Loading
حکومت پاکستان نے افغان نژاد تازہ پھلوں کی ایران کے راستے درآمد کی ایک کوشش ناکام بنا دی جس کا مقصد دوطرفہ تجارت کی معطلی سے بچنے کے لیے متبادل راستہ اختیار کرنا تھا، اس وقت 5,500 سے زائد افغان ٹرانزٹ کنٹینرز بین الاقوامی سرحدوں کی بندش کے باعث پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
افغانستان کے لیے سامان کی بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کے باوجود یہ صورتحال کابل کی پاکستان پر انحصار کو ظاہر کرتی ہے، اگرچہ وہ متبادل تجارتی راستے تلاش کرنے کی کوششوں میں ہے۔
اسی دوران وسط ایشیائی ریاستوں کو بین الاقوامی تجارت کی معطلی کے اثرات سے بچانے کے لیے پاکستان نے ازبکستان کو 5 کارگو فضائی راستے سے لے جانے اور 29 کنٹینرز کو چین کے راستے منتقل کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے، یہ اقدام اس بین الاقوامی کنونشن کے تحت کیا جا رہا ہے جس پر تمام علاقائی ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ازبکستان فوری ضرورت کے سامان کو فضائی راستے سے لے جائے گا جبکہ باقی کارگو چین کے ذریعے منتقل ہوگا۔
افغانستان اپنی برآمدات کے لیے ہمسایہ ممالک پر سمندری بندرگاہوں تک رسائی کے لیے انحصار کرتا ہے، سرحدوں کی بندش نے افغان برآمدکنندگان خصوصاً کسانوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں جو اپنی آمدنی کے لیے پھل اور سبزیاں پاکستان اور دیگر علاقائی منڈیوں میں فروخت کرتے ہیں۔
افغانستان کی خراب ہونے والی برآمدات جیسے تازہ پھل، سبزیاں اور خشک میوہ جات قریبی اور کم لاگت والے راستوں پر انحصار کرتی ہیں۔
طویل راستوں سے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور سامان کے خراب ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ کسٹمز حکام کے مطابق، افغان نژاد سامان ایران کے راستے درآمد کرنے کی کوشش ارلی ہارویسٹ پروگرام کے غلط استعمال کے ذریعے کی گئی۔
8 نومبر کو ایک درآمدکنندہ نے تقریباً 23 ملین ٹن وزنی تازہ پھلوں کی کھیپ ایران کے راستے درآمد کرنے کی کوشش کی۔ درآمدکنندہ کے کلیئرنگ ایجنٹ نے تافتان کسٹمز پر ارلی ہارویسٹ پروگرام کے تحت رعایت حاصل کرنے کی درخواست دی۔
اس نے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کا درآمدی پرمٹ پیش کیا اور افغان انوائس، بل آف لیڈنگ، برآمدی دستاویزات اور فائیٹو سینیٹری سرٹیفیکیٹ دکھائے۔
ذرائع کے مطابق، کسٹمز حکام نے یہ موقف اپنایا کہ ارلی ہارویسٹ پروگرام دونوں ممالک کے کسانوں کو باہمی فائدہ پہنچانے کے لیے تھا تاہم اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی دوطرفہ تجارت نہیں ہو رہی۔
اسی بنیاد پر کھیپ کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کے لیے جانے والے 5,500 سے زائد کنٹینرز یا تو سڑکوں پر یا کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔
تقریباً 4,650 کنٹینرز سمندری اور زمینی بندرگاہوں پر موجود ہیں جن کی کلیئرنس سرحدی بندش کے باعث روک دی گئی۔
پاکستان نے اگرچہ افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ معطل نہیں کیا تاہم کسٹمز حکام نے سرحدی رش سے بچنے کے لیے کلیئرنس روک دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران یا وسط ایشیائی ممالک کے راستے تجارت فی الحال افغانستان کے لیے معاشی طور پر فائدہ مند نہیں۔
ایران کے راستے سفر کا فاصلہ زیادہ اور لاگت بھی کہیں زیادہ ہے۔ اگر افغانستان ایران کی چابہار بندرگاہ یا ازبکستان و ترکمانستان کے راستے تجارت کرے تو یہ مختصر اور درمیانی مدت میں مالی طور پر غیر مؤثر ثابت ہوگی۔
متبادل راستے ٹرانسپورٹ اخراجات میں 30 سے 50 فیصد اضافہ کر سکتے ہیں۔افغان درآمدات کی بندش کا ملکی افراطِ زر پر محدود اثر پڑا ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق 6 نومبر تک ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 0.6 فیصد کم ہوئی جبکہ ٹماٹر کی قیمتوں میں 38 فیصد، پیاز میں 5 فیصد اور لہسن میں 3.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل