Loading
فخرِ جہاں یہ جوہرؔ و عرشیؔ کا ہے وطن مانا گیا ہے اِس کو دبستانِ فکروفن شعروسُخن کا ہے یہ مہکتا ہوا چمن ہر شخص اے رئیسؔ ہے باذوق وباشعور یہ میرا رام پور ہے، یہ میرا رام پور! بزرگ محقق، ادیب وشاعر جناب رئیس رام پوری کی نظم ’یہ میرا رام پور‘ یقیناً ادبی تعارف کے طور پر بہت عمدہ ہے۔ رئیس صاحب نے ایک اور نظم بعنوان ’رام پور‘ کہہ کر سابقہ ریاست کی ادبی وتہذیبی فضا کا عروج وزوال مختصراً پیش کیا تھا۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: کیا کریں جب اُٹھ گیا چھوٹے بڑے کا امتیاز ہیں گھروں میں معتکف اب مخلصانِ رام پور اور تو سب ٹھیک ہیں، سب خیریت سے ہیں یہاں بس شریفوں کو سمجھیے، بے کسانِ رام پور ہیں زمانے سے جُدا باقی ابھی کچھ خوبیاں ہیں ابھی کچھ لوگ کہیے جن کو جانِ رام پور ہائے کن حالات میں بھی شاد آتے ہیں نظر زندہ باد و مرحبا، زندہ دلانِ رام پور کیسے چھوڑیں اپنی گلیاں، اپنے یار، اپنے کھنڈر ایسے ہیں مجبور دل سے عاشقانِ رام پور کیا کنائے، کیا اشارے، کیسا اندازِبیاں ہر جگہ پہچانی جاتی ہے زبانِ رام پور عید جیسے ہوگئی ہو، جیسے دنیا مل گئی دُورمِل جائیں کہیں دو ساکنانِ رام پور رام پور کے درباری شاعر مِیریار علی جان صاحب نے ’’مسدّس ِ تہنیت ِ جشن بے نظیر‘‘ میں رام پور کو سطوت و شوکت کا مظہر قرار دیا تھا۔ اُن کا قطعہ ہے : شاہوں کے بھی جو ہوگا نہ آیا ظہور میں سامان عیش کا ہے وہ حاضر، حضور میں اِ س روشنی کا جلوہ تو ملتا ہے طُور میں قدرت خدا کی آئی نظر، رام پور میں جان صاحب، ریختی کے مشہور شاعر ہوگزرے ہیں۔ ’’میاں! اللّہ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے۔ اپنا ’دانہ‘ کامیاب ہوگیا‘‘۔ یہ عبارت پڑھ کر آپ کیا مطلب اخذ کریں گے؟ رام پور کی مخصوص بولی ٹھولی یعنی رُوہیل کھنڈی میں لفظ ’دانہ‘ کسی شخص یا فرد کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہ جملہ ایک بزرگ نے اپنے کسی رامپوری شاعر کے ایک مشاعرے میں کامیاب ہونے پر کہا تھا۔ اس مثال کے نقل کرنے کا سبب یہ ہے کہ ناواقفین وہاں کی بولی کی ایک جھلک دوبارہ دیکھ لیں، ویسے ماقبل، سلسلہ زباں فہمی میں ’’روہیل کھنڈی، رام پوری اردو‘‘ کے موضوع پر، چاراَقساط پر مبنی مضمون لکھ چکا ہوں جو 08 اکتوبر 2023ء سے متواتر چار اِتوار منصہ شہود پر آیا تھا۔ علاوہ ازیں اسی سلسلہ مضامین میں اردو اور پشتو کے لسانی روابط کے موضوع پر بھی چار اقساط قلم بند کرچکا ہوں جن میں رام پوری اردو کا ذکر بھی شامل ہے۔ اس طرح رام پور بذاتہٖ متنوع موضوعات(خصوصاً علوم و فنون بشمول ادب وثقافت کے فروغ) کے لحاظ سے ایک بھرپور باب ہے جس کی کئی جہتوں پر تحقیق ابھی ہونی باقی ہے اور اِس ضمن میں پیش رفت، اہل رام پور اور اُن کی آل پر قرض ہے۔ ’دارالّسرور‘ (یعنی خوشیوں کا گھر) اور علم وادب وثقافت کی سرپرستی اور خوش حالی کے سبب،’’بُخارائے ہند‘‘ کے لقب سے ملقب، سابقہ ریاست رام پور بلاشبہ دِلّی اور لکھنؤ جیسے بڑے مراکز کے بعد تیسرا بڑا گہوارہ تھی جس کے فوراً بعد عظیم آباد (پٹنہ) یا بِہار کا نام لیا جاسکتا ہے، مگر اس میں ایک بات کا ذکر ضروری ہے۔ ریاست کے نوابِین کی سرپرستی میں میرزا غالبؔ، داغؔ اور امیرؔ مینائی جیسے مشاہیرِسخن اور اُن کے ساتھ ساتھ اسیرؔ لکھنوی، منیر ؔ، سحرؔ ،قلقؔ اور تسلیم ؔلکھنوی جیسے مشّاق شعراء نے شعری میدان میں خوب کارنامے انجام دیے تھے، علاوہ ازیں اس دربار سے فیض پانے والوں میں علامہ فضل حق خیرآبادی (رحمۃ اللہ علیہ)، میر حسن تسکینؔ اور میر مظفر علی سمیت بہت سے اہل علم شامل تھے، جبکہ یہ خطہ ہند کی واحد ریاست تھی جہاں کے نواب بھی شاعری میں مشہور ہوئے، ورنہ لکھنؤ اور اَوَدھ سمیت متعدد ریاستوں کے شاعر نوابوں اور راجوں مہاراجوں کا معاملہ نسبتاً دبا دبا ہی رہا تھا۔ نواب یوسف علی خان، غالبؔ کے شاگر دتھے۔ اُنھوں نے میرزا نوشہ کے نام وظیفہ جاری کیا جو اُن کے بعد نواب کلب علی خان (المتخلص بہ نوابؔ) نے بھی اُنھیں عنایت کیا۔ نواب یوسف کا تخلص ناظمؔ بھی غالبؔ کا تجویز کردہ تھا۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کی شہر ت ایک معتبر عالم وفقیہ، مجاہد ِآزادی اور ناقدِ فن کی ہے جس نے میرزاغالبؔ جیسے صاحبِ علم کا اوّلین دیوان کڑی تنقیدی نگاہ سے مرتب کیا، مگر وہ شاعر بھی تھے۔ اُن کی عربی نعت میری نظر سے گزری ہے۔ میر حسین تسکین ؔ، فارسی میں علامہ صہبائی کے اور شاعری میں شاہ نصیر اور مومنؔ جیسے بڑے شاعروں کے شاگرد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ رنگِ مومنؔ میں وہ بہت کامیاب تھے۔ اُن کا یہ شعر مشہور ِ زمانہ ہے: ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی امیرؔ مینائی غزل اور نعت گوئی میں بڑا نام ہے۔ ہرچند کہ وہ تمام اصناف ِ سخن پر حاوی تھے، مگر داغؔ سے مقابلے اور موازنے میں بقول علامہ نیاز فتح پوری ’’حقیقت یہ ہے کہ وہ شاعر پیدانہ ہوئے تھے، برخلاف اس کے داغؔ شاعرِ محض تھے اور کچھ نہیں۔ امیرؔ کی شاعری اکتسابی تھی اور داغؔ کی فطری ‘‘۔ اس سخت تنقید سے قطع نظر، علامہ نے امیرؔ کو صحتِ زبان، تحقیق ِ لغات، محاورے کے برمحل استعمال، بندشِ الفاظ اور مضمون آفرینی میں ’زبردست‘ استاد مانا ہے۔ امیرؔ مینائی کا یہ شعر ضرب المثل ہے: قریب ہے یارو، روزِمحشر، چھُپے گا کُشتوں کا خون کیونکر جو چُپ رہے گی زبان ِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا اس کے علاوہ بھی امیرؔ کے کئی اشعار گویا اپنے عہد کا انتخاب ہیں۔ امیرؔ مینائی کے تلامذہ میں جلیلؔ مانک پوری، حفیظ جون پوری اور ریاض ؔ خیرآبادی نے زیادہ شہرت پائی۔ داغ ؔ کا کیا ذکر کریں جنھوں نے ذوقؔ سے ’زبان ‘ کی شاعری کا درس خوب لیا اور پھر ’’لَسّان العصر‘‘ کے رُتبے کو پہنچے۔ اُن کے بہت سے اشعار مجھے یاد ہیں، مگر فی الحال ایک نمونہ ہی پیش کرتا ہوں: تیرے جلوے کا تو کیا کہنا مگر دیکھنے والے کو دیکھا چاہیے داغؔ کے والد نواب یوسف علی خان کے دربار میں بطور داستان گو ملاز م تھے، وہ بھی ہوگئے، پھر اُن کے بعد نواب کلب ِ علی خان کے دربار سے منسلک ہوئے جنھوں نے داغؔ کی خوب خوب قدر کی۔ داغ کے تلامذہ کی طویل فہرست میں بیخودؔدہلوی، سائلؔ دہلوی، نسیم بھرت پوری، بیخود بدایونی، نوح ناروی، آغاشاعر قِزِلباش دہلوی، علامہ سیماب ؔ اکبرآبادی اور علامہ اقبال کے نام مشہور ہیں۔ نواب یوسف علی خان ناظم ؔ مستند شاعر اور ناقدِ فن تھے جن کا یہ شعر ضرب المثل ہے: میں نے کہا کہ دعویٔ اُلفت مگر غلط کہنے لگے کہ ہاں غلط اور کس قدر غلط شاعری میں ناظمؔ سے بڑھ کر اُن کے ایک شاگرد میاں نظام شاہ رام پوری ( 1823تا 1872) نے نام کمایا۔ اس تفصیل سے قطع نظر، رام پور کا ایک نام مصطفی آباد (عُرف مصطفی باد)بھی تھا جسے مقامی ہندو آبادی کی خوشنودی کی خاطر رائج کرنے سے گریز کیا گیا۔ داغؔ دہلوی نے یہ نام اپنے ایک قطعے میں یوں یاد کیا ہے: ہے عجب شہر مصطفٰی باد اس کو رکھنا مِرے خدا آباد سب اسے رامپور کہتے ہیں ہم تو آرام پور کہتے ہیں داغؔ کی بات چلی ہے تو پھر لگے ہاتھوں یہ تحقیق بھی نقل کردوں کہ اُن کے کلام پر نظامؔ رام پوری کا بہت گہرا اثرتھا، یہاں تک کہ بعض اہل قلم کا خیال ہے کہ داغؔ نے اُن کے کلام پر ہاتھ بھی صاف کیا ہے۔ نظامؔ کے اوّلین استاد شیخ علی بخش بیمارؔ (تلمیذ ِ مومنؔ) تھے جن کے دو شعر بطور تبرک پیش کرتا ہوں: کون پُرساں ہے حالِ بسمل کا خلق مُنھ دیکھتی ہے قاتل کا سانس آہستہ لیجؤ بیمارؔ! ٹُوٹ جائے نہ آبلہ دل کا اس کے بعد نظامؔ رام پور کے مشہور صوفی بزرگ میاں احمد علی شاہ کے مرید اور شاگرد ہوگئے جو خود بھی شاعر تھے مگر اس حوالے سے مشہور نہ ہوئے۔ جب نظامؔ کی شاعری کا چرچا ہوا تو شاعر نواب، یوسف علی خان ناظمؔ نے اُنھیں بُلا کر اپنے دربار میں منصب عطا کردیا اور ایک روایت کے مطابق اپنا تلمیذ بھی بنالیا۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ نواب موصوف کی ایک کنیز نے تنہائی میں، بالکل بے خیالی میں انگڑائی لینے کو ہاتھ اُٹھائے ہی تھے کہ یکایک سامنے سے نواب آگئے اور کنیز نے شرما کر ہاتھ چھوڑ دیے۔ ایسے میں نواب ناظمؔ نے مصرع کہہ دیا: انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اُٹھا کے ہاتھ شاعر تو تھے مگر بس کیا کہیے کہ کیفیت کا تسلسل قائم نہ رہا تو دوسرا مصرع موزوں نہ ہوسکا۔ ایسے میں انھوں نے اپنے درباری شعراء کو جمع کرکے اس مصرع پر مصرع لگانے اور غزل کہنے کی تحریک دی۔ (بعداَزآں نواب موصوف نے پوری غزل بھی کہہ لی تھی، مگر یہ بات مشہور نہیں)۔ سب سے اچھا مصرع لگانے والے یہی نظام ؔ تھے جنھوں نے پوری غزل پر داد سمیٹی: انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اُٹھا کے ہاتھ دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیے مُسکرا کے ہاتھ بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں کیا مُنھ پر اُس نے رکھ لیے، آنکھیں چُرا کے ہاتھ وہ زانوؤں میں سینہ چھُپانا سِمَٹ کے ہائے اور پھر سنبھالنا وہ دوپٹہ چھُڑا کے ہاتھ دینا وہ اُس کا ساغر ِ مَے یاد ہے نظامؔ مُنھ پھیر کر اُدھر کو، اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ یہی نظام ؔ اپنے اسلوب میں اس قدر منفرد ہوئے کہ اُن کے بعض دیگر اشعار بھی مقبول ِ خاص وعام ہوگئے: وہ جھروکے سے جو دیکھیں تو مَیں اِتنا پوچھوں بستر اَپنا پسِ دیوار کروں یا نہ کروں ٭ انداز اَپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو ٭ ایک دم دل سے بھُلایا نہیں جاتا تم کو کچھ خدا جانے کہ کس حال میں دیکھا ہے تمھیں ٭ اُن کو میں کس طرح بھُلاؤں نظامؔ یا د کس بات پر نہیں آتے ٭ تُو بھی اُس شوخ سے واقف ہے بتا کچھ تو نظامؔ مجھ سے دل مانگے تو اِنکار کروں یا نہ کروں ٭ حیران سے رہ جاتے ہیں ہم سامنے اُس کے ہم سے تو نظامؔ اُس سے گِلہ ہو نہیں سکتا نظام ؔ رام پوری کے فنّی مرتبے کااندازہ اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب میرزا نوشہ رام پور پہنچے اور اُن کاکلام سُنا تو فرمانے لگے کہ ’’یہ تو رام پور کے مِیر ہیں‘‘۔ اُن کے متعلق کسی نے کہا کہ اُن کے کلام میں دِلّی اور لکھنؤ کے دبستانوں کی ساری خصوصیات یکجا ہوگئی ہیں۔ راقم اس بارے میں کچھ کلام نہیں کرسکتا، کیونکہ غالب ؔ جیسے نقاد نے اُنھیں بہ اندازِدِگر سراہا ہے۔ جذبات نگاری، معاملہ بندی اور (بقول علامہ نیاز فتح پوری) اَدا بندی جیسی خصوصیات یا لمس نگاری میں یقیناً وہ لکھنؤ کے بعض شعراء کے مثل نظر آتے ہیں مگر یہ محض اُن کے کلام کا ایک حصہ ہے اور بس! ایسے کو شبِ وَصل لگائے کوئی کیا ہاتھ ہر بار جھٹک کر جو کہے ٹُوٹے تِرا ہاتھ اس دستِ نگاریں کو ذرا مَیں نے چھُوا تھا کس ناز سے کہنے لگے اُف! چھوڑ، گیا ہاتھ نظامؔ رام پوری کی لااُبالی فطر ت سے یہ بعید تھا کہ اپنا دیوان مرتب کرتے، اس بابت بھی نواب یوسف علی خان ناظمؔ نے پہل کی، مگر وہ دیوان منصہ شہود پر نہیں آیا، جبکہ نظامؔ کی وفات کے کوئی اڑتالیس سال بعد منشی قدرت علی خاں قدرتؔ رام پوری نے اُن کا دیوان شایع کیا جو بقول علامہ نیاز فتح پوری، نظامؔ کے بہترین کلام سے خالی ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد کلب علی خان فائق نے اُن کا کلیات، مجلس ترقی ادب کے زیراہتمام شایع کیا۔ چلتے چلتے ’’اردو کے عمرخیام‘‘ ریاضؔ خیرآبادی کا ذکر کردوں جو ریاست رام پور کے فیض یافتہ تھے۔ انھوں نے خیامؔ ہی کی طرح ’چکھے بغیر‘ شراب سے متعلق وہ شاہکار شاعری کی کہ آج بھی بے نظیر ہیں۔ (یہ خیام کی چکھے بغیر والی بات علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ’خیام‘ میں لکھی ہے)۔ ریاضؔ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں جو ضرب المثل ہے: چھلکائیں لاؤ بھر کے گُلابی شراب کی تصویر کھینچیں آج تمھارے شباب کی ’’شاعر ِ خُمریات‘‘ ریاض خیرآبادی کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے: کوئی مُنھ چُوم لے گا، اِس ’نہیں‘ پر شکن رہ جائے گی یونہیں جبیں پر ایک اور شعر بھی قیامت خیز ہے: اس طرح کہ گھنگھرو کوئی چھاگل کا نہ بولے جب چھم سے چلیں گود میں چُپکے سے اُٹھالے سابق روہیل کھنڈ میں شامل، ریاست رام پور کا 1941ء میں رقبہ 2,310 مربع کلومیٹرتھا۔ سرکارِ انگلشیہ کی طر ف سے نواب رام پور کو پندرہ (15) توپوں کی سلامی کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ریاست کے نوابین میں نواب فیض اللّہ خان (1774تا 1794) اوّلین تھے جبکہ گیارہویں اور آخری نواب سرسید رضاعلی خان تھے جنھوں نے20 جون 1930تا 26 جنوری 1950(بھارت کے یوم جمہوریہ یعنی حقیقی یوم آزادی کے موقع ) تک حکومت کی۔ مؤخر الذکر کی2,664 کروڑ روپے مالیت کی جائیداد کی سولہ (16)ورثاء میں تقسیم کا قانونی تنازُع تقریباً پچاس سال کی عدالتی کارروائی کے بعد 2021 میں طے ہوا۔ (یہ لفظ تَنازَع یا تنازِعہ نہیں ہے)۔ رام پور کا نام کیسے پڑا، اس بابت تحقیق ابھی تشنہ ہے۔ مشہور روایت کے مطابق یہ ریاست کے قدیم حکمراں راجہ رام سنگھ کے نام سے موسوم ہے، جبکہ لسانی محقق نویدالظفر سہروردی کی رائے میں اس کا انتساب، ہندودیومالا کی مہان شخصیت رام چندرجی سے کرنا قرین ِ قیاس ہے۔ اُن کے خیال میں یہی رام کی اصل جنم بھومی ہے۔ اپنے قیاس کی تائید میں نوید کا کہنا ہے کہ مولانا محمد علی جوہرؔ اور گاندھی جی کا مشہور واقعہ یاد کریں جب گاندھی جی نے حضرت جوہرؔ کو بکثرت شریفے کھانے سے ٹوکا کہ اُنھیں ذیابیطس کا عارضہ لاحِق تھا تو جواب میں ارشاد فرمایا: ’’کیا کریں سُسرالی رشتہ ہے‘‘۔ شریفہ عُرف سِیتا پھل کا وطن سِیتا پور ہے جہاں رام کی سِیتا پیدا ہوئی۔ بات کی بات ہے کہ شوکت علی، محمد علی جوہرؔ اور ذوالفقار علی خان گوہر ؔ(قادیانی )کے نام میں ’خان‘ کا لاحِقہ دیکھ کر اُنھیں رام پوری پٹھان سمجھا جاتا ہے، مگر وہ شیخ کلال برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ (غیرمتعلق سہی مگر دل چسپ لطیفہ ہے سو دُہراتا چلوں۔ کسی نے سرعام شوکت صاحب سے استفسار کیا کہ کیوں حضرت! آپ کے چھوٹے بھائی محمد علی کا تخلص جوہرؔ اور بڑے بھائی کا گوہرؔ، آپ کا تخلص کیا ہے؟ جواب میں گویا ہوئے: شوہر)۔ (جاری)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل