Wednesday, November 12, 2025
 

پاک افغان تعلقات کے نشیب و فراز

 



پاکستان، افغانستان ہمسایہ برادر اسلامی ممالک ہیں، ہمسائے بدلے نہیں جاسکتے، لیکن 14اگست 1947میں پاکستان آزاد ہوا تو افغانستان کے سیکولر حکمرانوں نے پاکستان کو تسلیم کرنے کے بجائے مشرک ریاست ہندوستان کو دوست اور پاکستان کو اپنا دشمن سمجھا، اور ایک دہائی کے بعد پاکستان کو بطور ریاست تسلیم کیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دی تو پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا، اس دشمنی کی بنیادی وجہ ڈیورنڈ لائن کو بنایا گیاہے‘ بہر حال حکومتوں کی پالیسیاں جو بھی رہیں لیکن کلمہ طیبہ کے لڑی میں پروئے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان محبت، اخوت، رواداری اوربھائی چارے کی فضا کبھی مکدر نہیں ہوئی۔ ہر مسلمان ملک کی طرح افغانستان میں بھی سیکولر لبرلز اور مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ افغان سیکولرز اور قوم پرست روز اول سے پاکستان دشمن اور مذہبی طبقہ ہمیشہ پاکستان دوست رہا۔ مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افغان نوجوان پاکستان بننے سے پہلے پاکستانی علماء کرام سے قرآن و حدیث سیکھنے اور اپنی علمی پیاس بجھانے پاکستان میں قیام پذیر رہتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد لاکھوں افغان پاکستانی مدارس میں پڑھتے رہے، یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو دوست بلکہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ ابتدا میں اقتدار چونکہ سیکولر لبرلز اور قوم پرستوں کے ہاتھ تھا اس لیے یہ عوامی دوستی، ریاستی دوستی میں نہیں بدل سکی، اور دونوں کے درمیان ہمیشہ سرد جنگ چلتی رہتی تھی، پاکستانی قوم پرست علیحدگی پسند کابل میں روپوش رہتے تھے اور پاکستان کے شہروں اور گاؤں دیہاتوں میں بجلی کے ٹرانسفارمرز جیسے چھوٹی موٹی تنصیبات کو بموں سے اڑاتے تھے، پشاور یونیورسٹی میں حیات محمد خان شیرپاؤ کی کرسی کے نیچے بم نصب کرکے افغانستان میں پناہ گزین قوم پرست علیحدگی پسندوں نے انھیں شہید کیا تھا، کھلی دشمنی تو نہیں رہی مگر تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہتے تھے۔ 1979میں سوویت یونین افغان سیکولرز کی سازش سے افغانستان میں داخل ہوا اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرح افغانستان پر قابض ہو کر قتل و غارت کا بازار گرم کیا تو مذہبی رجحان رکھنے والے پاکستان دوست افغان مجاہدین میدان عمل میں اترے۔ دنیا پر سکتہ طاری تھا مگر پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کے لیے اپنی بانہیں اور سرحدیں کھول کر کم و بیش چالیس لاکھ مہاجرین کو پناہ اور تحفظ دے کر ایثار مدینہ کی درخشندہ و تابندہ سنت کو تازہ کیا۔ صرف خیبرپختونخوا نہیں چاروں صوبوں میں افغان پناہ گزینوں کے مراکز بنا کر تعلیم، علاج، روزگار کی سہولیات مہیا کی گئیں اور ان کو صرف مہاجر کیمپس اور بستیوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ پاکستانیوں کی طرح ہر جگہ رہنے اور کاروبار کرنے کی اجازت تھی۔ جہاد افغانستان کے دوران افغانی سیکولر لبرلز قوم پرست طبقات کی پاکستان دشمنی اور مذہبی طبقے کی پاکستان دوستی اور محبت میں مزید اضافہ ہوا اور وہ یک جان دو قالب کے مصداق بن گئے۔ پاکستان کی نصرت سے مجاہدین نے جم کر روس کے خلاف لڑنا شروع کیا تو پاکستانی ان کے شانہ بشانہ لڑے، پاکستان کا ایسا کوئی گاؤں یا شہر اور شاید بلوچستان و خیبرپختونخوا کا کوئی خاندان نہیں ہوگا جس میں جہاد افغانستان میں شہید ہونے والے جوانوں کی میتیں نہ آئی ہوں، آج بھی کابل، جلال آباد، مزار شریف سمیت افغانستان کے طول و عرض میں پاکستانی شہداء کی قبروں کی موجودگی ہماری قربانیوں کی امین ہیں۔ سوویت یونین کی شکست اور انخلا کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی تو ملا محمد عمر نے مدارس کے طلبا کے ساتھ مل کر قیام امن کے لیے اصلاحی تحریک شروع کی، جس کے فیوض و برکات سے افغانستان میں پہلی بار پاکستان دوست حکومت قائم ہوئی تو محسوس ہوتا تھا جیسے افغانستان پاکستان کا حصہ ہے۔ مگر امریکی سرپرستی میں نیٹو افواج کی جارحیت کے نتیجے میں ایک بار پھر افغانستان میں پاکستان دشمن سیکولر لبرلز کی حکومت قائم ہوئی اور کابل میں نفرت کی لگی آگ کی تپش اسلام آباد میں محسوس ہونے لگی، ایک بار پھر عوامی اکثریت اور ایک فرد واحد کے  سوا پوری اسٹیبلشمنٹ امارت اسلامیہ کے ساتھ تھی مگر اس فرد واحد کی وجہ سے غلط فہمیوں اور تعلقات میں سرد مہری کا آغاز ہوا اور افغانستان میں ہندوستان نے ایک بار پھر اپنے پنجے گاڑ لیے، پاک افغان سرحد پر 2 درجن سے زائد قونصل خانے بنا کر دہشتگرد اور قوم پرست علیحدگی پسند تنظیموں کا سپانسر بن کر بیٹھ گیا۔ 20 سال افغان طالبان امریکی اور نیٹو فورسز کے ساتھ لڑتے رہے اور ہم ان کی قیادت سمیت مجاہدین کو انڈرکور امداد اور پناہ دیتے رہے، امریکی انخلاء کے لیے مذاکرات میں پاکستان نے بڑا مثبت کردار ادا کیا تو فاصلے مٹنا شروع ہوئے افغانستان پر طالبان کے دوبارہ اقتدارپر پاکستان میں بھی جشن منایا گیا مگر ہندوستان افغانستان میں موجود اپنی تنخواہ دار پاکستان دشمن دہشتگرد تنظیموں کو طالبان حکومت کے گلے ڈال کر گیا، جنھوں نے افغانستان میں داعش کے نام سے غدر مچایا اور ٹی ٹی پی کے نام سے پاکستان میں دراندازی اور دہشت گردی کا بازار گرم کرکے پاک افغان تعلقات میں بدگمانی اور بگاڑ کا ذریعہ بن گئے تو نوبت جنگ تک پہنچ گئی۔ مگر افسوس کہ ہندوستان کے اس "پاک افغان دشمن منصوبے" کو نہ افغانستان سمجھ سکا نہ پاکستان، اور نہ ہی دونوں نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے حکمت سے کام لیا۔ بارڈر پر کشیدگی بڑھ گئی، غیرمہذب انداز میں مہاجرین کی واپسی کا عمل تیز کر دیا گیا ۔ 4 دہائیوں سے افغان مہاجرین ہمارے مہمان تھے، وہ اپنی ہجرت کو ہجرت مدینہ اور ہم اپنی میزبانی کو مواخات و ایثار مدینہ سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ جتنی قربانیاں ہم نے دی ہیں اصولًا تو ہر افغانی کو پاکستان کا سفیر ہونا چاہیے تھا مگر قریب آنے کی بجائے ہمارے درمیان فاصلے بڑھنے لگے تو ایک طرف طالبان حکومت کے دوبارہ قیام کے بعد ہندوستان، افغانستان میں اپنے پنجے گاڑنے لگا، اور دوسری طرف ترکیہ اور قطر کی بھرپور کوششوں اور مذاکرات کے کئی طویل ادوار کے باوجود مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کیا گیا۔ ہر محب وطن پاکستانی اور افغان کی نظر میں مذاکرات کی ناکامی کے اعلان کے ساتھ دونوں ممالک ہار گئے اور ہندوستان و اسرائیل بغیر جنگ کیے جیت گئے۔ اگر اس کے بعد بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے گئے تو پاکستان اپنی 40 سالہ قربانیاںاور افغانستان اپنے محسن اور دوست ہمسائے کو ہار جائے گا۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دراندازی زمینی حقیقت ہے اسے ہر صورت میں حکومت افغانستان کو روکنا چاہیے اگر دراندازوں کو اکیلے روکنے میں مشکل یا حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو پاک افغان ادارے مل کر انھیں لگام ڈالیں، اگر افغانستان کے لیے یہ بھی مشکل ہو تو پھر پاکستان کو اجازت دیں کہ وہ خود افغانستان میں ہی ان کو نشان عبرت بنائے، اگر ان تینوں آپشنز پر افغان حکومت راضی نہیں تو پھر اس جنگ کو کیسے روکا جاسکتا ہے جس میں ایک کی جیت دونوں کی ہار اور حقیقی جیت ہندوستان اور اسرائیل کی ہوگی۔اب تک جو ہوا بہت برا ہوا مگر اب ہوش کے ناخن اور دونوں ممالک کو حکمت سے کام لینا چاہیے۔ افغانستان کے حکمران پاکستان کے جائز مطالبات کو مان کر پاکستان کی مدد کریں اور بہت ضروری ہے کہ مذاکرات میں دونوں طرف سے مصلحت پسند اور صلح جو افراد کو شامل کریں۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے والوں کو مذاکرات سے دور رکھیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل