Sunday, July 20, 2025
 

ٹکٹ ٹو نارووال

 



رواں برس فروری میں لاہور کا چکر لگا تو پہلے ہی ایک دن کے لیے شعیب بھائی کا وقت مانگ لیا۔ محمد شعیب میرا اچھا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان محقق، فوٹوگرافر اور آثارِقدیمہ کا شیدائی بھی ہے جس نے لاہور کے اسٹیشنوں پر کام کر رکھا ہے۔ ان کو جب یہ پلان بتایا تو جھٹ سے ہاں کر دی اور ہم نے اگلے دن اکٹھے ہونے کا وقت مْعیَن کر لیا۔ صبح ہم لاہور میں اکٹھے ہوئے اور کوئی ساڑھے آٹھ بجے ہم نے بائیک پر لاہور سے اپنا سفر شروع کیا۔ شاہدرہ کراس کرتے ہی چاروں طرف دھند پھیلنے لگی لیکن ہم نے ہمت نہ ہارتے ہوئے بائیک کو دوڑائے رکھا کہ آج اس ٹریک کا ایک ایک اسٹیشن دیکھنا تھا۔ چونکہ شاہدرہ جنکشن ہم دونوں کا دیکھا ہوا تھا سو اسے چھوڑ ہم نے سب سے پہلے سری رامپورہ کے اسٹیشن پر بریک لگائی۔ شاہدرہ باغ سے چک امرو تک جانے والا یہ ٹریک شمال مشرقی پنجاب کے سرحدی علاقے کا اہم ترین ٹریک سمجھا جاتا ہے جس میں شاہدرہ سے لے کر نارووال تک کا ٹریک آپریشنل حالت میں ہے جب کہ نارووال سے چک امرو تک سارا ٹریک اکھاڑ دیا گیا ہے اور جگہ جگہ بربادی کی داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس ٹریک کا افتتاح انگریز سرکار نے 1926 میں کیا تھا۔ نارووال جنکشن سے چک امرو تک کا تقریباً 52 کلومیٹر ٹریک عرصۂ دراز سے بند پڑا ہے جسے بحال کرنے کا مطالبہ کئی بار سامنے آ چکا ہے۔ یہ ٹریک نارووال جنکشن سے جَسر، کرتارپور صاحب، نورکوٹ، شکر گڑھ، مریال اور چک امرو تک جاتا تھا جو اس سمت (شمال مشرق) میں پاکستان کا آخری اسٹیشن اور اہم سرحدی قصبہ ہے۔  نارووال کے علاوہ شکرگڑھ اس ٹریک کا سب سے بڑا شہر ہے جو پہلے ضلع گورداسپور کی تحصیل ہوا کرتا تھا۔ اس سیکشن کے اسٹیشن بھی بربادی کی الگ داستان سناتے ہیں۔ حالاںکہ کرتارپور صاحب پر آنے والے یاتریوں کے لیے کم از کم وہاں تک ٹرین چلائی جاسکتی تھی، لیکن نہ جانے ہمارے اداروں کو کب عقل آئے گی، جہاں اربوں روپے کا کرتارپور کوریڈور بن سکتا تھا وہیں کروڑوں میں نارووال تا کرتار پور ریل کی پٹری بھی تو بچھائی جا سکتی تھی۔ خیر۔۔۔۔ شروع کرتے ہیں پہلے اسٹیشن سے۔ کوٹ مُول چند ترتیب کی وجہ سے جس اسٹیشن کا ذکر میں سب سے پہلے کر رہا ہوں وہ ہم نے سب سے آخر میں دیکھا تھا۔ رعیہ خاص سے واپسی پر ہم نارنگ منڈی کے قریب ایک ڈھابے پر چائے پی رہے تھے کہ نارووال پسنجر- 212 داؤن کو جاتے دیکھا۔ میں نے شعیب بھائی سے کہا کہ چلو اسے کوٹ مول چند اسٹیشن پر پکڑتے ہیں۔ وہ بولے کہ مشکل ہے۔ ہم لیٹ ہوجائیں گے۔ میں نے کہا کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ پسنجر ٹرین ہے زیادہ تیز نہیں چلتی۔ اور پھر دو منٹ میں ہم نے چائے ختم کی، بائیک سٹارٹ کی اور اڑا دی۔ اس بندے نے پینتیس کلومیٹر جس طرح بائیک دوڑائی ہے وہ بس میں جانتا ہوں یا میرا رب۔۔۔میں بھی پیچھے سے شعیب کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ مغرب سے ذرا پہلے ہم کوٹ ہدایت علی گاؤں کے اندر پوچھتے پوچھتے کوٹ مُول چند کے گمنام اور متروک شدہ اسٹیشن پہنچے تو روشنی کی بس ذرا سی رمق باقی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے جلدازجلد اسٹیشن کی فوٹوگرافی کی اور نارووال کی جانب دیکھنے لگے کہ شاید وہاں سے ٹرین آ جائے۔ اور دو منٹ بعد۔۔۔ ٹرین کی روشنی نظر آئی۔  جان میں جان آئی اور ایک دوسرے کو شاباش دی کہ ہم نے وقتی فیصلہ کیا اور یہاں پہنچ گئے۔ یہ خوشی صرف خوار ہونے والے مسافر یا ریل کے عاشق ہی سمجھ سکتے ہیں۔ شاہدرہ جنکشن اور بوبکوال اسٹیشن کے بیچ واقع کوٹ مول چند نامی یہ چھوٹا سا اسٹیشن چند سال پہلے تک آباد ہوا کرتا تھا جہاں غالباً کوئی پسنجر ٹرین رکتی تھی لیکن پھر اسے ہالٹ قرار دے دیا گیا۔ اس کی اچھی بھلی عمارت کو لاوارث چھوڑ دیا گیا اور یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ آج یہ ایک سنسان سا اسٹیشن ہے جس کی پہچان وہاں لگی کوٹ مُول چند کی تختی ہے۔ مول چند شاید اس گاؤں کا چوہدری یا کوئی بنیا رہا ہو گا۔ نارووال پسنجر کو یہاں پر فلمایا اور الوداع کہا۔ بائیک کو مرکزی شاہراہ پر لائے اور لاہور کو چل دیے جہاں ہیرا چرغہ ہمارا منتظر تھا۔ سری رام پورہ سری رامپورہ، پاکستان جیسے ملک میں یہ نام کوئی عام نہیں بلکہ انتہائی نایاب ہے۔ یہ سوال کب سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا کہ آخر یہ جگہ اور اس کا نام مقامیوں سے کیسے بچ گیا جو ابھی تک تبدیل نہیں کیا؟ یہ جاننے کے لیے ہم گاؤں کے کچے راستوں پر بائیک دوڑاتے پہنچے سری رامپورہ اسٹیشن جہاں کے اسٹیشن ماسٹر صاحب نے دور سے آئے دو مسافروں کو دیکھ کے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے سامنے یہ سوال رکھا تو وہ کہتے؛ کسی بھی اسٹیشن کا نام بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ لمبی چوڑی کاغذی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ پہلے وجہ بتانی پڑتی ہے کہ نام کیوں بدلنا ہے؟  پھر نیا نام بھی منتخب کرنا پڑتا ہے اور نام بدلنے کی فیس بھی ہوتی ہے۔ صرف نام کے لیے کون خرچہ کرے۔ اس لیے اب تک یہ اسٹیشن پرانے نام پر چلتا آ رہا ہے۔ چلو جی یہ تو رہی نام کی بات اب ذرا اسٹیشن کا ذکر ہوجائے۔ شاہدرہ باغ کے بعد سری رامپورہ اس ٹریک کا پہلا بڑا اور آباد اسٹیشن ہے اور یہاں صرف فیض احمد فیض پسنجر(220-219) رکتی ہے۔ یہاں سواریاں بھی نا ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ یہاں کے اسٹیشن ماسٹردفتر میں پرانا سامان اور آلات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ صفائی کے تو کیا کہنے، دیکھ کے دل خوش ہو گیا۔ ہمارے یہاں رہتے 10 ڈاؤن، علامہ اقبال ایکسپریس کا یہاں سے گزر ہوا۔ واپسی کے راستے پر ایک اسکول تھا جس کے بورڈ پر نظر پڑی تو ’’گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول، سری رام پورہ تحصیل مریدکے ضلع شیخوپورہ‘‘ لکھا تھا۔ یعنی یہ علاقہ تحصیل مریدکے کا حصہ تھا۔  کالاخطائی کالاخطائی ضلع شیخوپورہ کا ایک مشہور اور بڑا قصبہ ہے جو مشہور نہر بمبانوالی راوی بیدیاں کے کنارے پر واقع ہے۔ یہاں کا چھوٹا سا اسٹیشن مرکزی سڑک سے ذرا پرے واقع ہے۔ یہ اسٹیشن بھی بہت صاف ستھرا تھا جہاں پودوں پر پھولوں کی بہار تھی۔ مختلف اسٹیشنوں تک کرائے اور گاڑیوں کے اوقات کار کا بورڈ انتظار گاہ میں آویزاں تھا۔ کالا خطائی کے بعد شاہ سلطان نامہ پالٹ اسٹیشن آتا ہے جس کے بعد یہ ٹریک سڑک کو کاٹتا ہوا نارنگ پہنچ جاتا ہے۔ نارنگ منڈی شاہدرہ سے نارووال کے درمیان سب سے بڑا اسٹیشن، نارنگ منڈی اپنی چاول کی پیداوار اور رائس مِلوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کا چاول اپنے ذائقے میں بہت مشہور ہے تبھی یہ شہر چاول کی بہت بڑی منڈی ہے۔  کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر کے عہد سے قبل یہ گاؤں کسی ’’نارنگ‘‘ نامی بزرگ کے نام پر آباد ہوا۔ اکبر کے عہد میں ہی ایک بزرگ اکبر کی فوج کے ہمراہ پہلے لاہور اور پھر نارنگ آئے اور انہی کی کوششوں سے یہاں کے چند لوگ مسلمان ہوئے۔ انگریز دور میں یہ سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں شامل ہوا اور پھر 1922 میں شیخوپورہ کا حصہ بن گیا۔ 1926 میں جب شاہدرہ سے نارووال کے درمیان پٹری بچھائی گئی، تو نارنگ میں ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا۔ موجودہ نارنگ منڈی 1926ء کے بعد اور زیادہ پھیلنا شروع ہوا اور آج پچاس ہزار کی آبادی والا ایک بڑا قصبہ ہے۔ اسٹیشن کی سرخ عمارت شہر کے عین وسط میں واقع ہے جس پر صرف نارنگ لکھا ہوا ہے۔ بڑے بڑے پلیٹ فارم، قریب واقع بازار اور کشادہ و سایہ دار عمارت کی وجہ سے شہری اسٹیشن پر جمع ہو کر کھیل کود اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک الگ ہی ماحول تھا نارنگ اسٹیشن کا جہاں باقی اسٹیشنوں کے برعکس زندگی کھیلتی کودتی نظر آتی تھی۔ یہاں سے آگے ٹریک، نارووال لاہور روڈ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ کھنڈا لدھیکے اس کے بعد ہم ایک متروک اسٹیشن کھنڈا لدھیکے پہنچے جہاں اسٹیشن کے نام پر ایک درخت، ٹوٹا ہوا کمرا اور ایک فرش موجود تھا۔ ٹرین تو اب اس اسٹیشن کو گھاس بھی نہیں ڈالتی ہو گی۔ ہمیں تصاویر بناتا دیکھ کرقریب واقع گھر سے ایک ادھیڑ عمر شخص آیا اور پوچھا کہ کیا یہ اسٹیشن بحال ہورہا ہے؟ میں نے کہا کاش کہ ایسا ہوتا لیکن شاید ابھی نہیں۔ یہ سن کے اسے سانس آئی، سوچتا ہوگا کہ ریل گاڑی دوبارہ یہاں رک کر اس کے کھیلتے ہوئے بچوں کو تنگ نہیں کرے گی۔ پوچھا کہ پھر آپ لوگ کون ہیں؟؟ ہم تو پاگل ہیں جو اس کی بحالی کی منت ماننے دور سے آئے ہیں۔ دل نے جواب دیا اور ہم روانہ ہوگئے۔ مہتہ سُوجا ہماری اگلی منزل مہتہ سوجا تھا جو شیخوپورہ کی حدود میں اس ٹریک کا آخری اسٹیشن ہے۔ دریائے راوی اور بمبانوالی بیدیاں نہر کے قریب واقع یہ ایک قدیم بستی ہے جس کی جڑیں مغل دور سے جا ملتی ہیں۔ اس گاؤں کا پرانا نام مہتا اور شیویا نامی دو ذاتوں پر ’’مہتہ سیویا‘‘ رکھا گیا تھا جو بدل کر مہتہ سُوجا ہوگیا۔  چھوٹا سا، سنسان اور پُرسکون سا مہتہ سُوجا اسٹیشن جس کے باہر ایک ریلوے ملازم اپنی چارپائی ڈالے لیٹا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو یہ بھی صاف ستھرا اور ہرا بھرا ملا لیکن پلیٹ فارم ٹوٹا ہوا تھا اور بالکل خالی۔ ایسے جسے کوئی سب کچھ بنا کے چھوڑ گیا ہو۔  یہاں تین ٹرینوں کا اسٹاپ ہے، لاثانی ایکسپریس، نارووال پسنجر اور فیض احمد فیض پسنجر۔ یہ اسٹیشن دفاعی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ یہاں سے چلے تو بدوملہی ٹول پلازہ اور مرالہ راوی لنک کینال پار کر کے ہم ضلع نارووال میں داخل ہو گئے۔ بدوملہی ضلع نارووال کا پہلا اسٹیشن بدو ملہی بھی زرخیز زمینوں اور چاول کی پیداوار کے حوالے سے مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہجہاں کے دور میں ملہی جاٹوں کے خاندان بدوملہی کے جدِامجد ’’رائے محمد جانی‘‘ نے اس بستی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس علاقے کی سب سے مشہور ہستی جناب چوہدری نصیر احمد ملہی (1991-1911) تھے جو مسلم لیگ کے رکن، تحریک پاکستان کے رہنما اور مغربی پاکستان کے پہلے وزیرِتعلیم تھے۔ طبیعات کے میدان میں نئی دریافتیں کرنے والے سائنس داں ڈاکٹر مجدد احمد اعجاز بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے لیکن آپ نے بیشتر زندگی امریکا میں گزاری تھی۔ بدو ملہی قدرے بڑا اسٹیشن ہے جہاں نارووال و فیض پسنجر، لاثانی ایکسپریس اور علامہ اقبال ایکسپریس رکتی ہیں۔ یہاں سے اگلا اسٹیشن عالمگیر ٹاؤن ہالٹ ہے جو بالکل خاموش ہے اور پھر رعیہ خاص۔ رَعیہ خاص کیا آپ جانتے ہیں کہ انگریز دور میں رعیہ خاص ضلع امرتسر کی تحصیل ہوا کرتی تھی جب کہ نارووال اس کا ایک قصبہ۔ یہ جان کر مجھے بھی بہت حیرت ہوئی۔ میرے ایک قاری جناب محمد الیاس صاحب نے بتایا؛ ’’جب محلِ وقوع اور جنکشن ہونے کی وجہ سے تحصیل ہیڈکوارٹر یہاں سے نارووال منتقل ہوا تو رعیہ خاص کی اہمیت کم ہو گئی اور رونقیں ماند پڑگئیں۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں رعیہ میں تحصیل اور تھانے کی پرانی متروک عمارتیں موجود تھیں، جو اب نہ جانے ہیں بھی یا نہیں۔‘‘ پھر نارووال تحصیل کو ضلع سیالکوٹ سے منسلک کردیا گیا اور امرتسر، گورداسپور و سیالکوٹ کے اضلاع پر مشتمل ایک کمشنری (انتظامی ڈویژن) بنائی گئی جس کا ہیڈکوارٹر سیالکوٹ تھا، مگر چند سال بعد ہی اس کمشنری کو ختم کر کے یہ اضلاع لاہور کے ساتھ منسلک کردیے گئے تھے۔ آج کا رعیہ خاص ایک چھوٹا سا اسٹیشن ہے لیکن ٹرین کی آمد کی بدولت یہاں کافی چہل پہل نظر آئی۔ ہمارے ہوتے یہاں نارووال پسنجر ڈاؤن آئی اور کئی سواریوں کو لے کر چل دی۔ اس کے فوراً بعد ہی پیاروں کو ٹرین پر چھوڑنے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور سرِشام، یہ اسٹیشن پھر ویران ہو گیا۔ اس اسٹیشن کے باہر ایک پرانا کنواں اب بھی موجود ہے۔ اس سے اگلا اسٹیشن داؤد ہالٹ ہے۔ پیجو والی اور کلاس گورائیہ ہالٹ داؤد ہالٹ سے ہو کر ٹرین پیجووالی کے اسٹیشن پر رکتی ہے جو کلاس گورائیہ کی طرح ایک چھوٹا اسٹیشن ہے۔ یہاں نارووال پسنجر، فیض احمد فیض ایکسپریس، سیالکوٹ ایکسپریس اور لاثانی ایکسپریس کا اسٹاپ ہے۔ ان دونوں دیہاتوں کے بیچ لگ بھگ چار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ پیجووالی کی عمارت چھوٹی جبکہ پلیٹ فارم کچھ بڑا ہے۔ کلاس گورائیہ ہالٹ بالکل چھوٹا سا اسٹیشن ہے جس سے چھ کلومیٹر دور نارووال جنکشن ہے۔  نارووال جنکشن نارووال، پاکستان کا سرحدی شہر و ضلع ہے جو دریائے راوی سے کچھ دور واقع ہے۔ ایک دور میں یہ سیالکوٹ کا قصبہ ہوا کرتا تھا پھر ریلوے لائن کی بدولت اس کی قسمت چمکی اور یہ پہلے تحصیل، پھر ضلع بن گیا۔ ضلع نارووال، اپنے بہترین چاول، پرانے مندروں اور گردوارہ کرتارپور کی بدولت دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ گردوارہ دربار صاحب میں سکھوں کے بانی بابا گرونانک جی نے اپنے آخری ایام گزارے اور یہیں وفات پائی۔ ان کی سمادھی بھی یہیں بنائی گئی۔  چوںکہ یہ گردوارا پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب تقریباً 3 سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے اور اسے بھارت کی سرحد سے بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے سو بھارتی سکھ پہلے دُور سے ہی اس کا نظارہ کیا کرتے تھے لیکن کرتارپور کوریڈور بننے کے بعد اب بہ آسانی اس کی زیارت کے لیے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ نارووال کے کچھ اور حوالے بھی ہیں جن میں مشہور شاعر فیض احمد فیض، اداکار دیو آنند اور پنجابی شاعر شیو کمار بٹالوی شامل ہیں۔ موجودہ دور میں اس شہر کی وجہ شہرت احسن اقبال صاحب اور جناب ابرار الحق بھی ہیں۔ کلاس گورائیہ ہالٹ اور جسر کے متروک شدہ اسٹیشن کے درمیان واقع نارووال جنکشن کی عمارت نئی تعمیر ہوئی ہے جو کشادہ، خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ سہولیات سے مُزین بھی ہے۔ نارووال سے ایک لائن سیدھی شکرگڑھ و چک امرو (متروک) جبکہ دوسری سیالکوٹ سے ہو کر وزیرآباد جنکشن تک جاتی ہے۔ نارووال میں آج کل اس سیکشن کی تمام ٹرینوں کا اسٹاپ ہے جن میں 16 جون کو چلنے والی سیالکوٹ ایکسپریس بھی شامل ہے۔  نارووال جنکشن پر لاہور سے کرتارپور جانے کے لیے سکھ یاتری بھی آتے ہیں لیکن مزہ تو تب آئے جب نارووال تا چک امرو سیکشن بحال ہو اور سیاح حضرات و یاتری ٹرین پر ہی کرتارپور تک جائیں۔ حکومت کو اس سیکشن کو بحال کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ یہ سیکشن اچھا زرِمبادلہ دے سکتا ہے۔ موجودہ ٹریک کو بھی مرمت کی اشد ضرورت ہے کہ آج کل بلٹ ٹرین کے دور میں اس ٹریک پر ٹرینوں کی سیڈ کافی کم ہے۔ کچھ ٹرینیں تو صرف پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں جس کی وجہ سے عوام سڑک کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فی الفور اس ٹریک کی مرمت کر کے ٹرینوں کی رفتار بہتر بنائے۔ یہ تھا لاہور سے نارووال تک کا مختصر سفر امید ہے کہ اگلی بار آْپ کو نارووال سے آگے لے چلوں گا جہاں شکرگڑھ ہمارا منتظر ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل