Loading
پاکستان میں ٹیکسٹائل، کمپوزٹ میٹریلز اور پائیدار ترقی کے میدان کو ملکی معیشت، روزگار اور صنعتی جدت کے تناظر میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت ہے، جو لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے اور ملک کے جی ڈی پی میں بھی نمایاں حصہ ڈالتی ہے۔ تاہم روایتی پیداواری طریقے، ماحولیاتی اثرات اور عالمی مسابقتی چیلنجز کے باعث اس صنعت کو جدید ٹیکنالوجی اور پائیدار حل کی شدید ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمپوزٹ میٹریلز، جن میں قدرتی فائبر، ری سائیکل شدہ مواد اور ہلکے وزن کے مگر مضبوط اجزاء شامل ہوتے ہیں، ٹیکسٹائل سیکٹر میں نئی راہیں کھول رہے ہیں۔ ان مواد کی مدد سے ایرو اسپیس، آٹوموٹیو اور ڈیفنس سمیت دیگر صنعتوں کے لیے ایسے حل تیار کیے جا رہے ہیں جو ماحول دوست، کم لاگت اور تکنیکی لحاظ سے ترقی یافتہ ہوں۔ پائیدار ترقی کے تناظر میں ماحولیاتی تحفظ، وسائل کی بچت اور سماجی ذمہ داری جیسے پہلو مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور اب ٹیکسٹائل ری سائیکلنگ، سرکلر اکانومی اور بایو بیسڈ خام مال جیسے منصوبے نہ صرف صنعت کو نئی زندگی دے رہے ہیں بلکہ دیہی معیشت اور خواتین کے لیے بھی مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ اس تمام منظرنامے میں تحقیق، تعلیم اور صنعتی شراکت داری کو ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے، تاکہ پاکستان اس میدان میں عالمی معیار پر پورا اتر سکے اور معاشی خودمختاری کی جانب کامیابی سے گامزن ہو۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے وطن عزیز کو اس شعبہ میں دلچسپی رکھنے والے صحت مند اور متحرک اذہان کی ضرورت ہے، ایسے ہی اذہان میں ایک نام بڑی تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور وہ ہیں، پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب… پاکستان میں ٹیکسٹائل، کمپوزٹ میٹریلز اور پائیدار ترقی کے میدان میں ایک نمایاں اور معتبر نام پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب کا ہے جو نہ صرف ایک ماہر محقق ہیں بلکہ تدریس، قیادت اور قومی پالیسی سازی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت پنجاب میں تحصیل سطح پر بننے والی پہلی سرکاری جامعہ، یونیورسٹی آف کمالیہ (ٹوب ٹیک سنگھ) کے وائس چانسلر اور نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ ان کے تحقیقی منصوبے جیسے KnowTex اور Banana Fiber نہ صرف علمی حلقوں بلکہ صنعتی اور زرعی میدان میں بھی تبدیلی کا باعث بنے ہیں۔ پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد سے شروع ہونے والا علمی سفر پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب کو دیار غیر تک لے گیا، جہاں نہ صرف انہوں نے پہلے خود تعلیم حاصل کی بلکہ بعدازاں اپنی قابلیت کی بنیاد پر امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کی معروف جامعات میں مدرس کے فرائض بھی سرانجام دے چکے اور یہ سلسلہ آج تلک جاری ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے ان سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس میں ان کی زندگی، خدمات، تحقیقی ویژن اور نوجوان نسل کے لیے رہنمائی پر تفصیلی بات چیت کی گئی، جو نذرِ قارئین ہے۔ ایکسپریس: سب سے پہلے آپ ہمارے قارئین کو اپنی ابتدائی تعلیم اور پیشہ وارانہ سفر کے بارے میں مختصراً بتلائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: میری تعلیم کا آغاز فیصل آباد سے ہوا، جو پاکستان کے ٹیکسٹائل حب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ چونکہ بچپن ہی سے میری سائنس، تخلیق اور تکنیکی مہارتوں میں دلچسپی تھی، اس لیے قدرتی طور پر میرا رجحان ٹیکسٹائل انجینئرنگ کی طرف ہو گیا۔ میں نے نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی سے بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس کا انتخاب کیا، جہاں میں نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی مکینیکل انجینئرنگ میں مکمل کی، اور بعدازاں Habilitation à Diriger des Recherches (RDH) کی سند حاصل کی، جو فرانس میں تحقیق کی اعلیٰ ترین قابلیت سمجھی جاتی ہے۔ پیشہ وارانہ سفر کے دوران مجھے پاکستان، امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں تحقیق، تدریس اور صنعتی اشتراکیت کا موقع ملا۔ میں اس وقت نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں پروفیسر اور یونیورسٹی آف کمالیہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ) کا وائس چانسلر ہوں، جبکہ نارتھ کیرولینا اسٹیٹ یونیورسٹی (امریکا) اور نارتھمبریا یونیورسٹی (برطانیہ) میں بھی بطور ایڈجنکٹ اور وزیٹنگ پروفیسر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ ایکسپریس: بین الاقوامی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کا تجربہ آپ کی تحقیقی سوچ پر کیسے اثر انداز ہوا؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: بین الاقوامی جامعات کا تجربہ میرے لیے ایک فکری انقلاب کی مانند تھا۔ فرانس میں تعلیم کے دوران نہ صرف تحقیقی طریقہ کار کو جدید انداز میں سیکھا بلکہ مختلف قومیتوں کے محققین کے ساتھ کام کر کے تنوع، تخلیق اور ہم آہنگی کے تجربات بھی حاصل کیے۔ وہاں تحقیقی کام صرف تھیوری تک محدود نہیں بلکہ صنعتی اطلاقات، پائیداری اور سماجی پہلوؤں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یہ تمام پہلو میری تحقیق کا مستقل حصہ بنے۔ اس تجربے نے مجھے یہ سکھایا کہ تحقیق صرف سائنسی علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی ذمہ داری ہے۔ ہمیں تحقیق کے ذریعے ایسے حل نکالنے چاہئیں جو انسانیت، ماحول، اور معیشت کے لیے بیک وقت سودمند ہوں۔ ایکسپریس: KnowTex پراجیکٹ کے بنیادی مقاصد کیا ہیں اور یہ پاکستانی معیشت پر کس طرح اثرانداز ہو رہا ہے؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: KnowTex ایک ویژنری، کثیرالجہتی اور قومی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو روایتی اندازِ فکر سے نکال کر جدید، پائیدار اور عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ نظام کی طرف لے جانا ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد اس نظریے پر رکھی گئی ہے کہ پاکستان کو صرف کم قیمت لیبر اور خام مال کی بنیاد پر عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرنا بلکہ ہمیں علم، تحقیق اور اختراع (Innovation) کو بنیاد بنا کر ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کرنا ہوں گی۔ KnowTex کے تحت ہم نے صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان ایک مضبوط رابطہ قائم کیا ہے تاکہ دونوں مل کر تحقیق، پراڈکٹ ڈویلپمنٹ، اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر کام کریں۔ اس منصوبے کے ذریعے ٹیکسٹائل کے مختلف مراحل جیسے کہ فائبر سے لے کر فائنل گارمنٹس تک، ہر سطح پر پائیدار طریقے اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ہم ری سائیکلنگ، انرجی ایفیشینسی اور ماحولیاتی تحفظ جیسے پہلوؤں کو صنعتی عمل کا حصہ بنا رہے ہیں۔ KnowTex پالیسی ساز اداروں کے ساتھ مل کر ایسے قوانین اور اصلاحات تجویز کر رہا ہے جو ٹیکسٹائل سیکٹر کو سرکلر اکانومی کی جانب لے جا سکیں۔ اس کے ذریعے نہ صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات میں قدر کا اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہو گا۔ یہ منصوبہ نئے کاروباری ماڈلز کو فروغ دے رہا ہے، نوجوان محققین کو انڈسٹری کے مسائل پر تحقیق کا موقع دے رہا ہے، اور سرمایہ کاروں کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے۔ مختصراً، KnowTex نہ صرف معیشت کو مضبوط بنا رہا ہے بلکہ ایک نئے سائنسی اور صنعتی کلچر کو جنم دے رہا ہے جو پاکستان کی دیرپا ترقی کا ضامن بنے گا۔ ایکسپریس: Banana Fiber جیسے منصوبے ماحولیاتی پائیداری اور روزگار میں کس حد تک مددگار ہیں؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: Banana Fiber منصوبہ بظاہر ایک سادہ تحقیقی آئیڈیا ہے، مگر اس کے اثرات دور رس اور ہمہ جہت ہیں۔ یہ منصوبہ زرعی فضلے کو کارآمد، بائیوڈیگریڈیبل اور ماحول دوست فائبر میں تبدیل کرنے پر مبنی ہے، جو نا صرف صنعتی استعمال کے قابل ہوتا ہے بلکہ ماحول کو نقصان پہنچانے کے بجائے اس کی بہتری میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ موجودہ عالمی ماحولیاتی بحران، فضلے کے مسائل، اور پلاسٹک کے متبادل کی شدید ضرورت کے پیش نظر یہ منصوبہ ایک گرین انڈسٹری کی بنیاد رکھتا ہے۔ ہم نے اس منصوبے کو پاکستان، کینیا اور یوگنڈا جیسے ممالک میں متعارف کرایا ہے جہاں زراعت اہم ذریعہ معاش ہے مگر زرعی فضلہ عموماً ضائع کر دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے۔ ہم نے کسانوں، بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کو Banana Fiber کی پیداوار، پروسیسنگ اور مارکیٹنگ کے مراحل سے جوڑ کر انہیں ایک باعزت روزگار مہیا کیا ہے۔ اس عمل میں خواتین کی معاشی شراکت داری بڑھ رہی ہے، اور دیہی معیشت کو ایک نئی جہت مل رہی ہے۔ یہ فائبر ٹیکسٹائل، ہینڈکرافٹس، بائیو کمپوزٹس اور پیکیجنگ جیسی مختلف صنعتوں میں استعمال ہو سکتا ہے، جو اسے برآمدی سطح پر بھی مفید بناتا ہے۔ اس سے نہ صرف مقامی صنعت کو نیا خام مال میسر آتا ہے بلکہ پاکستان کی برآمدات میں ایک نیا ماحول دوست سیکٹر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ Banana Fiber ایک مکمل سرکلر ماڈل کی نمائندگی کرتا ہے جہاں فضلہ وسائل میں تبدیل ہوتا ہے، ماحولیاتی بوجھ کم ہوتا ہے، اور انسانی زندگی میں بہتری آتی ہے۔ میرے نزدیک یہ صرف ایک تکنیکی پراجیکٹ نہیں بلکہ ایک سماجی، ماحولیاتی اور معاشی انقلاب کی شروعات ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک رول ماڈل بن سکتا ہے۔ ایکسپریس: ٹیکسٹائل اور کمپوزٹ میٹریلز میں آپ نے کن نئی ٹیکنالوجیز یا حل متعارف کروائے؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: میری تحقیق کا مرکز 3D ویون کمپوزٹس، قدرتی فائبر کمپوزٹس، بیلسٹک پروٹیکشن اور EMI شیلڈنگ جیسے جدید شعبے رہے ہیں۔ ہم نے قدرتی فائبرز پر مبنی ہلکے مگر مضبوط کمپوزٹ میٹریلز تیار کیے جو ایرو اسپیس، آٹوموٹو اور ڈیفنس سیکٹرز میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ اب تک میرے نام تین پیٹنٹس رجسٹرڈ ہیں اور 150 سے زائد میرے تحقیقی مقالہ جات شائع ہو چکے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ تحقیق کو صرف مقالہ نگاری تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عملی اطلاق کے ذریعے صنعت اور معیشت کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ایکسپریس: پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو عالمی مارکیٹ میں مؤثر بنانے کے لیے کن چیلنجز پر کام ہو رہا ہے؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے سامنے سب سے بڑا چیلنج کم ویلیو ایڈیشن، پرانی ٹیکنالوجی، ماحولیاتی معیار کی کمی اور تحقیق و ترقی (R&D) کی عدم موجودگی ہے۔ KnowTex جیسے منصوبے انہی چیلنجز کے حل کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ہم ایسے پائیدار ماڈلز تیار کر رہے ہیں جو عالمی ماحولیاتی اور تجارتی معیارات کے مطابق ہوں۔ اس کے علاوہ، ہم افرادی قوت کو جدید مہارتوں سے آراستہ کر رہے ہیں تاکہ صنعت کی پیداواری صلاحیت اور جدت میں اضافہ ہو۔ ایکسپریس: پاکستانی جامعات میں تحقیق اور تدریس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے آپ کیا تجویز کریں گے؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: جامعات کسی بھی قوم کی فکری و سائنسی ترقی کا مرکز ہوتی ہیں، اور جب ہم پاکستانی جامعات کی بات کرتے ہیں تو سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم تعلیم اور تحقیق کے درمیان موجود خلیج کو ختم کریں۔ اس وقت اکثر جامعات میں نصاب اور تحقیق ایک دوسرے سے منقطع ہیں۔ میری تجویز ہے کہ نصاب کو مسئلہ حل کرنے (problem-solving) اور اختراع (innovation) پر مبنی بنایا جائے تاکہ طلبہ محض تھیوری تک محدود نہ رہیں بلکہ تحقیق کو ایک عملی عمل سمجھیں۔ اساتذہ کو بھی محض تدریسی فرائض تک محدود رکھنے کے بجائے انہیں تحقیقی قیادت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ریسرچ فنڈنگ، تربیتی ورکشاپس، انٹرنیشنل ریسرچ نیٹ ورکس سے شمولیت اور اشاعتی ہدف جیسے اقدامات کے ذریعے ہم اساتذہ کو متحرک اور بااثر بنا سکتے ہیں۔ جامعات کو صنعت کے ساتھ شراکت داری قائم کرنی چاہیے تاکہ تحقیق کا رخ عملی مسائل کی طرف ہو، اور ان سے ایسی مصنوعات یا عمل سامنے آئیں جو مارکیٹ میں حقیقی تبدیلی لا سکیں۔ میں یہ بھی تجویز کرتا ہوں کہ ہر طالب علم کو کم از کم ایک تحقیقی منصوبے پر کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے، تاکہ وہ سیکھنے کے عمل میں مکمل طور پر شامل ہو اور خود اعتمادی پیدا کرے۔ ایکسپریس: بحیثیت استاد و محقق، آپ طلبہ کی فکری و اخلاقی تربیت میں کن اقدار کو مرکزی سمجھتے ہیں؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: ایک استاد اور محقق کا اصل کام صرف علم کی ترسیل نہیں بلکہ کردار کی تعمیر بھی ہے۔ میرے نزدیک تحقیق میں ایمانداری، سچائی، اور علمی دیانت بنیادی اقدار ہیں۔ اگر ایک محقق سچائی سے ہٹ جائے تو اس کی تحقیق خواہ کتنی ہی جدید یا منفرد ہو، وہ انسانی بھلائی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ میں اپنے طلبہ کو سکھاتا ہوں کہ تحقیق کا مقصد ذاتی ترقی یا شہرت حاصل کرنا نہیں بلکہ سماج کی فلاح اور انسانی بہتری ہونا چاہیے۔ سماجی ذمہ داری ایک اور کلیدی پہلو ہے جس پر میں زور دیتا ہوں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس کے مسائل کو سمجھنا اور ان کے حل میں اپنا حصہ ڈالنا ایک محقق کا فرض ہے۔ اسی طرح تنقیدی سوچ، تخلیقی نظریہ، اور باہمی احترام وہ اوصاف ہیں جو کسی بھی طالب علم کو ایک عظیم سائنس دان اور ایک بہتر انسان بناتے ہیں۔ میں ہمیشہ طلبہ سے کہتا ہوں کہ علم کا اصل حسن اْس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ دوسروں کی زندگیوں میں بہتری لاتا ہے۔ اگر آپ نے علم حاصل کیا مگر وہ معاشرے تک منتقل نہ کیا، تو وہ علم صرف آپ تک محدود رہ جائے گا۔ ہم سب کو علم کو ایک امانت سمجھ کر دوسروں تک پہنچانے کا عزم کرنا چاہیے۔ ایکسپریس: یونیورسٹی آف کمالیہ کے تعلیمی ویژن اور ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں ہمیں آگاہ کریں۔ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: یونیورسٹی آف کمالیہ کا قیام محض ایک اور تعلیمی ادارہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ ایک نئے تعلیمی تصور کی عملی تعبیر کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ ہم نے ابتدا ہی سے یہ فیصلہ کیا کہ اس ادارے کو روایتی تدریسی ڈھانچے سے ہٹ کر ایک جدید، تحقیق پر مبنی اور انوویشن ڈرائیون ادارہ بنایا جائے۔ ہمارا ویژن ہے کہ یونیورسٹی آف کمالیہ نہ صرف اس خطے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک ایسا تعلیمی مرکز بنے جو مقامی ضروریات کو عالمی معیار کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ مستقبل کی ایسی یونیورسٹی ہو، ایک ایسی جگہ، جہاں تحقیق صرف لیبارٹری تک محدود نہ ہو بلکہ سماج کے ہر مسئلے کا حل تلاش کرنے کا ذریعہ بنے۔ اسی مقصد کے تحت ہم نے تین مرکزی ستون طے کیے ہیں: پائیداری (Sustainability)، ٹیکنالوجی (Technology) اور انٹرپرینیورشپ (Entrepreneurship)۔ ان ستونوں پر مبنی ہم ایسا تعلیمی ماحول تشکیل دے رہے ہیں جہاں طلبہ نہ صرف علمی مہارت حاصل کریں بلکہ عملی زندگی کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔ یونیورسٹی آف کمالیہ میں نصاب کو جدید عالمی رجحانات کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنی ڈگری پروگرامز کو Outcome-Based Education (OBE) اور Problem-Based Learning (LBP) پر مبنی بنایا ہے تاکہ طلبہ میں تنقیدی سوچ، فیصلہ سازی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکے۔ روایتی لیکچر سسٹم سے آگے بڑھ کر ہم انٹرایکٹو اور تجرباتی تعلیم پر زور دے رہے ہیں، جس میں انڈسٹری کیس اسٹڈیز، فیلڈ ورک، اور ریئل ٹائم پروجیکٹس شامل ہیں۔ تحقیق کو فروغ دینے کے لیے ہم نے متعدّد ریسرچ اینڈ انوویشن سینٹرز قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جن میں زراعت، ٹیکسٹائل، کمپوزٹ میٹریلز، کلائمیٹ چینج، اور سوشل انوویشن جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔ ہمارا عزم ہے کہ یہ مراکز نہ صرف سائنسی علم پیدا کریں بلکہ وہ علم مقامی صنعت، معاشرت اور معیشت میں بھی منتقل ہو۔ ہم انڈسٹری اکیڈمیا روابط کو مضبوط بنا رہے ہیں تاکہ ہماری تحقیق، انڈسٹری کی اصل ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔ اس مقصد کے لیے ہم نے مختلف صنعتی اداروں کے ساتھ مفاہمتی یادداشتیں (MoUs) سائن کی ہیں اور ان کے اشتراک سے مشترکہ تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے تاکہ طلبہ کو دورانِ تعلیم ہی انڈسٹری میں عملی تجربہ دینے کے لیے انٹرن شپ پروگرامز، ٹیکنیکل ورکشاپس اور انٹرپرینیور شپ بوٹ کیمپس کا انعقاد کیا جا سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی آف کمالیہ صرف طلبہ کو ڈگری دینے والا ادارہ نہ ہو بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں سے تحقیق، اختراع اور قیادت کے نئے در کھلیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم بین الاقوامی اداروں سے تعاون بڑھا کر اس یونیورسٹی کو ایک گلوبل نالج نیٹ ورک کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارا ہدف ہے کہ آئندہ پانچ سالوں میں یونیورسٹی آف کمالیہ پاکستان کی ٹاپ ریسرچ یونیورسٹیز میں شامل ہو اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ ایکسپریس: بین الاقوامی اداروں سے وابستگی نے آپ کے کام اور قومی سطح پر تعلیم کو کس طرح فائدہ پہنچایا؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: عالمی سطح کے اداروں سے میری وابستگی نے نہ صرف میرے ذاتی علمی سفر کو تقویت دی بلکہ اس نے مجھے ایک پل کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا جو بین الاقوامی علمی برادری اور پاکستانی نظامِ تعلیم کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے۔ ان تعلقات کی بدولت مجھے مختلف ممالک کے تعلیمی، صنعتی اور تحقیقی ڈھانچوں کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا، جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ جدید تعلیم صرف نصاب تک محدود نہیں، بلکہ تحقیق، اختراع، اور سماجی انضمام کا ایک جامع عمل ہے۔ ان اداروں کے ساتھ اشتراک سے مجھے یہ ادراک ہوا کہ تحقیق میں تنوع، بین الشعبہ جاتی اشتراک اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کتنی اہم ہے۔ ان اداروں نے نہ صرف ہمیں جدید آلات اور ڈیجیٹل ریسرچ پلیٹ فارمز تک رسائی دی بلکہ بین الاقوامی کانفرنسز، ورکشاپس، اور اکیڈمک ایکسچینج پروگرامز کے ذریعے ہمارے اساتذہ اور طلبہ کو عالمی برادری سے براہ راست سیکھنے کے مواقع بھی فراہم کیے۔ اس سے ہمارے تحقیقی معیار میں نمایاں بہتری آئی اور ہم نے کئی ایسے پروجیکٹس پر کام کیا جو مختلف ثقافتی اور ماحولیاتی پس منظر رکھنے والے ممالک کے لیے بھی یکساں مفید ثابت ہوئے۔ خاص طور پر جب ہم پالیسی سازی، نصاب کی جدت، اور صنعت سے روابط کی بات کرتے ہیں تو بین الاقوامی اداروں کی شمولیت نے ہمیں وہ بصیرت دی جو اندرونی دائرے میں ممکن نہیں ہوتی۔ ہم نے ان اداروں کی مدد سے مقامی تعلیمی اداروں میں ایسا تحقیقی ماحول قائم کرنے کی کوشش کی جہاں جدت، فکری آزادی، اور تنقیدی تجزیہ کو فروغ دیا جا سکے۔ مزید برآں، میری کوشش رہی ہے کہ ان روابط کو محض ذاتی کیریئر تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان سے حاصل شدہ فوائد کو پورے تعلیمی نظام میں منتقل کیا جائے۔ اس مقصد کے تحت ہم نے فیکلٹی ٹریننگ پروگرامز، جوائنٹ رِیسرچ فنڈنگ کی اپروچز، اور اوپن ایکسس لرننگ ماڈیولز جیسے اقدامات شروع کیے ہیں جن سے پاکستانی جامعات میں تحقیقی خودکفالت اور تعلیمی معیار کو مستحکم کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام سرگرمیاں ایک مضبوط، آزاد، اور عالمی طور پر مربوط تعلیمی نظام کے قیام کی طرف ایک مؤثر قدم ہیں۔ حال ہی میں، ہم نے ایڈجنکٹ پروگرام کے تحت پاکستان سمیت دیگر ممالک کے متعدد پروفیسر حضرات کو اعزازی پروفیسر کے عہدوں کی پیش کش کی ہے، جو انہوں نے بخوشی قبول کر لی، اس پروگرام سے ہمارے بچوں کو بے پناہ فائدہ ہو گا۔ ایکسپریس: مستقبل میں آپ کن تحقیقی شعبوں یا منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: آنے والے برسوں میں میری توجہ سرکلر اکانومی، بایو بیسڈ کمپوزٹ میٹریلز، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور اسمارٹ ٹیکسٹائل پر مرکوز ہو گی۔ خاص طور پر ہم ری سائیکلنگ، کم کاربن اخراج والی مصنوعات، اور نیو جنریشن فائبرز پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان نہ صرف برآمدات کا ملک ہو بلکہ جدت، تحقیق اور پائیدار ترقی کا عالمی مرکز بھی بنے۔ ایکسپریس: نوجوان محققین، اساتذہ اور انجینئرنگ کے طلباء کو آپ کیا پیغام دیں گے؟ پروفیسر ڈاکٹر یاسر نواب: میرا نوجوان محققین، اساتذہ اور انجینئرنگ کے طلبہ کو پہلا اور بنیادی پیغام یہ ہے کہ علم کا مقصد صرف ڈگری یا ملازمت حاصل کرنا نہیں، بلکہ وہ سماجی، سائنسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے جو معاشرے کو بہتر بنانے میں مددگار ہو۔ تحقیق صرف لیبارٹری یا کتب خانوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اسے زمینی حقائق، قومی ضروریات اور عالمی چیلنجز کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔ میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ نوجوان نسل کو یہ سمجھایا جائے کہ اگر آپ تحقیق میں سنجیدہ ہیں، تو سب سے پہلے خود کو ایمانداری، استقلال اور تنقیدی سوچ کے اوزار سے لیس کریں۔ صرف معلومات اکٹھی کرنا کافی نہیں؛ اصل علم وہی ہے جو نئی جہتیں متعارف کروائے، پرانے مسائل کے نئے حل پیش کرے، اور انسانی فلاح کا ذریعہ بنے۔ اساتذہ کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں تجسس کو زندہ رکھیں، انہیں صرف جوابات نہ دیں بلکہ سوال پوچھنے کی ہمت دیں۔ آج کے طالب علم کل کے رہنما ہوں گے، اور ان کی تربیت میں اساتذہ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ اساتذہ کو محض تعلیمی نصاب تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انہیں اپنے شعبے میں تحقیق، جدید رحجانات، اور انڈسٹری سے ہم آہنگی کا شعور بھی رکھنا چاہیے۔ نوجوان انجینئرز سے میری گزارش ہے کہ وہ صرف ٹیکنیکل مہارتوں پر اکتفا نہ کریں بلکہ اپنی سماجی، اخلاقی، اور ماحولیاتی ذمہ داریوں کو بھی سمجھیں۔ دنیا اب "ٹیکنالوجی فار ہیومن ویلفیئر" کے اصول پر چل رہی ہے، جہاں آپ کی ایجادات، صرف مارکیٹ ویلیو نہیں بلکہ انسانی زندگی پر مثبت اثر کے لیے بھی جج کی جاتی ہیں۔ پاکستان کو مستقبل میں ایسے محققین، ماہرین اور قائدین کی ضرورت ہے جو نہ صرف سائنسی میدان میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ بصیرت، قیادت، اور دیانت سے بھی آراستہ ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے نوجوان بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنیں، لیکن اپنی شناخت، ثقافت اور اقدار کو ہمیشہ اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ آخر میں میرا یہی پیغام ہے کہ علم کو صرف استعمال نہ کریں، اسے زندہ رکھیں، پھیلائیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن اور پائیدار مستقبل کی بنیاد رکھیں۔ پنجاب میں تحصیل سطح پر بننے والی پہلی سرکاری یونیورسٹی آف کمالیہ وسطی پنجاب کے اہم شہر کمالیہ میں قائم ہونے والی یونیورسٹی آف کمالیہ وطن عزی کے اعلیٰ تعلیمی افق پر ایک منفرد اور جدید ادارے کے طور پر تیزی سے ابھر رہی ہے۔ یہ جامعہ نہ صرف عالمی معیار کی تعلیم فراہم کر رہی ہے بلکہ مقامی مسائل کے حل اور معاشی بہتری میں بھی عملی کردار ادا کر رہی ہے۔ جامعہ کمالیہ میں اس وقت 13 بیچلر پروگرامز میں داخلے جاری ہیں، جن میں بی ایس کمپیوٹر سائنس، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر انجینئرنگ، بی بی اے (بزنس ایڈمنسٹریشن)، ای۔کامرس اینڈ ٹریڈ، اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس، ریاضی، کیمسٹری، فزکس، انگریزی، ہیومن نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹکس اور ٹیکسٹائل اینڈ فیشن ڈیزائن شامل ہیں۔ جامعہ میں کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، فزکس، کیمسٹری، اور ٹیکسٹائل ڈیزائن کے لیے مکمل طور پر لیس لیبز دستیاب ہیں۔ یونیورسٹی کا تدریسی ماڈل تین سال کی جامعاتی تعلیم اور ایک سال کی صنعتی تربیت پر مشتمل ہے، جس کا مقصد گریجویٹس کو براہِ راست روزگار کے قابل بنانا ہے۔ یہاں پر ہر طالبعلم کو پاکستان یا بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے کسی صنعت کار یا ماہر کے ساتھ بطور رہنما منسلک کیا جاتا ہے تاکہ اسے تعلیم، کیریئر، اور پیشہ ورانہ ترقی میں واضح رہنمائی حاصل ہو۔ جامعہ کا قابلِ فخر اقدام یہ ہے کہ اوپن میرٹ پر داخلہ حاصل کرنے والے مستحق طلباء کے لیے مکمل فیس معافی کی جاتی ہے، جو کمیونٹی ایڈوائزری بورڈ کے تعاون سے ممکن ہے۔ اس کے علاوہ کئی وظائف اور مالی امدادی پروگرام بھی جاری ہیں۔ یہاں پاکستان کے مایہ ناز اساتذہ کے ساتھ بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے ماہرین بھی تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی مشاورتی بورڈ جامعہ کو تعلیمی، تحقیقی اور تدریسی سطح پر رہنمائی فراہم کر رہا ہے تاکہ یہاں ایک عالمی معیار کا تعلیمی ماحولیاتی نظام تشکیل دیا جا سکے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل