Sunday, July 20, 2025
 

کابلی والا

 



میری بیٹی، مینی تھی تو صرف پانچ برس کی مگر ایک لمحے کو بھی خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔ دنیا میں قدم رکھنے کے بعد صرف بارہ مہینے میں اس نے بات کرنا سیکھ لیا پھر تو جب تک وہ جاگتی رہتی، دم بھر کو اس کی زبان نہ رکتی۔ اس کی ماں کبھی کبھی ڈانٹ ڈپٹ کر اسے چپ کرا دیتی مگر یہ مجھ سے کیوں کر ہوتا۔ میرے خیال میں مینی کی خاموشی ایک غیر فطری بات تھی جسے میں زیادہ دیرتک برداشت نہ کرسکتا تھا۔ یوں میری اور اس کی پہروں دل کھول کر باتیں ہوا کرتیں۔ صبح کا وقت تھا۔ میں اپنے ناول کا سترہواں باب شروع کرنے بیٹھا ہی تھا کہ مینی آ موجود ہوئی۔ کہنے لگی: ’’بابا دیال، کاگ کو کوا کہتا ہے۔ نرا مورکھ ہے۔ کچھ جانتا نہیں نا!‘‘ اس سے پہلے کہ میں مختلف زبانوں کا فرق اسے سمجھاتا اس نے دوسرا مضمون چھیڑ دیا: ’’بابا بھولا کہتا ہے کہ آسمان پر ایک ہاتھی ہے وہ اپنی سونڈ سے پانی چھڑکتا ہے تو بارش ہوتی ہے۔ بھولا کیسی کیسی باتیں بناتا ہے دن رات بکے جاتا ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ میز کے قریب میرے پاؤں کے پاس آبیٹھی اور میرے گھٹنوں سے کھیلنے لگی۔ ادھر میرے ناول کے سترہویں باب میں پرتاب سنگھ، کنچن مالا کو لیے اندھیری رات میں قید خانے کے اونچے دریچے سے ندی میں کود رہا تھا۔ میرا مکان سڑک کے کنارے واقع ہے۔ اچانک مینی کھیلنا چھوڑ کر کھڑکی کی طرف دوڑی اور زور زور سے فیل مچانے لگی۔ ’’کابلی والا، او کابلی والا۔‘‘ ڈھیلا ڈھالا موٹا لباس پہنے، پگڑی باندھے، پیٹھ پر ایک جھولی لٹکائے اور انگوروں کے کچھ ڈبے ہاتھ میں اٹھائے ایک لمبا تڑنگا کابلی افغان ادھر سے گزر رہا تھا۔ نہ جانے اسے دیکھ کر میری بچی کو کیا سوجھا کہ یوں اسے بے ساختہ پکارنے لگی۔ مجھے خیال ہوا کہ اگر پشت پر جھولی ڈالے یہ بلائے بے درماں ادھر آدھمکا تو میرے ناول کا سترہواں باب پورا نہ ہوسکے گا۔ خیر جونہی کابلی نے ہنستے ہوئے میرے مکان کا رخ کیا، بچی گھبرا کر گھر میں جاگھسی۔ اسے یہ ان دیکھا یقین تھا کہ اگر تلاشی لی جائے تو کابلی کی جھولی کے اندر انسانوں کے مینی جیسے کئی بچے ملیں گے۔ کابلی اندر آیا اور مجھے سلام کرکے کھڑا رہا۔ میں نے سوچا کہ اگرچہ میرے ناول کا ہیرو پرتاب سنگھ اور ہیروئن کنچن مالا، اس وقت خطرناک دوراہے پر کھڑے ہیں مگر یوں اس کابلی کو گھر بلا کر بغیر کچھ خریدے ٹال دینا مناسب نہیں، سو میں نے کچھ الٹا سیدھا سودا کیا۔ کچھ امیر عبدالرحمن کا ذکر آیا، کچھ روس اور انگریزوں کے درمیان سرحد کی حفاظت کے بارے میں جو معاہدہ طے پایا تھا اس کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں۔ چلتے وقت کابلی نے مجھ سے پوچھا: ’’بابو جی تمہارا وہ لڑکی کدھر گیا؟‘‘ مینی کے دل میں کابلی کے بارے میں جو بے بنیاد خوف پیدا ہوگیا تھا اسے دور کرنے کے لیے میں نے بچی کو بلا بھیجا۔ مینی آگئی مگر مجھ سے لگ کر کھڑی ہوگئی اور کابلی اور اس کی جھولی کو مشتبہ نظروں سے دیکھتی رہی۔ کابلی نے اپنی جھولی میں سے کچھ کشمش، کچھ خوبانیاں نکال کر مینی کی طرف بڑھائیں مگر اس نے ان چیزوں کو قبول نہ کیا بلکہ خوفزدہ ہوکر وہ میرے زانوں میں چمٹ گئی۔ یہ تھی مینی اور کابلی کی پہلی ملاقات! کچھ دنوں بعد ایک روز میں کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ مینی دروازے کے پاس بنچ پر بیٹھی ہے اور مسلسل بکے جارہی ہے۔ کابلی اس کے پاس بیٹھا اس کی باتیں سن رہا ہے، ہنس رہا ہے اور کبھی کبھی ٹوپی پھوٹی بنگالی میں اپنے رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ مینی کو اپنی پانچ سالہ زندگی میں میرے سوا کوئی ایسا شخص نہیں ملا تھا جو اس کابلی کی طرح پورے انہماک سے اس کی باتیں سنتا۔ میں نے دیکھا کہ مینی کا چھوٹا سا آنچل بادام، کشمکش، اخروٹ وغیرہ سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے کابلی سے کہا: ’’خان تم یہ تکلیف کیوں کرتے ہو۔ اسے چیزیں نہ دیا کرو۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اسے ایک اٹھنی دی جسے اس نے بغیر کچھ کہے اپنی جھولی میں ڈال لیا۔ جب میں گھر لوٹا تو دیکھا کہ اس اٹھنی نے اچھا خاصا ہنگامہ برپا کررکھا ہے۔ میری بیول ایک گول سی چمکدار چیز ہاتھ میں لیے مینی سے پوچھ رہی ہے: ’’بتا تجھے یہ اٹھنی کہاں سے ملی؟‘‘ مینی کہہ رہی تھی: ’’مجھے کابلی نے دی ہے۔‘‘ اس کی ماں نے کہا: ’’تو نے کابلی سے یہ اٹھنی کیوں لی؟‘‘ اس ہنگامے سے گھبرا کر میں مینی کو اپنے کمرے میں لے آیا۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ کابلی اور مینی کی یہ دوسری ملاقات نہ تھی۔ کابلی کو جس کا نام رحمت تھا، دیکھتے ہی مینی پوچھتی: ’’کابلی تمہاری جھولی میں کیا ہے؟‘‘ رحمت بے ضرورت ایک نون غنہ ڈال کر کہتا: ’’ہانتھی۔‘‘ یعنی اس کی جھولی میں ایک ہاتھی ہے۔ کابلی کے خیال میں یہ نہایت ہی لطیف مزاح تھا۔ یہ مذاق اگرچہ چنداں لطیف نہ تھا مگر دونوں اس پر خوب ہنستے۔ ایک ادھیڑ عمر شخص سے ایک ننھی منی لڑکی کی دلچسپ باتیں سن کر میرا بھی دل بہل جاتا۔ کابلی اکثر مینی کو پستہ، بادام وغیرہ دے جاتا تھا غالباً انہی تحفوں سے اس نے بچی کا دل موہ لیا تھا۔ دونوں کے درمیان خوب گھل مل کر باتیں ہوا کرتیں۔ رحمت مینی سے پوچھتا: ’’مینی بابا، تم سسرال کب جائے گا؟‘‘ بنگالی لڑکی شاید پیدا ہوتے ہی سسرال کے لفظ سے آشنا ہوجایا کرتی ہے، لیکن ہم لوگ چونکہ نئی روشنی کے زیر اثر آچکے تھے۔ ہماری بچی کو اس وقت تک اس کا علم نہ تھا، تاہم بات کا جواب نہ دینا اور خاموش رہ جانا مینی کی فطرت کے خلاف تھا۔ وہ کابلی کے سوال کے جواب میں ایک سوال جڑ دیتی: ’’کابلی تم سسرال نہیں جاؤگے؟‘‘ رحمت اپنے فرضی سسر کو نشانہ بناتے ہوئے ایک بھاری سا گھونسہ اٹھاتا۔ ’’ہم اپنے سسرال کو اس سے ماریں گے۔‘‘ مینی یہ تو نہیں جانتی تھی کہ سسر کس بلا کا نام ہے مگر اس بیچارے فرضی سسر کی مشکل کا اندازہ کرکے زور سے ہنس پڑتی۔ ان دنوں پت جھڑ کا موسم تھا۔ ایسے ہی دونوں میں اگلے زمانے کے راجہ مہاراجہ دنیا فتح کرنے نکلا کرتے تھے۔ میں خود کبھی کلکتہ سے باہر نہیں نکلا اسی لیے میرے خیالات دنیا بھر میں چکر لگاتے پھرتے رہے تھے۔ میں اپنے مکان میں گوشہ نشین ہوگیا ہوں مگر میرا دل ہر وقت باہر کی دنیا میں لگا رہتا ہے۔ کسی اجنبی ملک کا نام سنتے ہی میری سوچ کو پر لگ جاتے ہیں۔ کسی پردیسی کو دیکھتا ہوں تو تخیل کے پردے پر اس ملک کی ندی، پہاڑ اور جنگل کے دامن میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا نمودار ہوجاتا ہے۔ ایک ہنستی گاتی زندگی کا خاکہ میرے ذہن میں کھنچ جاتا ہے۔ اگرچہ میرا دل ساری دنیا میں لگا رہتا ہے لیکن میں ایسا درخت بن گیا ہوں جو اپنے پیروں کی مٹی کو مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے۔ جب کبھی گھر سے نکلنے کی ضرورت آن پڑے تو سر پر گویا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ اسی لیے اپنے گھر میں، چھوٹے سے کمرے میں اپنے میز کے پاس بیٹھے بیٹھے اس کابلی کی باتیں سن کر سیرو سیاحت کا شوق پورا کرلیتا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی بنگالی مگر گرجدار آواز میں کابلی میری آنکھوں کے سامنے ایک نقشہ سا کھینچ دیتا، پہاڑی پگڈنڈی ہے جس کے دونوں طرف سرخی مائل پتھریلی زمین ہے۔ بے آب و گیاہ راستے پر پگڑی باندھے تاجروں اور راہ گیروں کا قافلہ چلا جارہا ہے۔ کوئی اونٹ پر سوار ہے کوئی پیدل چل رہا ہے۔ کسی کے پاس پرانی واضع کی بندوق ہے، کوئی ہاتھ پر برچھا اٹھائے ہے۔ مینی کی ماں کی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ ذرا سی بات پر گھبرا جایا کرتی ہے۔ اس کی عمر زیادہ نہیں مگر زندگی کے نشیب و فراز سمجھنے کے لیے کافی ہوچکی تھی پھر بھی اس کے دل میں یہ وہم بیٹھ گیا تھا کہ دنیا کا ہر کونہ چوروں، شرابیوں، سانپوں، شیروں، ملیریا کے کیڑوں اور گوروں سے بھرا پڑا ہے۔ سڑک پر معمولی سا شور ہوتا تو سمجھتی کہ دنیا بھر کے شرابی، اسی کے گھر کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں۔ ایسی صورت میں رحمت کابلی اسے کیوں کر پسند آتا۔ اس کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنے کے لیے وہ مجھے بار بار تاکید کرتی۔ اس کے شکوک ہنس کر ٹالنے کی کوشش کرتا تو سوال کرنے لگتی: ’’کیا کبھی کسی کا بچہ چوری ہوتے نہیں سنا؟ کیا کابل میں بردہ فروشی نہیں ہوتی؟ کیا ایک لمبے تڑنگے کابلی کے لیے ایک چھوٹی سی بچی کا اٹھا لے جانا ناممکن ہے؟‘‘ میں مان لیتا کہ یہ سب امکان سے باہر نہیں تھا مگر پھر بھی رحمت کابلی کے متعلق ایسا گمان رکھنا نامناسب تھا۔ خیر اعتماد کا مادہ ہر شخص میں یکساں نہیں ہوتا۔ میری بیوی بدستور بدگمان رہتی اگرچہ میں رحمت کو اپنے گھر آنے سے روک نہ سکا۔ ہر سال ماگھ کے مہینے میں رحمت کابلی اپنے وطن چلا جاتا۔ ان دنوں اسے گھر گھر جاکر اپنا بقایا وصول کرنے کی مصروفیت ہوتی تھی۔ پھر بھی اب کے برس وہ ہر روز وقت نکال کر مینی کو درشن دے جاتا۔ صبح کو نہ آسکتا تو شام کو آجاتا۔ اسے میرے گھر پر دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوتی۔ ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے جھولی لٹکائے اس لمبے تڑنگے شخص کو اندھیری کوٹھری کے ایک کونے میں بیٹھا دیکھ کر دل میں کچھ کھٹکا تو ہوتا تھا مگر جوں ہی مینی ’’کابلی والا، کابلی والا‘‘ پکارتی، کھلکھلاتی ہوئی دوڑتی ہوئی چلی آتی اور دونوں میں مذاق کی جانی بوجھی باتیں شروع ہوجاتیں، تو دیکھنے والوں کو قدرے اطمینان ہو جاتا۔ کڑاکے کی سردی پڑرہی تھی۔ جاتے جاتے جاڑا اپنا زور دکھا رہا تھا۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا پروف دیکھ رہا تھا۔ صبح کی دھوپ جو کھڑکی سے ہوکر میرے پیروں پر پڑ رہی تھی بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ کوئی آٹھ بجے کا عمل ہوگا۔ صبح کے ٹہلنے والے اپنے سر اور کان گلوبند میں لپیٹے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ اتنے میں گلی میں شوروغل بلند ہونے لگا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا کہ رحمت کو دو پولیس والے پکڑے لیے جاتے ہیں۔ تماشائی لڑکوں کا ایک ہجوم بھی ہمراہ ہے۔ رحمت کے کپڑوں پر خون کی چھینٹیں تھیں۔ میں نے باہر نکل کر سپاہیوں سے ماجرا دریافت کیا۔ کچھ ان لوگوں سے کچھ رحمت سے سن کر پتہ چلا کہ ہمارے پڑوس میں ایک شخص نے رحمت سے ایک رام پوری چادر ادھار لی تھی جس کا کچھ روپیہ باقی رہ گیا تھا مگر اب وہ شخص چادر لینے ہی سے مکرگیا۔ اسی تکرار میں بات بڑھ گئی اور رحمت نے اسے چھرا مار دیا۔ رحمت اس شخص کو موٹی موٹی گالیاں دے رہا تھا۔ اتنے میں ’’کابلی والا، کابلی والا‘‘ پکارتی ہوئی مینی گھر کے باہر آ موجود ہوئی۔ رحمت کا چہرہ خوشی سے پھول کی طرح کھل گیا۔ آج کابلی کے پاس جھولی نہیں تھی چناں چہ ’’ہانتھی‘‘ کا ذکر نہ ہوا۔ مینی نے اچانک پوچھا: ’’کابلی، کیا سسرال جاؤگے؟‘‘ رحمت نے ہنس کر کہا: ’’وہیں جا رہا ہوں۔‘‘ لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کے جواب سے مینی کو لطف نہیں آیا تو اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے اس نے کہا: ’’ان سسروں کو ام ۔۔۔۔ کے پڑا کر دیتا لیکن کیا کرے ہاتھ بندھا ہے۔‘‘ ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں رحمت کو کئی سال کی سزا ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد ہم لوگ اس قصے کو بھول گئے۔ ہمیں کبھی بھولے سے بھی خیال نہ آیا کہ ایک آزاد پہاڑی باشندہ قید خانے کے اندر کیوں کر دن گزار رہا ہے۔ مینی کی اس فراموش کاری پر مجھے شرم آتی، اپنے پرانے دوست کو بھول کر اس نے بنی سائیں سے دوستی کرلی تھی پھر جوں جوں اس کی عمر بڑھتی گئی دوستوں کو چھوڑ کر سکھی سہیلیوں سے راہ و رسم بڑھانے لگی۔ پھر تو یہ حال ہوا کہ میرے کمرے میں بھی شاذ و نادر ہی آتی جیسے مجھ سے لڑائی ہو گئی ہو۔ کئی برس بیت گئے۔ وہی خزاں کے دن ہیں۔ مینی کی شادی طے پاچکی تھی۔ پوجا کی چھٹیوں میں شادی انجام پائے گی۔ درگا مائی جس دن کیلاش سدھاریں گی میرے گھر کی رونق بھی ہمیں اندھیرے میں چھوڑ کر پیا کے آنگن کا رخ کرے گی۔ آج کی سویر بڑی خوشگوار جیسے برسات نے ساری فضا کو دھو ڈالا ہو۔ صبح کی دھوپ سہاگے میں پگھلے ہوئے سونے کی طرح دمک رہی ہے۔ یہاں تک کہ کلکتہ کی گلیوں میں بوسیدہ مکانوں کی شکستہ اینٹیں بھی دھوپ میں نکھری نکھری لگ رہی ہیں۔ ہمارے گھر پر صبح ہی سے شہنائی بجنا شروع ہوگئی۔ شہنائی کا ہر سر میرے دل کو مسل رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنے والی جدائی کا خیال میرے دل کو جو دکھ دے رہا ہے بھیرویں کا رنگ اسے دھوپ کی چادر کی صورت میں ساری دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ انگنائی میں شامیانہ تاننے کے لیے بانس کی کھونٹیاں گاڑی جا رہی ہیں۔ برآمدے میں فانونس لٹکانے کے لیے ٹھک ٹھک ہو رہی ہے۔ لوگوں کے آنے جانے اور ہانک پکار میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا اخراجات کا حساب لکھ رہا ہوں۔ اتنے میں رحمت کابلی داخل ہوا اور سلام کرکے کھڑا ہوگیا۔ میں پہلی نظر میں تو اسے پہچان بھی نہیں سکا کیوں کہ نہ اس کے پاس جھولی تھی نہ لمبے لمبے بال تھے اور نہ ہی بدن میں پہلی سی چستی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’رحمت تو کب آیا؟‘‘ بولا: ’’بابو جی کل شام جیل سے چھوٹ کر آیا ہوں۔‘‘ اس کی بات میرے کانوں کو بھلی نہ لگی۔ میں نے ایک خونی کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ میرا دل سہم گیا۔ جی میں آئی کہ وہ چلا جائے تو اچھا ہو۔ میں نے اس سے کہا: ’’آج ہمارے گھر پر ایک تقریب ہے، مجھے ذرا بھی فرصت نہیں۔ آج جاؤ۔‘‘ یہ سن کر وہ فوراً چل پڑا مگر دروازے تک جاکر جھجکتا ہوا بولا: ’’کیا بچی کو ایک دفعہ دیکھ نہیں سکتا۔‘‘ اس کا خیال تھا کہ مینی پہلے جیسی ہی ہوگی اور ’’کابلی والا، کابلی والا‘‘ پکارتی ہوئی دوڑی آئے گی۔ مینی کے لیے انگوروں کا ڈبہ اور کاغذ میں لپٹے ہوئے کچھ کشمش بادام وہ اپنے کسی ہم وطن سے لیتا آیا تھا کیونکہ اس کی اپنی جھولی تو نہیں تھی۔ میں نے پھر کہا: ’’گھر پر ایک تقریب ہے، آج کسی سے بھی ملاقات نہیں ہوسکتی۔‘‘ وہ کچھ ملول ہوکر چپکا کھڑا رہا پھر ’’بابو سلام‘‘ کہہ کر باہر نکل گیا۔ میرے دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ سوچا کہ اسے واپس بلا لوں۔ اتنے میں دیکھا کہ وہ خود پلٹ کر آرہا ہے۔ قریب آکر بولا: ’’یہ انگور اور کچھ کشمش بادام بچی کے لیے لایا تھا اسے دے دیجئے گا۔‘‘ میں نے قیمت ادا کرنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا مگر اس نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور بولا: ’’بابوجی آپ ام پر برابر مہربانی کیا ہے سو ام کبھی بھول نہیں سکتا۔ ام کو دام مت دو۔ بابو جی تمہارا جیسا لڑکی ویسا دیس میں ہمارا بھی ایک لڑکی ہے۔ ام اس کو یاد کرکے آپ کا لڑکی کے واسطے کچھ میوہ لے آیا کرتا ہے۔ ام آپ کے پاس سودا بیچنے نہیں آتا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے میں ہاتھ ڈال کر تہہ کیا ہوا میلا سا کاغذ نکالا اوردونوں ہاتھوں سے دھیرے دھیرے کھول کر میری میز پر بچھا دیا۔ اس پر ایک ننھے سے ہاتھ کی چھاپ تھی۔ فوٹو تھا نہ رنگین تصویر تھی۔ بچی کے ہاتھ میں کوئی رنگ لگا کر اس نے کاغذ پر چھاپ اتار لی تھی۔ ہر سال رحمت کلکتہ آکر گھر گھرمیوہ وغیرہ بیچا کرتا اور اس چھاپے کو سینے سے لگائے رکھتا۔ شاید اس سے بیٹی کی جدائی کا کچھ مداوا ہو جاتا ہو۔ چھاپ کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرے اور اس کے درمیان کوئی فرق نہ رہا۔ میں بھول گیا کہ وہ ایک کابلی میوہ فروش ہے اور میں ایک معزز بنگالی ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ میری ہی طرح وہ بھی ایک بچی کا باپ ہے۔ دور دیس کی بیٹی کے ہاتھ کی چھاپ مجھے اپنی مینی کی یاد دلاگئی۔ میں نے فوراً اسے اندر سے بلا بھیجا۔ عورتوں نے اعتراض کرنا چاہا مگر میں نے ایک نہ سنی۔ لال ریشمی ساڑھی پہنے، پیشانی پر چندن کی کی لکیریں، دلہن کے لباس میں شرماتی لجاتی مینی میرے نزدیک آکر کھڑی ہوگئی۔ کابلی اسے دیکھ کر ہچکچاگیا اور پرانے طرز پر باتیں نہ کرسکا۔ ہنستے ہوئے صرف اس نے یہ پوچھا: ’’مینی بابا سسرال جا رہی ہو؟‘‘ مینی پہلے کی طرح رحمت کو جواب نہ دے سکی اور شرما کر منہ پھیرلیا۔ مجھے وہ دن یاد آگیا جب کابلی کے ساتھ مینی کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ میرا دل کروٹیں لینے لگا۔ مینی کے واپس جانے کے بعد رحمت ایک ٹھنڈی سانس لے کر زمین پر بیٹھ گیا۔ غالباً اسے احساس ہوگیا تھا کہ اس کی اپنی لڑکی بھی اتنے دنوں میں مینی کی طرح سیانی ہوچکی ہوگی اور اس سے نئی طرح سے بات چیت کرنی پڑے گی۔ نہیں معلوم اٹھ سال کے عرصے میں اس پر کیا گزری ہوگئی۔ صبح کی خوشگوار دھوپ میں شہنائی بج رہی تھی اور رحمت خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے اسے ایک نوٹ دیا اور کہا: ’’رحمت اپنی لڑکی کے پاس جاؤ۔ تم باپ بیٹی کے ملنے سے میری مینی کی شادی میں برکت ہوگئی۔‘‘ اس نوٹ کے دینے سے مجھے شادی کے ساز و سامان میں کسی قدر کمی کرنا پڑی۔ میں نے بجلی کی بتیوں کی تعداد گھٹا دی اور بینڈ باجا بھی نہ منگایا۔ اس سے عورتوں کو بہت ملال ہوا مگر مجھے ایسی خوشی نصیب ہوئی جو شاید دنیا کے سارے سازوسامان اکٹھا کرکے بھی نہ ہوتی۔n

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل