Loading
ایم ایل ون منصوبہ پاکستان ریلویز کے لیے درد سر بن گیا، منصوبے مں تاخیر اور بروقت تعمیر و مرمت نہ ہونے سے پاکستان ریلویز کا انفرا اسٹرکچر انتہائی خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔
مسافر ٹرین ہو یا مال بردار ریل گاڑی کچھوے کی رفتار سے چلنے پر مجبور، اگر ریل گاڑی کی اسپیڈ بڑھائیں تو ریل کار پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔ مسافروں کے ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں کے ڈرائیورز بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
ایکسپریس نیوز کو ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان ریلویز کا ڈیڑھ پونے 200 سال پرانہ ریلوے ٹریک ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے انتہائی کمزور ہو چکا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی بروقت روانگی اور آمد میں 7 سے 9 گھنٹے تک کی تاخیر معمول بن چکی ہے۔
ریل گاڑیوں کے ڈرائیورز ٹرینوں کی ’’بک اسپیڈ‘‘ کے بجائے انتہائی کم سپیڈ پر ریل گاڑیوں کو چلا رہے ہیں۔ پاکستان ریلویز کے تقریباً 1900 کلومیٹر ریلوے ٹریک میں 1100 کلومیٹر ٹریک پر ’’بک اسپیڈ‘‘ کے بجائے انتہائی کم اسپیڈ پر گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ یعنی ڈرائیو کو پابند کر دیا گیا ہے کہ ریل گاڑی کو اصل اسپیڈ پر نہیں چلانا ہیں۔
ای ار انجینئرنگ ریکسٹکشن لگا دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹرینیں بعض اوقات کچھوے کی رفتار سے چلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ بک اسپیڈ کے حساب سے پیسنجر ٹرین ڈاؤن و اَپ 110 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے مگر اس کی اسپیڈ کہیں 55 کلو میٹر تو کہیں 78 کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ کسی ٹریک پر اگر 100 کی اسپیڈ کو چھو لے تو گاڑیاں یا تو پٹڑی سے اتر کر الٹ جاتی ہیں یا کسی نہ کسی اور حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں۔
پاکستان ریلوے سے سفر کرنے والے مسافروں کو کئی کئی گھنٹوں کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ خستہ حالی کی وجہ سے بعض اوقات پاکستان ریلوے کو اپنی ریل گاڑیاں منسوخ کر کے مسافروں کو دوسری گاڑیوں میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
ریلوے ٹریک کراچی سے پشاور تک جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کو وقتاً فوقتاً مرمت کر کے ریلوے انتظامیہ گاڑیوں کی آمدورفت کو چلانے میں مصروف عمل ہے، سب سے زیادہ خستہ حالی کا شکار سکھر سے کراچی تک کا ریلوے ٹریک ہے۔ یہاں پر گڈز اور مسافر ٹرینوں کے لیے 100 سے زائد انجینئرنگ ریکسٹکشن ہے۔
ریل گاڑی کی رفتار کی حد کو محدود کر دیا گیا ہے، یہاں پر ریلوے کی اوسط رفتار 50 سے 55 کلو میٹر فی گھنٹہ کے درمیان ہے جبکہ بات کریں ملتان، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کی تو وہاں پر ریلوے کی رفتار کہیں 78 کلومیٹر ہے تو کہیں 80، اگر 90 اور 100 کو چھو بھی جائے تو اس کے بعد ڈرائیور کو بریک لگانا پڑ ہی جاتی ہے کیونکہ پاکستان ریلوے نے سال 2015 سے ریلوے ٹریک کی اَپ گریڈیشن پر سی پیک کے تحت بننے والے پروجیکٹ ایم ایل ون پر توجہ ہی نہیں دی۔
یہی وجہ ہے کہ ریلوے انتظامیہ بوگیاں اور انجن ہونے کے باوجود صرف ٹریک کی خستہ حالی کے باعث بہت ساری ٹرینیں بروقت چلانے میں ناکام ہو چکا ہے۔
اس سلسلے میں چیف ایگزیکٹو ریلوے عامر علی بلوچ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹریک پر بھی کام ہو رہا ہے، سکھر ڈویژن میں چلے جائیں تو بہت سارا حصہ پرانا ہے۔ اس ڈویژن میں بہت سے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور تقریباً پانچ پانچ ارب کی لاگت سے کام ہو رہا ہے۔ کراچی روہڑی کی خوشخبری کئی دفع دے چکے ہیں جبکہ ریلوے اسٹیشن کی اَپ گریڈیشن جاری ہے۔
لاہور، کراچی، فیصل آباد اور راولپنڈی اسٹیشن اَپ گریڈ ہو چکے ہیں۔ مسافروں کو بروقت پہچانے سمیت دیگر جدید سہولیات بھی فراہم کر رہے ۃٰں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بھی ریل گاڑیوں کو چلایا جا رہا ہے جہاں آرام دہ سیٹوں کے ساتھ ساتھ ذائقے دار کھانے پینے کی اشیاء بھی انتہائی مناسب قیمت میں فراہم کی جا رہی ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل