Loading
برف پگھلنے لگی ہے بہت جلد برف کا یہ بہت بڑا ایوا لانچ یاگلئیشر پگھل جائے گا، ملین پاؤ، توشہ خانے کروڑوں کے خزانے، نکاحوں کے افسانے، قانون کے دندانے اورطرح طرح کے شاخسانے صرف ایک چلو بھر پانی یاگیلے کپڑے کی صورت میں رہ جائیں گے اوروہ بھی دھوپ میں سوکھ جائیں ،اللہ اللہ خیر سلا۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو افسانہ تھا۔ کون چور؟کوئی بھی نہیں۔ وہ لاکھوں کروڑوں کی چوریاں ۔ بڑے بڑے بلیک اینڈ وائٹیوں کی فیس ، قیامت مقدمات ، بڑے بڑے دبنگ عادل واہل انصاف کے کارنامے سب کچھ دھوئیں کے پہاڑ تھے جو ہوا میں تحلیل ہوگئے، مقتول موجود، قاتل غائب، ٹوپی ڈرامہ اورنوراکشتی، چھومنتر اورآخری نتیجہ یہ کہ مقتول نے خود ہی خود کو مارا تھا مجھے نہ ہاتھ لگاؤ کہ مرچکا ہوں میں خود اپنے ہاتھ سے یہ خون کرچکا ہوں میں ایسا پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے ، ایک لاکھوں کا تنخواہ دار ملازم آتا ہے کروڑوں کامینڈیٹ رکھنے والے کو کان سے پکڑ کر ’’بیک بینی ودوگوش‘‘ کسی چست حور کی طرح، داخل زندان کردیتا ہے ، بڑے جغادری لوگوں کے اجلاس ہوتے ہیں منرل واٹر کے گھونٹ لے کر نشستندو گفتندو برخواستند انصاف کابول بالا ہوجاتا ہے عدل قائم ہوجاتا ہے قانون نافذ ہوجاتا ہے کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا بڑے ذوق وشوق سے باتدبیروں، وزیروں، مشیروں ، معاونوں، ترجمانوں کے متواتر اورریپیڈ بیانات، ڈزاڈز فائر ہوتے ہیں، بیچارے کالانعام بیانات پڑھ پڑھ کر آنے والے فردوس گم گشتہ کے عنقریب ملنے پر پھولے نہیں سماتے لیکن پھر جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ ملا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سناتھا ، پتہ چلتا ہے کہ وہ تو نوراکشتی اورٹوپی ڈرامے کا ایک سین تھا۔ انتظار تھا کہ دیکھیے دوسرے سین میں کیا ہوتا ہے ۔ پردہ اٹھتا ہے میڈیا کاارکسٹرامیوزک دیتا ہے لیکن تماشائی حیران ہوجاتے ہیں کہ طلسم ہوشربا اورمایا جال اڑچکا ہے ، پچھلے سین کے ہیرو زیرو اور ولن ہیرو ہوچکے ہیں تھا خواب میں خیال کاتجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سود تھا جب کچھ عرصہ پہلے سب سے بڑا چور پکڑاگیا جو وزیراعظم کے لباس میں تھا تو ریاست مدینہ بنی، صادق اورامین آئے سارے جہاں میں دھوم مچ گئی کہ اب وہ ’’فردوس گم گشتہ ‘‘ چند قدم کے فاصلے پر ہے ، اخباری بیانات میں اس کے کنگورے بھی نظر آنے لگے اور معاونین خصوصی نے تو ہوا میں اس کی خوشبوئیں بھی محسوس کی تھیں اورحضرت ’’وژن‘‘ کو اس کا رضوان قراردیاگیا ، اداروں کی ریل گاڑیاں ٹریک پرڈال دیں، اسی میڈیا نے مبارک باد کے ڈونگرے برسائے کہ اگرفردوس برروئے زمین است ہمیں است وہمیں است وہمیں است ایک کروڑ مکان اورایک کروڑ نوکریاں بھی مستحقین کودی گئیں اور پرانے پاکستان کے بند گوبھی کے اندر سے نیانویلا نکورپاکستان نکالا گیا۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا ؟ یہاں میں مصر کے ایک پرانے مورخ کے الفاظ دہرانا چاہتا ہوں جب ’’پیکوس‘‘ نامی چرواہے نے بادشاہ ہونے پرمصر پر حکومت قائم کی تو مانبھو نے لکھا۔ پھرنہ جانے کیاہواکیسے ہوا ، کیوں ہوا؟ شاید دیوتاہم سے ناراض ہوگئے تھے کہ مشرق کی طرف سے کچھ اجنبی اوربدذات لوگ آئے انھوں نے ہمارے بادشا ہ کو معزول کیا اوراپنا بادشاہ بٹھا دیا جس کا نام اسیس تھا (فلپ ختی، تاریخ شام) کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہوا’’دیوتا‘‘ ہم سے ناراض ہوئے کہ امپورٹڈ حکومت آگئی، سارے صادق اورامین بلکہ صادقیاں اورامینائیں بھی پکڑی گئیں اورساتھ امیر المومنین بھی، کچھ ہی دنوں میں پتہ چلا کہ وہ تو سب چور تھے جو علی بابا اوربھابی کی قیادت میں سب کچھ چوری کرچکے ہیں ، خزانے توشہ خانے ، ملین پونڈ خانے ، نکاح خانے، طلاق اورنہ جانے کیاکیا بلیک اینڈ، انصاف خانے ، عدل خانے اورقانون متحرک ہوگئے ۔ ہم جیسوں کاخیال تھا کہ علی بابا کو سات بار پھانسی اوراس کے بعد عمرقید بامشقت باذلت اوربااذیت ملے گی۔ لیکن افلاک کے ستارے سیارے سارے ہمارے گردش میں آگئے، اوردفعات کی ’’سل‘‘ پگھلنے لگی ، مقدمات پگھل گئے، سل کی ایک پتلی سی کاغذی تہہ رہ گئی ہے ، وہ بھی پگھل جانے کو ہے ایک خوشبوئے شناسا جو صبالائی ہے وہ بھی آجائیں گے، آنے کی خبر آئی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیاکہیں؟ کیاسمجھیں اورکیالکھیں ۔ لگتا تو ایسے ہے کہ بلیک والوں کا روزگار چلتا رہنے کے لیے یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے بلکہ کچھ اوربزرگوں کی کمائی کے لیے بھی مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے بے خودی کی جگہ اگر آپ ’’آمدنی یا کمائی‘‘ رکھ دیں تو بھی چلے گا کیوں کہ یہ سب مشاغل کالانعاموں کے خون پسینے سے نکلتا ہے ۔ حمورابی کا نام آپ نے سنا ہی ہوگا یہ نینوا کا اشوری حکمران اس نے دوہزاردوسو قبل مسیح میں ایک مسودہ قانون بنایا تھا ،اس وجہ سے اسے مقنن بادشاہ بھی کہتے ہیں اوردنیا میں رائج تمام قوانین کی بنیاد کسی نہ کسی طرح حمورابی کا مسودہ قانون، لیکن ان میں دودفعات کو حکومتوں نے اپنے لیے خطرناک جان کراڑادیا ۔ خاص طورپر یہ کہ اگر کوئی کسی پر کوئی مقدمہ دائر کرتا ہے یا دعویٰ کرتا ہے اوروہ اپنادعویٰ ثابت نہ کرسکے تو مقدمہ اسی پرالٹ پڑے گا اورجوسزا اس جرم کی ہوگی وہ اس ناکام مدعی کو ملے گی ۔موجودہ قوانین میں ایک دفعہ پندرہ سو ہے لیکن اس میں بے گناہ مدعی کومقدمہ لڑناپڑتا ہے یعنی ٹائیں ٹائیںفش غلط مقدمے کو بھگتنے والے ہیں، اتنی سکت کہاں ہوتی ہے کہ بھاری خرچے اداکرسکے جب کہ حمورابی کے قوانین میں خود بخود غلط مدعی کو سزا ملتی تھی۔ اب ذرا ان سرکاری وسیاسی مقدمات کو دیکھتے ہیں، دھوئیں کا پہاڑ ایک پھونک اڑجاتا ہے ، اورغلط مقدمے والے کوکچھ بھی نہیں کہا جاتا، چاہے بے گناہ نے حوالات میں برسوں ہی کیوں نہ گزارے ہوں حالانکہ انصاف یہ ہے کہ غلط مقدمات قائم کرنے والوں اورفیصلہ کرنے والوں کامحاسبہ ومواخذہ ہونا چاہیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل