Wednesday, November 12, 2025
 

نظام انصاف اور 27ویں آئینی ترمیم

 



آئین میں کی گئی 27 ویں ترمیم کے تحت عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیاں ہونگی۔ اس ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت قائم ہو جائے گی جو آئین کی تشریح کے معاملات دیکھے گی۔سپریم کورٹ دیگر مقدمات کا فیصلہ کرے گی۔ وفاقی عدالت کے فیصلے ریاست کے تمام ستونوں پر نافذ ہونگے۔ اب جوڈیشل کمیشن وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کا تقرر نہیں کرے گا بلکہ وزیر اعظم کی سفارش پر صدر یہ تقرریاں کریں گے۔ وفاقی آئینی عدالت کے لیے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے علاوہ سپریم کورٹ کا جج بننے کی اہلیت رکھنے والے وکلاء بھی اہل ہونگے۔ اس ترمیم کے تحت وفاقی حکومت ہائی کورٹ کے جج کا اس کی مرضی معلوم کیے بغیر کسی دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ کرسکتی ہے اور جو جج صاحبان اپنے تبادلے کے احکامات کی پابندی نہیں کریں گے تو ان کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا جائے گا۔ ایک ماہر قانون کا کہنا ہے کہ تمام آئینی معاملات اب آئینی عدالت کے دائرہ میں آئیں گے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں مقدمات کی بھرمار ہے۔ اس بھرمار کو کم کرنے کے لیے آئینی عدالت قائم کی جا رہی ہے۔ سینئر وکیل بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک بھرکی عدالتوں میں ہزاروں مقدمات التواء کا شکار ہیں مگر سپریم کورٹ میں یہ تعداد 25 ہزار کے قریب ہے اور آئینی عدالت کے قیام سے ملک کی عدالتوں میں زیرِ التواء مقدمات کی تعداد کم نہیں ہوگی۔ اس ترمیم کے حامیوں کا بیانیہ ہے کہ جب 2006 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوا تھا تو اس میثاق میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی شامل تھی۔ اس میثاق پر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی اتفاق کیا تھا۔ اب 20 سال بعد میثاق جمہوریت پر عمل درآمد ہو رہا ہے تو پھر اس شق پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، مگر میثاق جمہوریت میں یہ بات نہیں لکھی گئی کہ انتظامیہ ججز کا تقررکرے گی، پھر یہ دلائل بھی دیے جا رہے ہیں کہ 1977 کے بعد سے عدلیہ کے فیصلوں پر بیرونی دباؤ کا اثر بہت زیادہ نظر آنے لگا تھا۔ 1978میں ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد مشتاق کی سربراہی میں سزائے موت دی گئی، پھر جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کی توثیق کی تھی۔ بعدازاں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کو قانونی قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کو قانونی جواز فراہم کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن کی قیادت میں سپریم کورٹ کی فل بنچ نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر ناجائز قبضے کو نہ صرف قانونی قرار دیا بلکہ حکومتی وکیل کی استدعا کے بغیر جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا۔ اس تناظر میں سابق چیف جسٹس انوار الحق اور مولوی مشتاق کا بھی حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دیگر ججز کے متوازی حکومت بنانے کے متنازع فیصلوں سے نہ صرف جمہوریت کو نقصان ہوا بلکہ بعض فیصلوں سے ملک کی معیشت بھی متاثر ہوئی تھی۔ بعض ترقی پسند وکلاء اس عرصے کے دوران ان چیف جسٹس صاحبان کا ذکر ضرور کرتے ہیں جن کے فیصلوں سے ملک میں جمہوریت مستحکم ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں جسٹس اے آر کارنیلس، جسٹس کیانی، جنرل ضیاء الحق کے دور میں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، جسٹس خدا بخش مری، جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس ناصر اسلم زاہد، جسٹس بھگوان داس اور جسٹس صبیح الدین احمد کا بھی ذکر ہونا ضروری ہے۔ ان جج صاحبان نے انسانی حقوق کے تحفظ ، جمہوری اداروں کے استحکام اور مظلوم طبقات کے تحفظ کے لیے معرکتہ الآراء فیصلے تحریر کیے۔ جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے جنرل ضیاء الحق کے عبوری آئینی حکم P.C.O کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر کے جرات اور بہادری کی ایک ایسی انمول مثال قائم کی تھی کہ بعد میں آنے والے بہت سے جج صاحبان نے بھی اس کی پیروی کی اور جنرل پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم کو ماننے سے انکار کیا، یوں عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوا تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جنرل مشرف کے حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ ان کی بحالی کے لیے چلنے والی وکلاء تحریک نے پورے ملک میں مزاحمت کے ایک نئے کلچرکی بنیاد رکھی تھی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد جو طرز عمل اختیار کیا اس پر سوالات اٹھنے لگے مگر ان کے جانشینوں میں کچھ جج صاحبان نے کئی تاریخی فیصلے کیے۔ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے 2015میں ایک تاریخی فیصلہ کیا مگر انتظامیہ نے اس فیصلے پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا، اگر جسٹس جیلانی کے اس فیصلے پر آج بھی مکمل طور پر عملدرآمد ہوجائے تو اقلیتی فرقوں کے وہ خاندان جو ملک سے باہر جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں وہ اپنا یہ خیال ترک کرسکتے ہیں۔ اس طرح پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار سیٹھ کا آئین کو پامال کرنے پر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا فیصلہ عدلیہ کی تاریخ کا سنہری فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے، کچھ اور وکلاء کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار کی بات ہے تو یہ حقیقت بھی ہے کہ پولیس، عدالتوں کے اہلکار اور وکلاء سمیت سب اس التواء کی وجہ بنتے ہیں۔ مقدمات کے جلد حل کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ ماتحت عدالتیں قائم ہونی چاہئیں اور عدالتوں کو مخصوص عرصے میں مقدمہ ختم کرنے کا پابند کرنا ضروری ہے۔ آئین میں کی گئی 26 ویں ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے سینیارٹی کا اصول ختم ہوا تھا اور حکومت کو اپنی مرضی سے تقرریوں کا اختیار مل گیا تھا۔ جب وفاقی حکومت کی سفارش پر صدر وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججوں کا تقرر کریں گے تو پھر عدلیہ کی آزادی ایک سوال بن جائے گی۔ ججز کی ان کی مرضی کے بغیر تبادلے کا پس منظر اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی مزاحمت بیان کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا آئینی عدالت کے قیام بارے میں چیف جسٹس کے نام خط ججوں میں پائی جانے والی بے چینی کا اظہار کر رہا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل