Loading
سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی نے بڑی کوشش اور کامیاب منصوبہ بندی کے ذریعے پہلی بار کراچی میں اپنا میئر منتخب کرا لیا تھا جب کہ کراچی میں 13 ٹاؤن چیئرمینوں کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے جب کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی یونین کونسلوں میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور پی پی نے پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمینوں کے تعاون سے اپنا میئر منتخب کرا لیا تھا جس پر وہ بہت خوش تھی اور پی ٹی آئی اگر جماعت اسلامی سے مل جاتی تو دونوں مل کر اپنا میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرانے کی پوزیشن میں تھیں۔ ان دونوں جماعتوں نے آپس میں اتحاد نہ کر کے کراچی میں اپنا میئر لانے کا موقع گنوا دیا۔
اگر یہ سیاسی رنجشیں دور کر کے اتحاد کر لیتے تو آج کراچی میں میئر پیپلز پارٹی کا ہونے کے بجائے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا مشترکہ امیدوار ہوتا۔ مشرف دور میں بننے والے کراچی کے میئر نعمت اللہ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ‘ انھوں نے کراچی کی ترقی کے لیے مثالی کام کیے ‘ انھوں نے جس خلوص سے کراچی کی خدمت کی وہ آج بھی یاد رکھی جاتی اور اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کراچی کا میئر جماعت اسلامی سے ہوتا تو ممکن ہے کراچی کے حالات وہ نہ ہوتے جو آج نظر آ رہے ہیں۔
ممکن ہے کراچی کا نظام بہت بہتر ہوتا اور لوگوں کو صفائی اور دیگر مسائل کے حوالے سے جو شکایات پیدا ہو رہی ہیں وہ نہ ہوتیں۔ایم کیو ایم نے اپنی سیاست کے تحت بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا، اور فروری 2024 کے الیکشن میں سب سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
کراچی میں 13 ٹاؤن میونسپل کارپوریشن پیپلز پارٹی، 9 جماعت اسلامی اور 4 پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور ایم کیو ایم، جے یو آئی کے پاس کسی یوسی کی بھی نشست نہیں ہے اور میونسپل سیاست پی پی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے پاس ہے مگر پی ٹی آئی نہ جانے کیوں خاموش ہے جب کہ جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر اور پی پی کے میئر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف رہتے ہیں اور تنقید کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے۔
ایم کیو ایم کی طرف سے اس کے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے میئر اور ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں جس کا جواب صوبائی وزرا شرجیل میمن اور ناصر حسین شاہ دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے 9 چیئرمینوں کے برعکس جماعت اسلامی کراچی کے امیر میونسپل سیاست میں زیادہ متحرک ہیں جن کی میئر کراچی پر الزام تراشی معمول ہے۔
ایم کیو ایم کی طرف سے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے ہی میئر کراچی کو اختیارات دے جس نے اب تک میئر کراچی کو اختیارات نہیں دیے جو انھیں ملنے چاہئیں کیونکہ اب ان کا اپنا میئر ہے جب کہ 1979 کے بلدیاتی الیکشن کے بعد سے کراچی کا میئر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے منتخب ہوا کرتے تھے اور 2008 سے سندھ حکومت نے میئر کراچی کے اختیارات سلب کر رکھے ہیں جب کہ اب سندھ حکومت کو اپنے میئر کو زیادہ سے زیادہ اختیارات اور کے ایم سی کو زیادہ سے زیادہ فنڈز دینے چاہئیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر مشیر قانون حکومت سندھ، سندھ حکومت کے ترجمان اور کچھ عرصہ کے ایم سی کے ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں اور وہ اپنے اختیارات کا استعمال سابق میئروں کے مقابلے میں زیادہ کر لیتے ہیں مگر اپنی حکومت سے وہ اختیارات نہیں مانگتے جو 14-A کے تحت میئر کو ملنے چاہئیں۔
جماعت اسلامی کے 9 چیئرمین اور جماعت اسلامی کے علاقائی عہدیدار مل کر دن رات ایک ہو کر کام کر رہے ہیں اور میئر کراچی اور سندھ حکومت پر تنقید اور الزامات لگانے کی ذمے داری امیر جماعت کراچی نے سنبھالی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کراچی کے صدر سعید غنی اپنی وزارت چلانے میں ہی مصروف رہتے ہیں اور ان کا ایک بھائی ٹاؤن چیئرمین بھی ہے اور سعید غنی کا تعلق کراچی سے ہے۔ پی پی کراچی کے عہدیداروں اور میئر کراچی میں وہ تعلق نظر نہیں آتا جو جماعت اسلامی کے چیئرمینوں اور عہدیداروں کے درمیان ہے۔
کراچی کی بدقسمتی کہ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار جماعتیں کراچی کو سنبھالنے اور کراچی کے مسائل مل کر حل کرانے کے بجائے صرف سیاست کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خوش قسمتی کہ پہلی بار اس کا میئر اور بڑی تعداد میں ٹاؤن چیئرمین منتخب ہوئے اور سندھ میں 17 سالوں سے حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہے۔
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے میئرز تین تین بار اپنی کارکردگی دکھا چکے۔ دونوں کے سٹی ناظمین بااختیار تھے جن کے دور میں ریکارڈ ترقی ہوئی تھی مگر پی پی کا میئر اب تک ان جیسی کارکردگی نہیں دکھا سکا اور یہ تینوں پارٹیاں اور بلدیاتی عہدیدار اگر چاہیں اور اپنی سیاست کے بجائے کراچی اور شہریوں کے مفاد کو ترجیح دیں اور مل کر کام کریں اور تینوں پارٹیاں شہری مفاد میں کراچی کو صرف بقایا مدت کے لیے سنبھال لیں تو کراچی میں تبدیلی آنا ناممکن نہیں مگر تینوں پارٹیوں نے اگر اپنی اپنی سیاست چمکانی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی ہی کرنی ہے تو کراچی کی حالت مزید بگڑے گی اور شہری تینوں سے مایوس ہو کر تینوں کو برا بھلا ہی کہیں گے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل