Wednesday, November 12, 2025
 

دل نہیں دکھتا کیا؟

 



پندرہ برس پہلے… میں نے ایک کالم لکھا تھا، اس کا عنوان تھا، ’’ نہ لمس نہ خوشبو!‘‘ اس وقت تم پہلی بار ملک چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ گئے تھے۔ والدہ محترمہ اس وقت ایک عجیب سے ڈیپریشن میں چلی گئی تھیں، جس اولاد کو ماؤں نے ہمیشہ اپنے گھر میں دیکھا ہو ( زیادہ تر) ان کا ملک چھوڑ کر چلے جانا ان کے لیے ایک دکھ اور صدمہ بن جاتا ہے۔ تم ان سے بہت قریب بھی تھے، ان کی رونق، ان کے ساتھ گپ شپ لگانے والے۔ انھیں اس آخری عمر میں تمہاری جدائی بڑی شاق گزری تھی۔ انھیں اگر تسلی دیتے کہ تم اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ، دو سال میں لوٹ آؤ گے… ’’آپ ہر روز فون پر اس سے وڈیو کال کر لیا کریں!‘‘ گپ شپ لگا لیا کریں۔ انھوں نے اپنے پنجابی انداز میں کہا تھا کہ ایسی گفتگو اور نصف ملاقات کا کیا فائدہ ، اس میں نہ اولاد کا لمس ہو نہ خوشبو۔ ان کے ان الفاظ پر میں نے وہ کالم لکھا تھا۔ ہم سب تو عرصہ دو سال کا گن رہے تھے مگر اللہ جانتا تھا کہ یہ عرصہ کبھی دو سال میں نہیں ختم ہونے والا تھا۔ دو سال کے بعد بھی اس ملک سے تم جدا نہ ہو سکے اور لوٹ کر نہ آئے اس ملک میں جس میں تمہاری جڑیں تھیں۔ ابا جی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بھی نہ آسکے، پردیس کی مجبوریاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ وہاں پر مستقل قیام کے حصول کے لیے جانے کتنی ہی مجبوریوں کی زنجیریں بندھی ہوتی ہیں ، ان سب میں وقت سب سے اہم مجبوری ہے کہ آپ نے کتنا وقت اس ملک میں گزارا۔ وہ وقت تمام ہوا اور تمہیں اسٹوڈنٹ کے بعدعارضی قیام کا چند سال کا ویزہ مل گیا۔ اب یہ عارضی قیام مستقل بھی تو ہونا تھا، وہ ہوتا ہے تو کوئی اور وجہ نکل آتی ہے ۔ خیر اس کے بعد کم از کم ایسا ہوا کہ والدہ محترمہ کو تم سے چند ملاقاتیں نصیب ہو گئیں ، ان میں قیام اگرچہ چند ہفتوں کا ہوتا تھا مگر چلو کچھ تو آسرا ہو جاتا۔ ماں کی ترسی ہوئی ممتا کو قرار آ جاتا تھا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب تم اس دکھ اور تکلیف کے ساتھ لوٹے کہ والدہ محترمہ کو اسٹروک ہوا تھا اوروہ بے ہوشی میں چلی گئی تھیں۔ اس وقت تمہارا پاسپورٹ مستقل ہونے ہی والا تھا مگر تم نے پاسپورٹ واپس لیا اور سب کچھ فراموش کر کے لوٹے، یہ بھی بھول گئے کہ جانے اور کتنے برس تمہیں اس وقت کا پھر انتظار کرنا پڑے گا جب تمہیں مستقل قیام کا ویزہ ملے گا اور تمہیں برطانوی شہریت مل جائے گی۔ وہ ایک اچھا فیصلہ تھا، چاہے جذباتیت میں ہی ہوا مگر تمہیں ان کے ساتھ ان کا آخری وقت گزارنا نصیب ہوا۔ والدہ محترمہ، اڑھائی ماہ کی بے ہوشی اور کومے کے بعد مرحومہ ہوئیں اور اس تمام عرصے میں تمہیں کیا نصیب ہوا، نہ انھوں نے تم سے بات کی، نہ تم ان سے اس طرح بیٹھ کر گپ شپ لگا سکے جیسے کہ تم پہلے کیا کرتے تھے۔ ا س تمام عرصے میں ہم انھیں بس دیکھتے رہتے اور وہ کبھی ہوش میں آتیں تو وہ صرف دیکھ ہی سکتی تھیں۔ وہ ہمیں اچانک چھوڑ کر چلی گئیں ۔ انھوں نے کسی بھی خوشبو یا لمس کو محسوس نہیں کیا ہو گا، وہ ابدی نیند سو گئیں۔ ماں ایک ایسی لڑی تھی جس نے ہم سب کو پرو کر رکھا تھا، ہم سب ایک تھے والدین کے سائے تلے، ان کی چھتر چھاؤں ہمیں اس دنیا کی سختیوں اور تنگیوں سے یوں نکال لیتی تھی کہ ہمیں محسوس بھی نہ ہوتا تھا۔ اس دن ہم سب کے لیے دعاؤں کا ساتھ چھوٹ گیا اور ہم ایسے بچوں کی طرح محسوس کرنے لگے جن کا ہاتھ بھرے میلے میں اپنی ماں سے چھوٹ گیا ہو۔تمہیں پتا ہے کہ والدین جاتے تو ہیں مگر وہ بٹ کر ہم سب کے بیچ بس جاتے ہیں۔ وہ ہمارے اندر اپنی عادات اور اپنی خوشبو کے ذریعے ہمیشہ رہتے ہیں۔ کسی کی مسکراہٹ ماں جیسی ہوتی ہے، کسی کی گفتگو اور کسی کی چال۔ کسی کے ہاتھ میں ماں کے کھانوں کا ذائقہ ہوتا ہے اور کوئی ماں کی طرح خود ماں سی بن جاتی ہے۔ ابا کا غصہ کوئی سمیٹ لیتا ہے تو کسی کے قہقہے ابا جیسے ہوجاتے ہیں۔ کوئی ابا کی طرح چلتا ہے کوئی ان کی طرح بات کرتا ہے اور کسی کی گھوری پرگمان ہوتا ہے کہ بالکل ابا لگ رہا ہے۔ ہم سب کے اندر اپنے والدین کی ادائیں ہوتی ہیں، یہ ہم کوشش کے ساتھ نہیں سیکھتے بلکہ یہ ہمارے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہیں اور کسی وقت ابھر کر سامنے آجاتی ہیں ۔ بالخصوص جب والدین چلے جاتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر اور اپنے بچوں میں بھی ان کی ادائیں نظر آتی ہیں، وہ ہمارے ارد گرد کسی نہ کسی روپ میں گھومتے رہتے ہیں۔اوائل نومبر2025 کی اس شام کو ایک بار نہیں، میں نے پلٹ کر تین بار تمہارے ساتھ لپٹ کر اللہ حافظ کہا تھا۔ ہر بار شک ہوتا ہے کہ اگلی بار تم آؤ تو شاید میں نہ ہوں۔ تمہارا سات ہفتے کا قیام سات دن جیسا لگا ہے، تم آئے بھی تو ڈیڑھ برس کے بعد تھے۔ اب تو اس گھر میں نہ والدین ہیں اور نہ ان کا انتظار… وہ تو اپنے بچوں کے انتظار میں گیٹ کھول کر ڈرائیو وے پر چل چل کر ہلکان ہو جاتے تھے۔ انھیں اطلاع کردیتے کہ اسلام آباد سے روانہ ہوئے ہیں تو ان کا پورا وجود انتظار بن جاتا تھا اور وہ اڑھائی تین گھنٹے ان کے لیے صدیوں طویل۔ بار بار کال کر کے پوچھتے کہ ہم اس وقت کہاں پہنچے تھے۔ ہر بچے کی پسند اور ناپسند کا خیال ہوتا تھااور ان کے لیے یوں کھانے پکواتے جیسے ہم سالوں کے بعد جا رہے ہوں اور جو آتے ہی سالوں کے بعد ہوں ، ان کا انتظار کیسا ہوتا ہو گا ان کے لیے ۔ مجھے والدین اپنی فکر دے گئے ہیں، وہ فکر جو ان کے دلوں میں اپنے بچوں کے لیے تھی۔ مجھے اسی طرح اپنے بہن بھائیوں کی فکراور احساس ہوتا ہے جس طرح انھیں ہوتا تھا، مجھے بات بے بات پریشانی ہو جاتی ہے اور دل کا سکون ختم ہو جاتا ہے جو کوئی بھی تکلیف میں ہو۔ ان ماں جایوں کے چہرے دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ کسی پریشانی میں ہیں، بیمار ہیں یا تکلیف میں ہیں اور ان کی تکلیف مجھے اپنی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اس شام تمہاری واپس برطانیہ روانگی سے پہلے سب بہن بھائیوں نے کھانے پر اکٹھا ہونے کا اہتمام کیا تھا اور وہیں سے ہم نے تمہیں اللہ حافظ کہا تھا اور ہر روزکی طرح میرے دل کا کچھ حصہ تمہارے ساتھ ہی لپٹ کر برطانیہ چلا گیا۔ مجھے تم اسی طرح محسوس ہوتے ہو جیسے تم میرے وجود کا ایک حصہ ہو، تمہاری جدائی اور دوری مجھے اسی طرح محسوس ہوتی ہے جس طرح والدہ مرحومہ کو ہوا کرتی تھی۔ وہ تو اظہار نہیں کر پاتیں تھیں مگر اللہ تعالی نے مجھے اظہار کی طاقت سے نوازا ہے۔ وہ اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ فلاں مسئلہ ہو گیا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے تو اس کے بارے میں لکھو… انھیں لگتا تھا کہ بس میرے ایک کالم کے لکھنے کی دیر ہے اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ’’نہ لمس نہ خوشبو!‘‘ لکھا ، اسے پڑھ کر ان کی کال آئی، کہنے لگیں ، ’’تمہیں لگتا ہے کہ یہ کالم پڑھ کر اسے کوئی فرق پڑے گا اور وہ بھاگ کر واپس آ جائے گا، جانے والے کہاں لوٹ کر آتے ہیں، پردیس بڑی بری جگہ ہے!‘‘ پہلے ایک بیٹی پردیسن تھی پھر ایک بیٹا پردیسی ہوا۔ انھیں علم تھا کہ نہ کوئی تیس سال کے بعد لوٹ کر آئے گا اور نہ پندرہ برس کے بعد، آئے گا بھی تو مہمان ہی کی طرح۔جتنا ہم اس کے آنے کا انتظار کرتے ہیں، جتنا ہر موقعے پر اس کی کمی سے دل دکھتا ہے… پردیس کے جھمیلوں میں کھو کر، اپنی مصروفیات میں … کیا وہ بھی ہمیں اتنا ہی یاد کرتا ہو گا، ہمارے لیے اتنا ہی بے چین ہوتا ہو گا، کیا اس کا دل بھی ہمیں یاد کرکے اتنا دکھتا ہو گا؟؟؟؟

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل