر کئی ممالک کو امریکہ نے اچھی طرح ٹھوکا۔ اب ایران آیا اور Operation Midnight Hammer ( آپریشن ہتھورائے نیم شب) کے نام سے آدھی رات کو ہتھوڑے سے ٹھوکنے کی بھر پور کوشش کی۔ ایران کو بہت نقصان پہنچایا ،مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ ایران میں أسے کامیابی ہوئی ہے، دوسرے نہیں مانتے، اِس وقت امریکہ کی مثال اُس فوجی افسر جیسی ہے، جس کو کسی ماتحت نے پاس سے گذرتے ہو ئے نہیں دیکھا سلوٹ نہیں کیا افسر نے ماتحت فوجی کو بلوایا ڈانٹتے ہو ئے کہا، تم نے مجھے سلوٹ نہیں کیا؟ ماتحت نے کہا کہ غلطی ہو گئی، آپ کو دیکھا نہیں تھا غصے سے بھرے افسر نے ماتحت کو سزا کے طور پر حکم دیا اب مجھے ایک ہزار مرتبہ سلوٹ کرو سپاہی نے فوراً حکم پر عمل کیا۔ افسر یہ بھول گیا تھا کہ فوجی قانون کے مطابق سلوٹ کا جواب دینا بھی ضروری ہے یوں فوجی سپاہی نے ہزار مرتبہ سلوٹ کیا ،افسر نے ہزار مرتبہ سلوٹ کا جواب دیا، اب امریکہ کا موقف یہ ہے ، وہ امن کی کوشش کر رہا ہے یعنی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان امن کا معاہدہ ہو۔ اِن کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات سے ایسا لگتا ہے جیسے آج سے 60 برس پہلے جب ہم پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے اُس وقت جب کلاس میں دو بچے آپس میں لڑ پڑتے تھے تو ماسٹر جی کی جانب سے صلح کی میتھاڈلوجی یہ ہوتی کہ ماسٹر جی ڈنڈا لے کر جی بھر کے دونوں کی پٹائی کرتے ،پھر فرماتے کہ اب دونوں بغل گیر ہو جاؤ۔ ہمارے ایک اور ماسٹرجی کا طریقہ کار باقی ٹیچرز سے بالکل مختلف تھا۔ وہ دو نوں لڑنے والے بچوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیتے ،پھر دونوں بچوں سے اپنے دائیں ہاتھوں سے ایک دوسرے کی ناک پکڑواتے، ماسٹر جی کے حکم کے مطابق بائیں یا سیدھے ہاتھ سے ایک دوسرے کے گالوں پر دس سے بیس تھپڑ رسید کر تے ،چونکہ یہ پہلے ہی سے ایک دوسرے کے خلاف غصے میں ہو تے تھے اس لیے دونوں کی کوشش ہو تی کہ ایک دوسرے کے چہرے پرزیادہ شدت سے طمانچے رسید کئے جائیں۔ یہ ایک دوسرے کے گال لال کر دیتے۔ اکثر اوقات چہرے سوج جا تے، بعد میں دونوں ماسٹر جی کے حکم پر ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے اور ایک دوسرے سے معافی بھی مانگتے۔ ٹیچر سے دوبارہ نہ لڑنے کا پکا وعدہ کرتے۔ جب ہم بڑے ہوئے تو ماسٹر کے معنی سمجھ آئے کہ یہ تو مالک ہو تا ہے ۔ جب کہ اُستاد کا لفظ استادہ سے نکلا ہے، جس کے معنی کھڑے رہنے کے ہیں یعنی ایسا شخص جو اخلاقی اور روحانی طور پر سکھانے والے، علم دینے والے کے طور پر کھڑا رہتا ہے وہ ہماری تہذیب تمدن اخلاقیات کا رکھوالا ہو تا ہے ۔بہر حال ہمیں ٹرمپ کی حرکتیں دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے جیسے ہمارے ماسٹر صاحب ہو ں اور دو لڑنے والے بچوں کو پہلے ایک دوسرے سے تھپڑ کھلوائیں بعض مرتبہ خو دبھی ماریں۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ لڑنے والوں نے بھی امریکہ کو گھن چکر کر دیا ہے۔ امریکہ کہتا ہے اُس نے ،،آپریشن ہتھوڑائے نیم شب،،میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو اتنا نقصان پہنچا دیا ہے کہ اب ایران یورنیم کو مصفا کر نے کی جس منزل پر تھا دوبار وہاں تک پہنچنے میںتین سے چار سال لگیں گے۔ امریکہ بمبارٹ 1945 ء میں اقوام متحدہ کے قیام اور دوسری جنگ عظیم ہی سے بنا تھا، لیکن صدر فرنکلین ڈی روزولٹ Franklin D Roosevelt ( 4 مارچ 1933 ء سے 12 اپریل 1945 ء) اور ہنری ایس ٹرومین Harry S Truman ( 12 اپریل1945 ء سے 20 جنوری 1953 ء ) نے کبھی ہتھوڑے سے ٹھوکنے کی بات نہیں کی، ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اور اس کے بعد بہت ملکوں کو ٹھوکا اور بہت سے مقامات پر سرد جنگ کے دوران امریکہ کی اپنی بھی ٹھکائی ہوئی۔ صدر ہنری ٹرومین کے حکم پر جاپان کے شہروں پر ایٹم گرائے گئے، انہی کے سپریم کمانڈر جنرل ڈگلس میکار تھرکے سامنے جاپان کے بادشاہ نے ہتھیار ڈالے تھے۔ یہی جنرل میکار تھر کوریا کی جنگ میں بھی لڑے تھے اور کہا جا تا ہے کہ جنرل میکارتھر نے کوریا کی جنگ میں صدر ہنری ٹرومین کو تجویز دی تھی کہ یہاں بھی ایٹم بم گر ایا جا ئے مگر صدر ہنری ٹرومین نے سختی سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر جنگ کے موقع پر اگرچہ تاریخی قول یعنی ( جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے ) پر امریکہ نے عمل کیا مگر کھبی ہتھوڑا نہیں چلایا اور طاقت کے استعمال کی جو بھی کاروائی کی اس میںاپنی اخلاقی پو زیشن کو بر قرار رکھا۔ نائن الیون کے بعد بھی امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے فوراً اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے افغانستان پر حملے کے لیے راہ ہموار کروائی تھی۔ پہلے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل سے اجازت نامہ حاصل کیا تھا مگر اب امریکہ بمبارٹ ہے ،امریکہ جو انسانی حقوق کا دنیا بھر میں علمبردار تھا نہ صرف اسرائیلی دہشت گردی کی مکمل حمایت کرتا ہے، بلکہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بھی شامل ہے،یعنی امریکہ کی تاریخ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے صدر ہیں جو عالمی انسانی اقدار، اخلاقیات عالمی قوانین کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایک دن جو کہتے ہیں دوسرے دن نہ صرف اُس سے مکرجاتے ہیں بلکہ اُس کا بالکل الٹ کردیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظم کے فوراً بعد سرد جنگ شروع ہو گئی تو یہ بڑی دوغلی سی جنگ تھی ،بقول داغ دہلوی خو ب پردہ ہے چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں سرد جنگ میں 1945سے 1990تک سوویت یونین وارسا پیکٹ کا بلاک بمقابلہ امریکہ اور نیٹو تھے۔ یہ بلاک دنیا میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہے مگر دونوں اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن رائٹ ڈیکلریشن کے بھر پور حامی بھی تھے۔ دونوں ہی خفیہ طور پر جنگی جرائم وغیرہ کی سر پرستی کرتے تھے مگر ساتھ ہی ان کی مذمت بھی کرتے تھے۔ یہاں اِ ن دونوں کو اپنے اپنے سافٹ امیج Soft Image کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب چین تیسری قوت نہیں بنا تھا اور امریکہ سوویت یونین دونوں ہی چین کے خلاف تھے۔ چین کے بارے میں نپولین بوناپارٹ نے کہہ تھا کہ ’’چین سویا ہوا اژدھا(ڈریگن) ہے اسے مت جگاؤ‘‘ اگر یہ جاگ گیا تو دنیا کو کھا جائے گا۔ ڈریگن کو چین کے فن وثقافت اور تاریخ میں نہایت اہم مقام حاصل ہے اور اسے چین کی مرکزی علامت کی حیثیت حاصل ہے۔ 1980 ء کی دہائی میں چین کو بھی عالمی سطح پر اپناسافٹ امیج کو بنانا پڑا تو معدوم ہوتے ہوئے خوبصورت پانڈے کو قومی اور عالمی سطح پر اجاگر کیا گیا۔ بھارت نے جب 1974 ء میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو اُس بم کا نام سمائلنگ بدھا یعنی ،،مسکراتا،، ہوا مہاتما بدھ رکھا۔ جبکہ بھارت میں بڑی تپسیا کاٹنے کے بعد بدھا کو بنگلہ دیش گیان حاصل ہوا تھا۔ وہ برگد کا درخت آج بھی موجود ہے جس کے نیچے مہاتما بدھ بیٹھے تھے۔ بھارت کی ڈھائی ہزارہ تاریخ گواہ ہے کہ اشوک اعظم نے جنگ کلنکا میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل بعد جنگ سے توبہ کی تھی( ہا ئے اُس زود، پشیماں کا پشیماں ہو نا)پھر اشوک اعظم نے بدھ مت اختیار کیا اور اس دوران ہندوستان میں بدھ مت کو فروغ حاصل ہوا۔ مگر اشوک اعظم کی وفات کے بعد ہندوستان کے ہند وں نے ایسی بہیمانہ اور ظالمانہ کاروائیاں بدھ مت کے ماننے والوں کے خلاف کیں کہ ہندوستان میں اُن کا تقریباً خاتمہ کر دیا۔ اس وقت بھارت کی ایک ارب 42 کروڑ آبادی میں بدھ مت کے ماننے والوں کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اشوک اعظم کے بعد بدھ مت یہاں سے چین ، جاپان ۔ ویتنام اور دیگر ملکوں میں پہنچا اور آج ان ملکوں کی آبادی کی اکثریت بد ھ مت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھا نے والا کو ئی نہیں ہے۔ جنگ کے ساتھ امن کی بات بھی کر تا ہے اور آپریشن مڈنائٹ ہیمر کے نام پر کھلی جارحانہ کارروائی بھی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی 1980ء کی دہائی میں ایک ہتھوڑا گروپ پید اہو گیا تھا جو رات کو سوئے ہوئے لوگوں کے سر ہتھوڑے سے کچل دیتا تھا۔ اس ہتھوڑا گروپ کا اتنا خوف پھیلا کہ لوگوں نے گرم موسم میں بھی باہر سونا چھوڑ دیا تھا۔کیا امریکہ بھی اب عالمی سطح پر کو ئی ایسا ہتھوڑا گروپ تشکیل دینا چاہتا ، اگر چہ ہر چیز کا استعمال سوچ سمجھ کر نا چاہیے اسی طرح اگر جنگ کے معنوں میں علامتی ہی سہی ہتھوڑے کا استعمال کر نا ہے تو پھر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہتھوڑا ہمیشہ لوہے کو ہو تا ہے اور لوہا ، لوہے کو کاٹتا ہے مگر یہاںمعاملہ بڑا عجیب ہوتا ہے کہ ٹھنڈا لوہا گرم لو ہے کو کاٹتا ہے۔ یہاں ایک لطیفہ یا د آیا کہ لوہار استاد شاگرد دونوں ہکلے تھے یعنی دونوں کی زبان میں لکنت تھی الفاظ اٹک اٹک کر ادا کرتے تھے۔ استا د نے گرم سرخ لو ھا بھٹی سے نکالا اور ہتھوڑے سے لیس شاگر کو کہا ما۔ ما۔ ما۔رو۔ شاگر د نے کہا ما ۔ ما۔ ما۔ ما ۔ روں ؟ استاد بولا ۔ٹھ ۔ٹھ ٹھ ۔ ٹھہ۔ ٹھہر و۔ لو۔لو ۔لو ۔ ھ۔لو ھا ، ٹھ ،ٹھ ،ٹھن، ڈا ۔ ٹھنڈا ہو۔ہو ۔گے۔گے ،یا ۔ گیا ہے۔ یہاں سوچ سمجھ کی جنگ ہے عالمی اقتصادیات کو بھی مد نظر رکھنا ہے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کے ساتھ انسانی ذہنی صلاحیتوں پر بھی نظر رکھنی ہے ، عالمی سطح پر اخلاقیات ، تہذ یب تمدن ، ذرائع ابلاغ سب کا ٹھیک ٹھیک جا ئزہ لینا ہے۔ اب اگر امریکہ کے پالیسی ساز صرف طاقت پر یقین رکھتے ہو ئے ہتھوڑا چلانے اور ٹھوک دینے پر ہی یقین رکھیں گے تو ہتھوڑا بھی سہی طور پر کام نہیں کرئے گا لوہا گرم بھی کیا جائے گا تو ارادے اسٹرٹیجی ، منصو بہ بندی کی لکنت کی وجہ سے گرم لو ھا پر ہتھوڑے کے استعمال کے باوجود اثر نہیں ہو گا کیا امریکہ بھی آپریشن ہتھوڑائے نیم شب ،، میں ناکام ہو جا ئے گا؟امریکہ بمبارٹ کاحال بھی سوویت روس جیسا ہو گا؟ مگر یہاں خطرہ یہ کہ امریکہ عالمی اقتصادی ، عسکری قوت کے اعتبار سے دنیا کی بڑی ہی نہیں عظیم قوت ہے۔ اس کے ٹوٹنے سے دنیا میں فوری طور پر ایک بھونچال آجائے گا۔ جو اینڈ آف ہسٹری End of Histroy بھی ہو سکتا ہے ۔امریکہ کو بھی رہنا چاہیے اور دنیا کو بھی۔ اس لیے امریکہ کو چاہیے کہ وہ جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرئے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل