Wednesday, November 12, 2025
 

سوزش جو ہیرو ہے اور ولن بھی!

 



یہ بالکل سچ ہے کہ انسان کے جسم میں سوزش جنم نہ لے تو وہ مر جائے۔سوزش (Inflammation) ایک ہیرو ہے اور ولن بھی…اور اُس کا ہر کردار اِس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس سیاق و سباق میں ظاہر ہوئی۔ جدید طبی سائنس اُسے ختم کرنے کے بجائے نئی علاجی تراکیب کے ذریعے سوزش کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔سوزش جسم کی قدرتی سپر پاورز میں سے ایک ہے۔ یہ ہمیں انفیکشن کے خلاف لڑنے اور زخم بھرنے میں مدد دیتی ہے۔یونیورسٹی آف برمنگھم ،برطانیہ کے پروفیسر ایڈ رینجر کا کہنا ہے جو دائمی سوزش ( Inflammation Chronic) پر تحقیق کرتے ہیں ’’اگر آپ کے جسم میں سوزش نہ ہو، تو آپ مر جائیں۔ یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہے۔‘‘لیکن اگر یہ وقتی ردعمل مہینوں یا برسوں تک برقرار رہے، تو یہ دائمی سوزش کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ یہ حالت پھر جگر کی بیماری (سیروسس)، ریمیٹائیڈ آرتھرائٹس (RA) اور دل کی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ ماضی میں ڈاکٹر کئی بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے سوزش مکمل طور پر دبانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس کے خطرناک ضمنی اثرات یا سائیڈ ایفیکٹس سامنے آتے اور اکثر یہ علاج مؤثر بھی ثابت نہیں ہوتا ۔ اب سائنس دان ایسے علاج تیار کر رہے ہیں جو سوزش مکمل طور پر ختم نہیں کرتے بلکہ ان خلیوں میں تبدیلیاں پیدا کر نا چاہتے ہیں جو یہ کیفیت بڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور کینسر میں رسولیاں سوزش کے شفا بخش پہلو ہائی جیک کر اپنے فائدے کی خاطر استعمال کرتی ہیں۔ نئے علاج اس کے برعکس حکمت عملی اپنا رہے … یعنی وہ سوزش کو دوبارہ "لڑاکا حالت" میں واپس دھکیل کینسری خلیوں پر حملہ کرنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں۔غرض سیاق و سباق کے لحاظ سے سوزش فائدے مند ہو سکتی ہے اور نقصان دہ بھی۔ لیکن نئی طبی تحقیق کے باعث اب دونوں صورتوں میں اسے قابو میں لانا ممکن ہے۔رینجر کہتے ہیں:’’اگر آپ سوزش قابو میں کر لیں تو اپنے مدافعتی نظام اور سوزش کے ردعمل کو قدرتی طریقے سے کام کرنے دیں گے۔‘‘ سوزش جسم کا قدرتی ردعمل ہے جو جسمانی چوٹ، انفیکشن یا زہریلے اثرات کے جواب میں پیدا ہوتا ہے اور ڈاکٹر صدیوں سے اس کا ذکر کر رہے۔ "Inflammare" لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: "آگ لگانا"۔ دوسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ مارکَس اوریلیئس کے طبیب جالینوس (Galen) نے سوزش کی پانچ بنیادی علامات بیان کیں: ’’گرمی، لالی، سوجن، درد اور فعل میں کمی‘‘۔یہ وہ خصوصیات تھیں جو "شدید سوزش" ( Inflammation Acute) کی نشاندہی کرتی ہیں۔ لالی اور گرمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب خون کی نالیاں پھیل کر جسم کے مرمت کرنے والے مادوں کو زخمی ٹشو تک پہنچاتی ہیں۔دوسری طرف ہارمون جیسے پروسٹاگرلینڈن (Prostaglandins) مادوں کے اخراج سے درد اور سوجن پیدا کرتے ہیں ۔انفیکشن روکنے کے لیے ہمارا مدافعتی نظام "پیروجنز" (Pyrogens) نامی کیمیائی مادے خارج کرتا ہے جو جسم کو مزید پروسٹاگرلینڈن بنانے پر اکساتے اور بخار پیدا کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر رابرٹ انتھونی کہتے ہیں:’’سوزش کا اصل مقصد یہ ہے کہ انفیکشن کو قابو میں رکھے،، اسے پھیلنے سے روکے اور پھر شفا یابی کا عمل شروع کر دے۔‘‘ شدید سوزش کے دوران زخمی خلیے "خطرہ" سگنل بھیجتے ہیں جو مدافعتی خلیوں کو حملے کی جگہ کھینچ لاتے ہیں۔سب سے پہلے پہنچنے والے ان خلیوں میں اَمیبا سے ملتے جلتے میکروفیجز (macrophages) خلیے شامل ہیں جو نقصان پہنچاتے جراثیم کھاتے ہیں۔ اور نیوٹروفیلز (neutrophils) خلیے بھی جو دشمنوں کو اپنے جال میں پھنساکر ختم کرتے ہیں۔ جب یہ خلیے فعال ہو جائیں تو وہ سائٹوکائنز (Cytokines) نامی کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں جو سوزش مزید بڑھاتے ہیں۔ یوں ایک "پازیٹو فیڈبیک لوپ" یا مثبت ردعمل پیدا کرنے والا نظام تشکیل پاتا ہے۔ جب شدید سوزش عروج پر ہو تو انسان یا کسی بھی جاندار کا مدافعتی نظام دشمن کو زیادہ مؤثر اور مخصوص طریقے سے نشانہ لگا رہا ہوتا ہے۔انتھونی کے مطابق عام طور پر شدید سوزش جراثیم یا وائرس کے حملے پر سات دن بعد اپنے عروج پر پہنچتی اور تقریباً تین دن بعد ختم ہونے لگتی ہے۔ اسی وقت کچھ خاص خلیے زخم بھرنے لگتے ہیں جوضد سوزشی یا اینٹی انفلامیٹری سگنل خارج کرتے اور خون کی نئی نالیوں اور بافتوں ( Tissue Connective) کی تشکیل کو فروغ دیتے ہیں۔ سائنس دان ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے کہ جسم کس طرح شدید سوزش کا عمل بند کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات مثلاً جب ہمارا مدافعتی نظام انفیکشن کو مکمل طور پر قابو میں نہ کر سکے تو سوزش ختم نہیں ہوتی…تبھی وہ ایک مثبت عمل سے نقصان دہ عمل میں بدل جاتی ہے۔انتھونی کہتے ہیں ’’اگر یہ عمل بیماری کے بعد دسویں دن کے آس پاس نہ رکے، تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب یہ دائمی (Chronic) مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے۔‘‘ دائمی سوزش میں نیوٹروفیلز، میکروفیجز اور دیگر سفید خلیے سوزش کی جگہ پر موجود رہتے ہیں۔ یہ خلیے مسلسل سائٹوکائنز خارج کرتے اورسوزش بڑھاتے ہیں۔ سوزشی خلیے ’’گروتھ فیکٹرز‘‘ بھی پیدا کرتے ہیں جو خلیات کی تقسیم بڑھاتے اور ایسے انزائمز بناتے ہیں جو بافتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نتیجے میں "خطرے" کے مزید سگنل جنم لیتے ہیں اور یہ شیطانی چکر (Loop) چل پڑتا ہے۔ دائمی سوزش کئی بیماریاں بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہے جیسے :٭ریمٹائیڈ آرتھرائٹس (RA): جو جوڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ ٭سیروسس: جس میں جگر پر داغ پڑ جاتے ہیں۔ ٭ایتھروسکلروسس:یعنی خون کی نالیوں میں رکاوٹیں نمودار ہونا جو دل کے دورے یا فالج کا سبب بن سکتی ہیں۔مزید یہ کہ دائمی سوزش سے خلیوں کی تیز تقسیم ہوتی ہے اور تغیر (Mutation) بھی جنم لیتے ہیں۔ یوں ایسا ماحول تخلیق ہو جاتا ہے جس میں کینسر چمٹنے کا خطرہ شدت سے سامنے آتا ہے۔ ماضی میںڈاکٹر دوران علاج سوزش مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلاً 1950 ء کی دہائی میں سائنس دانوں نے قدرتی طور پر ملتے ’’اسٹیرائیڈز‘‘ نامی مرکبات میں سوزش کم کرنے والے اثرات دریافت کیے جو مدافعتی نظام کاردعمل مجموعی طور پر "خاموش" کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اسٹیرائیڈز دائمی سوزش کی بیماریوں جیسے ریمٹائیڈ آرتھرائٹس کے علاج میں بنیادی حیثیت اختیار کر گئے۔ لیکن چونکہ یہ جسمانی مدافعتی نظام مکمل طور پر دبا دیتے ہیں، اس لیے ان کے مضر اثرات بھی ہیں جیسے:} بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر)} معدے کا السر} موڈ میں اتار چڑھاؤ۔  1990ء کی دہائی میں ادویہ ساز کمپنیوں نے ’’بایولوجکس‘‘ (Biologics) نامی ادویات متعارف کرائیں۔ ان میں سے اکثر ادویہ مختلف سائٹوکائنز خاموش کر کے کام کرتی ہیں، یعنی وہ کیمیائی سگنلز جو سوزش بڑھاتے ہیں، انھیں ختم کر دیتی ہیں۔لیکن اسٹیرائیڈز کی طرح بایولوجکس بھی اکثر مدافعتی نظام کے بڑے حصے کو دبا دیتی ہیں، جس سے انفیکشن ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹو فاسٹینیب (Tofacitinib) نامی دوا جو ریمٹائیڈ آرتھرائٹس کے علاج میں استعمال ہوتی ہے، ایک سگنلنگ راستے کو نشانہ بناتی ہے جو کئی سائٹوکائنز کے درمیان مشترک ہے۔ نتیجے میں یہ دوا استعمال کرتے مریض ہرپس زوسٹر وائرس، نمونیا اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن کے شکار ہو سکتے ہیں۔ پھر نامعلوم وجوہ کی بنا پر بایولوجکس ہر مریض پر مؤثر بھی ثابت نہیں ہوتیں۔ اسی لیے سائنس دان زیادہ ہدفی (Targeted) طریقے تلاش کر رہے ہیں تاکہ نقصان دہ سوزش کو نئی سمت دی جا سکے… عموماً وہ مدافعتی خلیے ری پروگرام کر کے یہ عمل اپناتے ہیں۔یونیورسٹی آف ایڈنبرا، برطانیہ سے منسلک طبی سائنس داں، اسٹیورٹ فوربز جگر کی بیماری ( Liver Fibrosis) میں ’’اسکار ٹشو‘‘ (زخم کی سخت بافت) بننے کے عمل میں میکروفیجز کے کردار پر تحقیق کر رہے ۔ ان کی اور دیگر محققین کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ میکروفیجز کی دراصل دو اقسام ہیں: ٭ نقصان دہ سوزش پیدا کرنے والی قسم جسے ’’M1‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٭ دوسری قسم جسے ’’M2‘‘ کہتے ہیں، سوزش ختم کرتی اوربافتوں کی مرمت (Regeneration) میں مدد دیتی ہے۔ اسٹیورٹ فوربز کی ٹیم اپنے ادارے کے اسپتال میںجگر کی شدید بیماری میں مبتلا مریضوں کے خون سے مونوسائٹس (Monocytes) نامی خلیے فلٹر کرتی ہے جو میکروفیجز کے ابتدائی خلیے کہلاتے ہیں۔ پھر لیبارٹری میں یہ ٹیم کیمیائی سگنلز کا استعمال کر کے ان مونوسائٹس کو M2 ری جنریٹیو (مرمت کرنے والے) میکروفیجز میں بدل دیتی ہے۔ بعد ازاں ان "ری پروگرام " میکروفیجز کو دوبارہ مریضوں کے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔فوربز کا کہنا ہے’’ہمارے علاج کا مقصد جگر کی نشوونما کودوبارہ ابھارنا ہے جس کا مطلب ہے اسکار ٹشو ختم کرنا اور سوزش کو نقصان پہنچانے والی منفی حالت سے مرمت کرنے والی مثبت حالت میں بدل دینا۔‘‘ یہ طریقہ نو مریضوں پر کیے گئے فیز اول کلینیکل ٹرائل میں محفوظ ثابت ہوا۔ فیز دوم کے ایک بڑے تجربے (50 مریضوں پر) کے ’’حوصلہ افزا نتائج‘‘ فوربز نے امریکی تنظیم برائے مطالعہ امراض جگر (American Association for the Study of Liver Diseases) کی ایک میٹنگ میں پیش کیے۔ ٹیم نے دریافت کیا کہ مریضوں پر ایک سالہ تجربے کے دوران میکروفیج علاج نے ان میں جگر سے متعلق مہلک پیچیدگیوں کی تعداد نمایاں طور پر کم کر دی۔ تاہم سوزشی بیماریوں کے بنیادی مسئلے کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے ، آپ مخصوص متاثرہ ٹشو میں موجود اہم خلیوں کو پہچان لیں۔ یہ نکتہ ڈاکٹر کرس بَکلی اجاگر کرتے ہیں جو یونیورسٹی آف آکسفورڈ، برطانیہ سے بطور پروفیسر آف ٹرانسلیشنل ریمیٹالوجی منسلک ہیں۔مثال کے طور پرریمٹائیڈ آرتھرائٹس مرض میں مدافعتی نظام کا حصہ بنے سفید خلیے اکثر غلطی سے جوڑوںکی بافتوں کو نشانہ بنادیتے ہیں۔یہ سفیدخلیے میکروفیجز کے علاوہ فائبروبلاسٹس (Fibroblasts) خلیوں کو بھی متحرک کرتے ہیں جو کنیکٹیو ٹشو بناتے اور یوں جوڑوں میں سوزش بڑھاتے ہیں۔ ریمٹائیڈ آرتھرائٹس کے عام علاج میں عموماً انہی "باغی" سفید خلیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے ،ریمٹائیڈ آرتھرائٹس کے صرف 50 فیصد مریض ہی مکمل طور پر صحتیابی تک پہنچ پاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل بَکلی اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیا، جوڑوں میں موجود فائبروبلاسٹس کی ایک قسم ریمٹائیڈ آرتھرائٹس میں سوزش بڑھاتی ، جبکہ دوسری قسم ہڈیوں کی ایک اور بیماری، آسٹیو آرتھرائٹ(osteoarthritis) میں ہڈی اور کارٹلیج کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس سے یہ امکان پیدا ہو گیا کہ دونوں بیماریوں کا علاج ان مخصوص فائبروبلاسٹس کو نشانہ بنا کر کیا جائے جو ہر بیماری میں الگ کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی یہ تحقیق مشہور امریکی جریدے ،نیچر (Nature) کے ایک مقالے میںشائع ہو چکی۔ ڈاکٹر کرس بَکلی کے مطابق اگر ریمٹائیڈ آرتھرائٹس کے علاج میں سفید خلیوں اور فائبروبلاسٹس، دونوں کو ایک ساتھ نشانہ بنایا جائے تو ممکن ہے کہ اس مرض کے ’’سو فیصد‘‘ مریض مکمل صحتیابی حاصل کر لیں۔یہ علاج ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ تاہم 2021 ء میں سیلیکیکلِب (Seliciclib) نامی دوا جو جوڑوں میں فائبروبلاسٹس کی بڑھوتری دباتی ہے، ریمٹائیڈ آرتھرائٹس کے 15 مریضوں پر کیے گئے فیز اول کلینیکل ٹرائل میں محفوظ پائی گئی۔ اس کامیابی نے آئندہ ایسے تجربات کی راہ ہموار کر دی جن میں اس دوا کے مؤثرپن کو پرکھا جائے گا۔ کچھ دائمی بیماریوں کے لیے سائنس دان ایسے علاج بھی تیار کر رہے ہیں جو ’’سوزش ابھارتے ہیں‘‘ بجائے اس کے کہ اسے ختم کر دیا جائے۔مثال کے طور پر کینسر میں میکروفیجز سرطانی رسولیوں (Tumors) تک پہنچ کر ان پر حملہ کرتے ہیں۔ لیکن کینسر کے خلیے یہ عمل ہائی جیک کر ایسے کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں جو میکروفیجز کو M1 (سوزش پیدا کرنے والی) قسم سے M2 (سوزش ختم کرنے والی) قسم میں بدل دیتے ہیں۔ یہی M2 میکروفیجز سوزش دباتے اور سرطانی رسولیوں کی بڑھوتری کو فروغ دیتے ہیں۔ اسی حقیقت کی بنیاد پرڈاکٹر یارا عبد نے جو امریکی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں آنکولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں،مع ساتھیوں کے سوچا، کیا ایک وائرس استعمال کر کے میکروفیجز کو دوبارہ پروگرام کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ کینسر کے مریضوں میں ٹیومر کے خلیوں کو زیادہ بہتر انداز میں پہچان لیں اور ان پر حملہ کریں، بالکل جیسے M1 میکروفیجز کرتے ہیں۔پچھلے سال ڈاکٹر یارا عبد کی زیرنگرانی جاری فیز اول کلینیکل ٹرائل کے ابتدائی نتائج سامنے آئے جس میں 18 مریض شامل تھے۔ان کو مختلف اقسام کے کینسربشمول چھاتی، بیضہ دانی اور غذائی نالی کے لاحق تھے۔ اس ٹرائل میں دوبارہ پروگرام کیے گئے ’’CT-0508‘‘ میکروفیجزنامی سے علاج محفوظ پایا گیا اور نتائج حوصلہ افزا تھے۔ ڈاکٹر عبدو کہتی ہیں’’دوران تجربہ ہم یہ دیکھنے میں کامیاب ہوگئے کہ CT-0508 کینسری رسولی کے مائیکرو ماحول میں سوزش کو بھڑکانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ یہ میکروفیجز دوسرے مدافعتی خلیات بھی بھرتی کرتے اور انہیں فعال بناتے ہیں تاکہ وہ کینسر ختم کر سکیں۔ڈاکٹر عبدو کے مطابق اس ٹرائل سے مزید ڈیٹا اگلے سال جاری کیا جائے گا۔ ان حوصلہ افزا نتائج کی بنیاد پر ٹیم ایک متبادل طریقہ علاج’’CT-0525‘‘ کو بھی آزمانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں میکروفیجز کے بجائے دوبارہ پروگرام کیے گئے’’مونوسائٹس‘‘ استعمال کیے جائیں گے۔ اس کا فیز اول کلینیکل ٹرائل 2024 ء سے شروع ہو چکا۔ اگلے اقدامات ڈاکٹر فوربز اور ان کی ٹیم جنہوں نے فیز دوم کلینیکل ٹرائل مکمل کیا ہے، اب اپنی میکروفیجز تھراپی کا ایک جدید ورژن ان مریضوں پر آزمانا چاہتے ہیں جنہیں سیروسس (جگر کی شدید سکارنگ) کی وجہ سے اسپتال میں داخل کیا گیا ۔فوربز کہتے ہیں’’فی الحال جگر کے شدید سیروسس میں مبتلا مریضوں کے لیے جگر کی پیوند کاری (Transplant Liver) اور عمر بھر کی دیکھ بھال ہی واحد طریق علاج ہے۔لہٰذا میکروفیجز تھراپی ان مریضوں کے لیے ایک نیا علاج فراہم کر سکتی ہے جو تعداد میں مسلسل بڑھ رہے ۔‘‘ڈاکٹر عبدو اور دیگر محققین جو کچھ کر رہے ، وہ یہ ہے کہ سوزش (Inflammation) کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا جائے… نہ صرف یہ ایک خامی کے طور پر ختم ہو سکے بلکہ ایک ناقابلِ یقین قوت کے طور پر اسے قابو میں لا کر انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا ئے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل