Loading
نوید جان موجودہ خیبرپختون خوا کی حکومت گورننس کے حوالے سے ناکام ترین حکومت قراردی جاسکتی ہے،کیوں کہ اس کے سربراہ مع اپنے لاؤ لشکرایک دوماہ بعد اسلام آباد پر چڑھائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ان کاکام صرف اورصرف اپنی سیاست چمکانا اور بانی پی ٹی آئی کے نام پر حکومت کے مزے لوٹنا ہے، باقی صوبہ بھاڑ میں جائے اورایسا ہی پچھلے دوسال سے ہو رہا ہے۔ حال ہی میں سانحہ سوات نے برائے نام حکومت کی قلعی کھول دی جہاں سترہ قیمتی جانیں اس انتظار میں بے رحم موجوں کی نذر ہو گئیں کہ کب ان کی جان بچانے کے لیے حکومتی ادارے حرکت میں آئیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیوں کہ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے تمام کے تمام ادارے بے لگام اورہڈ حرام ہو چکے ہیں۔ ان کو کسی کی کیا پروا، انہیں تو بس اپنے مفادات کی فکر لگی رہتی ہے۔ ان اداروں کے ملازمین تو صرف اپنی تخواہوں میں اضافہ کے لیے آپ کو سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئیں گے۔ صوبائی حکومت نے ایک بھی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا جس کے باعث صوبہ ملک کے باقی صوبوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے ، مبینہ طور پر ترقیاتی کاموں کے پیسے احتجاجوں ، جلسے جلوسوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں کوئی بھی کام رشوت دئیے بغیر نہیں ہوتا، ’’نوٹ دکھا کام چلا ‘‘جیسے ان کی زندگی کا اولین مقصد ہے۔ بجلی کا تو پوچھئیے مت، کیوں کہ بجلی تو جیسے گدھے کے سر پرسینگوں کی طرح غائب ہی ہوگئی ہے۔ جس کے نہ ہونے سے نہ صرف لوگ اس شدید گرمی میں تپ رہے ہیں بلکہ اس کے سبب رہے سہے کارخانوں کے پہیے بھی مکمل طور پر جام ہو چکے ہیں، جس سے بے رزوگاری میں ہولناک قسم کااضافہ ہو چکا ہے۔ اسی صورت حال میں نوجوان یا تو نشے کی طرف راغب ہو رہے ہیں یا بیرون ملک فرار ہونے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ صوبے کے وزیراعلیٰ نے تو بہ بانگ دہل کہہ رکھا تھا کہ ’’اگر وفاق سے صوبے کی بجلی حاصل نہ کرسکا تو پورے ملک پر بجلی بند کروں گا‘‘، لیکن تاحال وہ اپنا یہ وعدہ بھول چکے ہیں اورصوبے کے عوام بیس بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ دوسری بدقسمتی ہماری یہ بھی ہے کہ اس دفعہ نااہلوں کا ٹولہ جمع کیاگیا ہے اورچن چن کر ایسے لوگ لائے گئے ہیں، جنہیں سوائے کرپشن اوراقرباپروی کے اورکوئی فن نہیں آتا۔ ’’کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام ۔۔۔ مجھے تو اورکوئی کام بھی نہیں آتا‘‘ مختلف غیرجانبدار اداروں کی جانب سے بھی اس حکومت کی کارکردگی کو ناقص قراردیاگیا ہے جس میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق سرفہرست ہے جس نے2024 کی اپنی سالانہ رپورٹ بھی جاری کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا میں قانون کی عمل داری کم زور رہی، صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جس میں بچوں اور خواتین کے خلاف تشدد نمایاں رہا۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ایچ آر سی پی خیبر پختون خوا کے وائس چیئر پرسن اکبر خان نے انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ برائے سال 2024 جاری کی، جس کے مطابق ملک میں جمہوری معیار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جس کی بنیادی وجہ عام انتخابات کی شفافیت پر بڑھتے ہوئے خدشات اور پارلیمانی نظام کی کم زوری ہے۔ رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا میں 2024 کے دوران شدت پسندی کے باعث عام شہریوں، قانون نافذکرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسزکو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جو اس خطے کی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے کرم میں فرقہ وارانہ تشدد اور قبائلی دشمنیوں کے نتیجے میں تقریباً 250 افراد لقمہ اجل بنے جب کہ شاہراؤں اور اشیاء خور و نوش کی رسد کی بندش نے انسانی بحران کو جنم دیا اور اب بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ رپورٹ میں مزیدکہاگیا ہے کہ جمہوری حکم رانی، شہری آزادی اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال نے اس خطے کے سیاسی اورسماجی استحکام پر سنگین سوالات اٹھا دئیے ہیں تاہم 2024 کے انتخابات میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کو سیاسی شمولیت کی جانب ایک حوصلہ افزا قدم قرار دیا گیا ہے۔ خیبرپختون خوا پولیس کے اعداد و شمارکے مطابق توہین مذہب کے الزام میں77 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 49 افرادکوگرفتارکیاگیا جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے تاہم سوات میں ایک سیاح کا توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بننے کا واقعہ بھی ملک بھر میں بڑھتے ہوئے ہجوم کے تشدد کے رجحان کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح قومی جرگے سے قبل پشتون تحفظ قومی موومنٹ پر عائد پابندی نے شہری آزادی کو مزید محدود کیا۔ رپورٹ میں سرکاری اعداد وشمار کی بنیاد پرصوبے سے جبری گمشدگیوں کے کم از کم 150 نئے کیسز درج کیے گئے جن پر عدلیہ کو بار بار مداخلت کرنا پڑی،اس کے علاوہ طورخم بارڈرکے دوبارہ کھلنے سے نقل وحرکت میں کچھ بہتری آئی لیکن مقامی سطح پر پابندیاں اور احتجاج جاری رہے۔ رپورٹ میں مزیدکہاگیا ہے کہ خیبرپختون خوا قانون ساز اسمبلی میں قانون سازی کی رفتار سست رہی اورصرف 30 بل پیش کیے گئے جن میں سے 21 منظور ہوئے جب کہ عدلیہ پر بھی دباؤ برقرار رہا۔ اس وقت پشاور ہائی کورٹ میں 23 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جب کہ مجموعی طور پرصوبہ بھرمیں 38 ہزارسے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں متعدد توہین عدالت سے متعلق ہیں جن میں سیاسی و پولیس سے متعلق شخصیات فریق ہیں۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں صنفی بنیادوں پر تشدد کے مستقل رجحان کو بھی اجاگرکیا گیا ہے جس میں گھریلو تشدد، جنسی حملوں، غیرت کے نام پر قتل کے سینکڑوں واقعات شامل ہیں۔ بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جن میں درجنوں نابالغ بچوں کو بھی قتل کیا گیا ہے۔ اسی طرح بد سلوکی یا جنسی استحصال شامل ہیں جو بچوں کے تحفظ کے نظام میں موجودہ سنگین خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ میں محنت کشوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ محنت کشوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں،کیوں کہ حکومت کی جانب سے مقررکردہ اجرت پر کہیں بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا، اسی طرح پچھلے سال کم ازکم 26 کان کن خطرناک حالات کار اورشدت پسند حملوں کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کیوں کہ کانوں میں مزدوروں کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں اورکم از کم اجرت بڑھانے کے صوبائی وعدوں کے باوجود مختلف صوبوں میں اجرت سے متعلق مسائل برقرار رہے۔ اس کے علاوہ شدت پسندوں نے اغوا کی متعدد وارداتوں میں 30 سے زائد مزدوروں کو مختلف واقعات میں اغواکیا۔ ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ میں ماحولیاتی مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جس کے مطابق شدید بارشوں اورسیلاب کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جب کہ پشاور دنیاکا آلودہ ترین شہر رہا اور اس کا شمار دنیاکے آلودہ ترین شہروں میں اب بھی شامل ہے۔ کوارڈی نیٹر ایچ آر سی پی پروفیسر ڈاکٹرسرفراز نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے اگر ایک طرف انسانی مسائل جنم دیئے ہیں تو دوسری جانب کاروباری سرگرمیوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے، مرکزی اور صوبائی حکومت کی جانب سے توجہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام مختلف سنگین مسائل کا شکار رہے، جس کی وجہ سے ایک طرف طورخم بارڈر، انگور اڈا اور غلام جان حالات کی خرابی کی وجہ سے کئی بار بند رہے جب کہ 22 ماہ سے انگور اڈا مسلسل بند ہے جس سے پاک افغان تجارت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ سابقہ فاٹا اور موجودہ ضم اضلاع کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا لیکن دوسری جانب یہاں پر بجٹ میں 10 فی صد ٹیکس لگایا گیا جب کہ ان سے انضمام کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ 2028 تک کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، جس کی وجہ سے یہاں کے کارخانے بند ہو رہے ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح وعدے کے مطابق ضم اضلاع کو حکومت نے خصوصی پیکیج دینا تھا لیکن اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ معاشرے کے مظلوم طبقے خواجہ سراؤں کو کئی مقامات پر بے دردی سے قتل کیاگیا اور کئی کو تشددکا نشانہ بنایا گیا، جب کہ ان کو روزگار دینے کے حوالے سے بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایاگیا۔ خیبرپختون خواحکومت نے عدالتی احکامات کے باوجود لوکل گورنمنٹ کے ناظمین اوراپنے ہی کونسلروں کو مسلسل فنڈ سے محروم رکھا اسی لیے متعدد بار ناظمین اورکونسلروں نے خیبرپختون خوا اسمبلی کے سامنے اپنے حق کے لیے مظاہرے بھی کیے لیکن ان کو فنڈ سے مسلسل محروم رکھا جارہا ہے، جس کے باعث عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے اورکام ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے ایک بھی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا جس کے باعث صوبہ ملک کے باقی صوبوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ رپورٹ میں امن و امان کی صورت حال کا نمایاں طورپر ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق ضم اضلاع مسلسل آگ کی لپیٹ میں رہے اوردہشت گردوں نے عوام کے ساتھ خوب کھلواڑکیا۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں سیاسی قائدین جن میں جمعیت علماء اسلام(ف) کے قائد مولانا فضل الرحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اخونزادہ چٹان اور دیگر قائدین بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہے اوران پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے۔ ایک حملے میں شیرانی صاحب بھی زندگی کی بازی ہار گئے۔ انہوں نے کہا کہ 2024 میں ایف سی، پولیس اور پاکستان آرمی کے جوانوں پر حملے نمایاں رہے جو خطرناک صورت حال کی واضح تصویر ہے۔ مندرجہ بالاصورت حال کے پیش نظر صوبے کے عوام حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ اس صورتحال کو درست کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔ سیاست اپنی جگہ، مگر پی ٹی آئی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام نے مسلسل تیسری مرتبہ اسے اپنا مینڈیٹ دیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی عوامی حمایت سے بھی محروم ہو جائے۔ گڈ گورننس اور امن و امان کو یقینی بنانا صوبائی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل