Sunday, July 20, 2025
 

کوچۂ سخن

 



غزل جب یہ آنکھیں کلام کرتی ہیں  شاہ زادے غلام کرتی ہیں ہم پہاڑوں کی عورتیں اکثر  دل بلوچوں کے نام کرتی ہیں  میری آنکھیں خزاں کی بارش کو  احتراماً سلام کرتی ہیں کیا تجھے علم ہے تری باتیں؟ دل پہ مرہم کا کام کرتی ہیں شام ڈھلتے ہی دل حویلی میں  کتنی یادیں قیام کرتی ہیں شہر کی تتلیاں بھلے لڑکے! کب دلوں میں قیام کرتی ہیں اُن نگاہوں کی مستیاں ایماں! شام کو لالہ فام کرتی ہیں (ڈاکٹر ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان) غزل بجا کہ دوست گِلے ہیں بہت اُسے مجھ سے  مگر کہے گا وہ اپنے معاملے مجھ سے  کوئی چراغ، کوئی خواب، کوئی گل، کوئی شعر تمہاری نذر مری جاں جو بن پڑے مجھ سے  میں جی رہا ہوں، اور اک غم کی خاک کے نیچے  دبی ہوئی ہے مری عمر، ہار کے مجھ سے  سو ہم بلندیِ سر کی لڑائی چھوڑ نہ دیں؟ زمیں کو فرق نہیں پڑنا آپ سے، مجھ سے  میں دھن کا پکا تھا اُس آنکھ نے کہا تو بہت  شکست کھا کے گئے ہیں بڑے بڑے مجھ سے نہ ہر کسی سے فراموشیوں کے شکوے کر کہ تیری بزم میں دیوانے کچھ ہی تھے مجھ سے ابھی علم نہیں لہراؤں گا میں اُس دل پر  ابھی علاقے کئی ہیں چھپے ہوئے مجھ سے مجھے کہے ہوئے لفظوں کی رازداری کا  جسے یقین نہیں ہے وہ مت کہے مجھ سے زبیر نام مری ماں نے یوں نہیں رکھا  وہ ہاتھ مجھ پہ پڑا ہے تو اب بچے مجھ سے (زبیرحمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ) غزل رستے تو مسدود ہیں سارے لیکن راہیں باقی ہیں دھیرے دھیرے کھول رہا ہوں جتنی گرہیں باقی ہیں کھیل رہا ہوں تنہا بیٹھا گونگے بہرے لفظوں سے تم آؤ تو مل کر دیکھیں کتنی باتیں باقی ہے الٹی ضربیں دے کے پاگل، وقت کی خالی صفروں کو مرنے والا پوچھ رہا تھا کتنی سانسیں باقی ہیں میں نے اب تک جتنی غزلیں ڈھونڈیں تیری فرقت سے آدھی غزلیں پوری کرلیں، آدھی غزلیں باقی ہیں سنتے ہیں پھر آس نگر میں دہشت گردی جاری ہے خواب سرائے میں خوابوں کی اب بھی لاشیں باقی ہیں کیا دیکھوں میں فیضی ؔکھل کے اندھے بہروں لوگوں کو خواب خیال تو اندھے ہوگئے لیکن آنکھیں باقی ہیں (سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن ) غزل بس درمیاں دلوں کے نہ کوئی فصیل ہو چاہے زمینی فاصلہ جتنا طویل ہو دے چاہتوں میں وقت جو خیرات کی طرح محبوب اِس قدر بھی نہ کوئی بخیل ہو من سے گراؤں جس کو اُسے دیکھتا نہیں  کتنا بھی کوئی کیوں نہ حسین و جمیل ہو اِس مخلصی نے جس طرح مجھ کو کیا ذلیل دشمن بھی رب کرے نہ کوئی یوں ذلیل ہو کٹنے سے بچ بھی سکتی ہے رشتوں کی یہ پتنگ گر اِس انا کی ڈور میں تھوڑی سی ڈھیل ہو پاؤں لہو لہو یہ طوائف کے ہیں مگر ضد پر تماش بیں ہیں کہ مجرا طویل ہو نسخہ فقط ہے اِک یہی ذہنی سکون کا احباب مختصر ہوں تعلق قلیل ہو  (علی رضا رضی۔ عارف والا، ضلع پاکپتن) غزل بند تھا ایک زمانے سے مرا دروازہ دفعتاً آئی ہوا اور کھلا دروازہ میری آواز پہ جب کھل کے ہوا فوراً بند تب کھلا مجھ پہ مجھے بھول گیا دروازہ نیند گہری تھی بہت کھل نہ سکی آنکھ مری کھولنے آئی تھی کل باد صبا دروازہ رات کے آخری لمحوں میں کرے گریہ بہت میرے گھر میں ہے اک آسیب زدہ دروازہ نورؔ گھر میں تو نہیں اور کوئی میرے سوا کیا خبر کون مرا کھول گیا دروازہ (سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی، بھارت) غزل زمین و آسماں جب تک رہیں گے ہم اُس کے نام کا ہی دم بھریں گے ہمیں کیا لینا دینا تم سے واعظ ہمیشہ ہم کشادہ دل رہیں گے وہ ہم کو نہ ملا تو خیر پھر بھی اُسی کی یاد میں برسوں جئیں گے کوئی سنتا نہیں ہے حالِ دل جب  گلہ شکوہ ترا کس سے کریں گے سخن آتا نہیں ہے لب پہ کوئی  نعیمؔ اب تم ہی کہہ دو کیا کہیں گے (نعیم حسین ۔امان گڑھ،نوشہرہ) غزل آزما لے مجھے تو حدِ ستم ہونے تک موت یہ جان چرا لے مرے خم ہونے تک لوگ انجان ہیں محسوس نہیں کر سکتے دل پہ کیا ٹھہرے ہے مضمون رقم ہونے تک بھوک مٹتی نہیں نادان کبھی دولت کی پاپ کروائے ہے یہ سیر شکم ہونے تک بے دلی رنج اداسی پریشانی حسرت ہم پہ کیا گزرے ہے اک نظر کرم ہونے تک آنکھ ہرنی کی،لچک ڈال کی، چندا مورت دل نے چاہا نہیں، پوجا ہے صنم ہونے تک ایک بنجر سا یہ دل کیوں مری قسمت ٹھہرے خوب سینچیں گے اسے باغ َارم ہونے تک کتنی مشکل سے ترے ہجر میں دن کاٹا ہے جاں نکل جائے نہ یہ شام ِالم ہونے تک  (عامرمعان۔ؔ کوئٹہ) غزل دوست کم ہیں، عدو زیادہ ہیں  ذہن سے ہم مگر کشادہ ہیں  پا ہی لیں گے وہ ایک دن منزل  لوگ جو صاحبِ ارادہ ہیں  ہجر میں سر نہیں پٹکتے ہم  اور نہ صاحب رہینِ بادہ ہیں  اپنی مٹی سے جو جڑے ہیں درخت  آندھیوں میں بھی ایستادہ ہیں  ہم سے شکوہ ہے فیض ؔدلبر کو  ہم جو مصروف کچھ زیادہ ہیں  (فیض الامین فیض ۔کلٹی، مغربی بنگال،بھارت) غزل حسنِ دلگیر جب جوان ہوا شہر کا شہر مہربان ہوا دیکھیے میری عمر ہی کیا ہے اُن کی خوشبو سے میں جوان ہوا بات سنتے نہ تھے تحمل سے  اور پھر جب میں بد زبان ہوا دل لگایا تو پھول کھلنے لگے خاک اڑائی تو آسمان ہوا پیڑ شرمندگی سے سوکھ گئے  جب ترا سایہ سائبان ہوا (توحید زیب۔رحیم یار خان) غزل کمال اتنا میری ذاتِ بے ہنر میں رہا کہ مثلِ خاک پڑا پائے فتنہ گر میں رہا میں اپنی ذات کی تکمیل کس طرح کرتا رقابتوں کا بسیرا جو میرے گھر میں رہا ستا رہی تھی اسی کو بھی آرزو لیکن نہیں نہیں میں رہا وہ اگر مگر میں رہا ہمارے ساتھ ہی رسوا ہوئے ہو تم بھی عبث ہمارے عشق کا چرچا نگر نگر میں رہا تمہاری نظرِ کرم کی کہاں توقع تھی ضیا ؔتو پھر بھی پڑا تیری رہگزر میں رہا (ضیاء اللہ خان ضیا۔بنوں ،خیبرپختون خوا) غزل کہتے ہو جو ہر روز وہ کر کیوں نہیں جاتے تم فرقت دلدار میں مر کیوں نہیں جاتے بازار میں بک جاتی ہے غیرت کی علامت دستار چلی جاتی ہے سر کیوں نہیں جاتے ہر وقت پڑے رہتے ہو رستے میں ہمارے تم لوگ گزر گاہ سے گھر کیوں نہیں جاتے قسمت نے جنہیں کھل کے مہکنے نہ دیا ہو ہاتھوں سے وہی پھول بکھر کیوں نہیں جاتے میں آج سمجھ پایا تری بے قدری کو میخانے چلے جاتے ہو گھر کیوں نہیں جاتے حسرت سے ہی اس آنکھ کو تکتے ہو روزانہ اس بحر میں تم صائم اتر کیوں نہیں جاتے (عابد حسین صائم۔ بورے والا) غزل کڑے حالات کے ماروں نے دیکھا کہ پھر اک خواب لاچاروں نے دیکھا سراہا کس نے میری خوبیوں کو؟ تھی اک خامی جسے ساروں نے دیکھا گھرا میں جب صعوبت میں تو مجھ کو بطورِ مشغلہ یاروں نے دیکھا خلوصِ قلبِ مفلس کو ہمیشہ نگاہِ شک سے زرداروں نے دیکھا ہوا جو کچھ بھی اُس کمرے میں باصر وہ سب کچھ اُس کی دیواروں نے دیکھا (عبداللہ باصر۔ گوجرانوالہ) غزل امید کوئی، بھلا کون آپ سے رکھے نصیب سوئے مگر نین جاگتے رکھے لبوں پہ پھول ہیں مسکان کے، بجا لیکن دھڑکتے سینے میں تو دل بجھے بجھے رکھے حقیقتوں نے ہمیں بارہا ڈسا تو ہے کہ آنکھ دشت میں سب خواب سلسلے رکھے مداوا ہم نے کبھی ان کا چاہ کر نہ کیا عزیز ہم نے بہت زخم آپ کے رکھے نجانے شہر میں سب راز کیسے جان گئے وفا میں ہم نے تو پاؤں دبے دبے رکھے کواڑ سارے زمانے کے بند ہوتے رہے کسی کی نیند کے قدموں پہ رتجگے رکھے ہمارے گھر میں بھی حسرتؔ وہ ایک دن آئے بچھائے ہم نے بھی گل، نین بھی بچھے رکھے (رشید حسرت۔ کوئٹہ)   سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘  روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل