Loading
جنگ ایک تلخ حقیقت ہے جو انسانی تاریخ میں بار بار سرخ لفظوں میں لکھی گئی ہے ۔ تہذیبوں کی ترقی، فنونِ لطیفہ کی آبیاری، اور علم و فلسفہ کی بلندیوں کے باوجود انسان مسلسل ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کیوں رہا؟ یہ سوال محض ماضی کا نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا بھی ہے۔ ہر دور، ہر قوم، اور ہر تہذیب نے کسی نہ کسی مرحلے پر جنگ کو ناگزیر سمجھا۔ کبھی وسائل کی کمی، کبھی زمین کی ہوس، کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی نظریے کی برتری کی خاطر, جنگیں انسان کے ساتھ کئی روپ میں برپا رہی ہے۔ قدیم تہذیبوں کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں سب سے پہلے میسوپوٹیمیا، مصر، وادی سندھ، اور چین کی ریاستوں کے درمیان چھوٹے بڑے تنازعات دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں اکثر جنگوں کی جڑیں پانی، زمین، یا خاندانی اقتدار میں ہوتی تھیں۔ پھر یونان اور روم کے زمانے آئے جب جنگیں محض زمین کے لیے نہیں، بلکہ اپنی تہذیب، فلسفے، اور طرزِ حکومت کو برتر ثابت کرنے کے لیے لڑی گئیں۔ مذہب کا کردار بھی جنگوں کے حوالے سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ صلیبی جنگیں، اسلامی فتوحات، ہندو مسلم ریاستوں کی جھڑپیں یہ سب بظاہر عقیدے کی حفاظت کے نام پر ہوئیں ہے، مگر اکثر اوقات ان کے پیچھے بھی زمین، طاقت، اور سیاسی بالادستی کا کھیل تھا۔ مغلوں اور لودھیوں کی جنگیں، یا خلافت عثمانیہ کی فتوحات، محض روحانی جوش کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ بھی تھیں۔ تہذیب و سماجیات کے ماہرین کے نزدیک جنگ کوئی محض عسکری یا سیاسی واقعہ نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی، نفسیاتی اور تہذیب کا لازمی حصہ رہا ہے۔ کلاسیکی مفکرین جیسے فرانسیسی مفکر ایمل ڈرکھائیم اور جرمن مفکر میکس ویبر کا ماننا ہے کہ جنگ ایک اجتماعی عمل ہے، جو کسی سماج کے اندرونی تناؤ، شناختی بحران، یا طاقت کے عدم توازن سے جنم لیتا ہے۔ یہ کسی فرد کی خواہش نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی نفسیات کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسری جانب، تہذیبی مورخین جیسے برطانوی مفکر آرنلڈ ٹائن بی اور جرمن مفکر اسپینگلر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب کوئی تہذیب اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو بیٹھتی ہے اور اس کے ادارے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں یا ان اداروں میں کارکردگی کا فقدان ہوتا ہے تو اس کے زوال کی ایک صورت جنگ بن جاتی ہے۔ ان کے نزدیک جنگ دراصل تہذیب کے عروج و زوال کے ادوار میں آنے والی لازمی آزمائشوں میں سے ایک ہے۔ اب جب کہ انسان پہلے سے جدید ہوگیا ہے۔ ریاستیں بنیں، قوم پرستی ابھری، اور سرمایہ داری و اشتراکیت جیسے نظریات نے انسان کو راغب کیا ہے مگر جنگیں نہ رُکی بلکہ یہ وبا مزید مہلک ہوگئیں ہیں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں انسانیت کے لیے ماضی کا زخم نہیں تھی بلکہ ایسی راکھ ہے جس میں سے چنگاری اب بھی بھڑک اٹھتی ہے۔ عالمی جنگوں میں لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد بھی دنیا جنگ سے تائب نہیں ہوئی۔ ان عالمی جنگوں کے علاوہ بھی ویتنام، کوریا، عراق، افغانستان، شام،فلسطین کی جنگیں و تنازعات سب جدید دنیا کی مثالیں ہیں۔ جدید سیاسی فلسفے کے بڑے مفکرین میں سے ایک، تھامس ہابس، جنگ کو انسانی فطرت کا ناگزیر پہلو قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق انسان بنیادی طور پر خودغرض، خوف زدہ اور طاقت کا بھوکا ہے، اس لیے جب تک ریاست اور قانون اس کی ان جبلتوں کو قابو میں نہ رکھیں، جنگ ایک فطری اور دائمی حالت بنی رہتی ہے۔ ہابس کی اس سوچ کو بعد ازاں سگمنڈ فرائیڈ نے مزید وسعت دی، جنہوں نے کہا کہ انسان کے اندر ایک ’’تخریبی جبلت‘‘ (Death Instinct) موجود ہے، جو خود کو جنگ، دشمنی اور تشدد کی صورت میں ظاہر کرتی ہے۔ اسی خیال کو حیاتیاتی رویے کے ماہر کونراڈ لورینز نے سائنسی بنیادوں پر پرکھا اور بتایا کہ جارحیت انسان کی حیاتیاتی ساخت کا حصہ ہے، اور اگر اسے مہذب سماجی اصولوں کے ذریعے قابو میں نہ لایا جائے تو یہی جبلت اجتماعی جنگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ مزید فکری جہات میں جنگ کو صرف عسکری یا سیاسی تصادم کے طور پر نہیں بلکہ طاقت کے پیچیدہ نظام کا حصہ سمجھا جاتا ہے، جہاں طاقت کی نفسیاتی، ادارہ جاتی اور ثقافتی ساختیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مشہور فرانسیسی مفکر مشیل فوکو کے مطابق جدید ریاست محض ہتھیاروں یا براہِ راست جبر کے ذریعے نہیں بلکہ قانون، نظم و ضبط، عدلیہ، اور سماجی اداروں کے توسط سے طاقت کے تسلسل کو قائم رکھتی ہے۔ ان کے بقول جنگ کا اصل مقصد اب صرف جسموں پر کنٹرول حاصل کرنا نہیں رہا بلکہ ذہنوں اور رویوں پر قبضہ ایک مستقل اور باریک حکمت عملی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کو اٹالین مارکسی مفکر انطونیو گرامشی آگے بڑھاتے ہیں، جن کے مطابق طاقت کی اصل کشمکش میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ ثقافت، تعلیم، ذرائع ابلاغ، اور سماجی علامتوں میں لڑی جاتی ہے۔ گرامشی کے نزدیک ’’نرم جنگ‘‘ (Soft War) وہ نظریاتی اور علامتی جنگ ہے جو کسی تہذیب کی تعمیر یا اس کی شکست کی بنیاد رکھتی ہے۔ لِلیے چولیاراکی، جو لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ معروف محقق ہیں، اپنی تازہ کتاب Wronged: The Weaponization of Victimhood (2024) میں یہ مؤقف اختیار کرتی ہیں کہ آج کی دنیا میں مظلومیت کو بطور ’’ہتھیار‘‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔ جنگ اب صرف توپ، ٹینک اور بندوق کی لڑائی نہیں رہی بلکہ میڈیا، سوشل نیٹ ورکس، اور انسانی ہمدردی کی اپیل کے ذریعے ایک بیانیاتی جنگ لڑی جا رہی ہے، جس میں متاثرہ فریق کو رائے عامہ کے سامنے مظلوم اور اخلاقی طور پر برتر دکھا کر عالمی تائید حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح جنگ کی اخلاقیات ایک نئی صورت اختیار کر گئی ہے، جہاں ظاہری تشدد کے بجائے بیانیہ کی برتری اصل میدان بن چکا ہے۔ اسی فکری سلسلے میں سینیسا مالیشیویچ، جو سربیا نژاد اور آئرلینڈ میں مقیم ماہرِ عمرانیات ہیں، اپنی کتاب Why Humans Fight (2022) میں نشان دہی کرتے ہیں کہ جدید جنگوں کے بنیادی اسباب اب قوم پرستی، شناخت کی سیاست، اور علامتی طاقت بن چکے ہیں۔ ان کے مطابق جنگ کا مفہوم صرف عسکری تصادم تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر سماجی بیانیہ بن چکا ہے، جو گروہی شناخت، مذہب، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر نئی تقسیم کو جنم دیتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق جنگ اب ان نظریاتی اور علامتی قوتوں کے ذریعے جاری ہے جو قوموں کے ذہنوں اور رویوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ہیرس میلونس اپنی کتاب Varieties of Nationalism (2023) میں واضح کرتے ہیں کہ جدید ریاستی شناخت اور قومی بیانیہ کسی فطری یا خودکار ارتقا کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی، باریک اور مسلسل جاری حکمت عملی کا مظہر ہے۔ ان کے مطابق جنگ کی ایک نئی صورت وہ ہے جو براہ راست تصادم کے بجائے نصاب، میڈیا، سماجی اداروں، اور ثقافتی علامتوں کے ذریعے قوم کے فکری ڈھانچے میں سرایت کر جاتی ہے، اور یوں غیر محسوس انداز میں شناختوں کی برتری یا نفی کا سبب بنتی ہے۔ مارٹن شا، جو برطانیہ کے ممتاز سوشیالوجسٹ ہیں، اپنی حالیہ کتاب The New Age of Genocide: Intellectual and Political Challenges after Gaza (2025) میں خبردار کرتے ہیں کہ جدید نسل کشی یا جنگیں اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں جب شناخت پر مبنی بیانیہ اتنا غالب آ جائے کہ مخالف کو مکمل طور پر ’’غیرانسانی‘‘ (dehumanized) بنا دیا جائے۔ ان کے مطابق مذہب، نسل، قوم یا مسلک کی بنیاد پر شناخت سازی اور دوسرے کو ’’دشمن‘‘ بنا دینے کا عمل جنگ کے جواز کو اخلاقی، سیاسی اور ثقافتی طور پر قابل قبول بنا دیتا ہے، جو موجودہ دنیا کے لیے ایک گہرا خطرہ ہے۔ ان تمام فکری زاویوں کو حالیہ صحافتی رپورٹس سے بھی تقویت ملتی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مضمون How War Became Contagious (2025) میں بتایا گیا کہ جنگ اب ایک سماجی وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے، جس میں معیشت، ڈیجیٹل پروپیگنڈا، اور ثقافتی بیانیے ایک ساتھ حرکت کرتے ہیں اور پورے معاشروں کو جنگ کی ذہنی فضا میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف دی گارڈین کی رپورٹ How Social Media Lies Fuelled a Rush to War Between India and Pakistan (مئی 2025) یہ حقیقت سامنے لاتی ہے کہ محض افواہیں، غلط معلومات، اور سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی جھوٹی خبریں کس طرح قومی سطح پر تصادم کو جنم دے سکتی ہیں، چاہے ہتھیار استعمال نہ بھی کیے جائیں۔ یہ تمام نظریات اور شواہد اس تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ انسان کا شعور اگرچہ بظاہر ترقی کرچکا ہے، لیکن اس کی فکری ساخت میں طاقت، خوف اور شناخت کا وہی پرانا کرب پوشیدہ ہے۔ اس نے ہتھیار تو جدید بنائے ہیں، لیکن تصادم کی بنیادیں وہی پرانی ہیں: خود کو برتر اور دوسرے کو خطرہ سمجھنے کا وہی تاریخی غرور۔ یہی وہ فکری جڑ ہے جس پر اگر ضرب نہ لگائی جائے تو جنگ صرف بارود اور بندوق کی نہیں رہے گی بلکہ یہ خاموش، نرم اور فکری جنگ ہماری نسلوں کی شعور سازی، تعلیم، اور تہذیب کو دیمک کی طرح کھاتی رہے گی۔ یہ تمام تاریخی، فکری اور سماجی بیانیے دراصل ایک نہایت ذاتی اور انسانی سوال کی طرف لے جاتے ہیں: کیا ہم واقعی سیکھتے ہیں؟ جنگ صرف ریاستوں، نظریات یا سرحدوں کی لڑائی نہیں ہوتی،یہ انسان کے گھر،خاندان، خواب اور مستقبل پر حملہ کررہی ہوتی ہے۔ کسی سپاہی کا گھر اجڑتا ہے، کسی ماں کی گود خالی ہوتی ہے، کسی بچے کا اسکول ملبے میں بدل جاتا ہے۔ قدیم جنگیں تلواروں سے لڑی جاتی تھیں تو آج کے دور میں یہ جنگیں الفاظ، میڈیا، معاشی دباؤ، اور ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی جا رہی ہیں، مگر تکلیف، خوف اور بے یقینی کا احساس وہی ہے، جو ہزاروں سال پہلے تھا۔ سوچنے والے بار بار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جنگ کا آغاز ہمیشہ کسی بے چینی، کسی خوف، کسی احساسِ محرومی یا طاقت کی بے ہنگم خواہش سے ہوتا ہے۔ تو اگر ہم واقعی ایک بہتر دنیا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ہتھیار نہیں روک تھام نہیں کرنی، صرف معاہدے نہیں کرنے، بلکہ اپنے اندر کے اس خالی پن کو بھی سمجھنا ہوگا جو ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے پر مجبور کرتا ہے عالمی معاشرے میں موجود ان نا انصافیوں پر بھی بات کرنا ہوگی جو جنگ کو ہوا دیتے ہیں۔ امن محض جنگ بندی کا نام نہیں، یہ ایک ایسا رویہ ہے، ایک ایسا طرزِاحساس ہے جس میں ہم دوسروں کو خود سے مختلف نہیں بلکہ خود جیسا سمجھتے ہیں۔ جب تک ہم یہ انسانی تعلق نہیں بنا پائیں گے، تاریخ بار بار خون سے لکھی جاتی رہے گی، اور ہم اپنے ہی زخموں کو تازہ کرتے رہیں گے۔ ہمیں جنگ کی نفسیاتی، سماجی اور تہذیبی جڑوں کو سمجھ کر امن کی طرف بڑھنا ہوگا جس کے لیے کچھ اقدام بہت ضروری ہے جس میں تعلیمی نظام میں ایسے نصاب اور تربیتی مواد شامل کیے جائیں جو اختلاف رائے، برداشت، اور بین الثقافتی مکالمے کو فروغ دیں تاکہ نئی نسل بھی امن و انسانیت کی اہمیت کو جان سکے۔ عالمی سطح میڈیا کے حوالے سے ایسی پالیسی کو قابل عمل بنانا ہوگا جس میں میڈیا کو جنگی بیانیے کے بجائے انسان دوستی، مکالمہ اور سچائی پر مبنی رپورٹنگ کا پابند بنایا جائے، تاکہ جذباتی اشتعال کی بجائے ہوش مندانہ شعور پروان چڑھے۔ ریاستی سطح پربھی ایسی پالیسی بنائی جائے جو طاقت کی برتری کے بجائے انسانی بقاء اور سماجی انصاف کو ترجیح دے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد کی نگرانی کے لیے اخلاقی اور تکنیکی میکانزم تیار کیے جائیں۔ جنگ سے متاثرہ افراد، خاص طور پر خواتین اور بچوں، کی بحالی اور ذہنی صحت کی بہتری کے حوالے سے اقدامات کو پالیسی کا حصہ بنایا جائے، کہ زخم صرف جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی مرہم پائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جائے جو جنگ کو تہذیب کا زوال نہ بننے دے بلکہ امن کو انسانیت کی نئی معراج کے طور پر پیش کرے۔ورنہ یہ ترقی اور مزید ترقی خدا نخواستہ اگلی جنگ پر پھر سے فیصلہ سازوں کے سامنے سوالیہ نشان سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھے گی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل