Loading
معزول شامی صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کی قبر کو ان کے آبائی شہر میں نذرآتش کردیا گیا جب کہ اسرائیلی فوج کی شام کے بفرزون میں پیش قدمی جاری ہے، اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کی 80 فی صد بری اور بحری فوجی صلاحیت کو تباہ کردیا گیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ تو مسلسل ظلم و جارحیت کا شکار ہے۔ شام میں اس وقت حکومت نام کی کوئی شئے باقی نہیں رہی ہے، اسرائیل مسلسل بمباری کر کے نہ صرف شام کی فوجی صلاحیت کو ختم کرچکا ہے بلکہ متعدد علاقوں پر قابض ہوچکا ہے، اپوزیشن اتحاد دمشق پر قابض ہے اور اس نے اپنی جاہلانہ کارروائیوں کا آغاز شام کے سابق صدر کی قبر کو جلا کر کیا ہے، دوسرے حصے پر ترکیہ جب کہ باقی ماندہ پر کردوں کا کنٹرول ہے، ایسا لگتا ہے کہ شام آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ کا افغانستان بننے جارہا ہے، جہاں مختلف گروہوں اور وار لارڈز کی حکومت قائم ہوگی۔ اسٹاک مارکیٹس سے لے کر عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں تک سب ہی مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتحال اور فریقین کے اگلے قدم کے حوالے سے پیشگوئی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سب کے بیچ دنیا کی تین بڑی طاقتیں امریکا، چین اور روس اس تنازع کا حل تلاش کرنے میں بدستور ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اس کی واضح وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ علاقہ اپنے دامن میں بے پناہ معدنیات سمیٹے ہوئے ہے، گویا یہ سونے کی چڑیا ہے۔ اس پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ہی استعماری طاقتوں نے یہاں شورشیں برپا کر رکھی ہیں، ان کو خانہ جنگی اور فرقہ واریت کے ناسور میں مبتلا کر رکھا ہے۔ امریکا، روس اور چین جیسے ممالک کے درمیان عدم تعاون اور امریکا کی اندرونی سیاست کچھ ایسے عوامل ہیں جس کے سبب اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے قائل کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔اس جنگ کے دوران اسرائیل اپنے دشمنوں بشمول حزب اللہ، حماس اور ایران کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرتا ہوا نظر آیا ہے۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جہاں غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 44 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ یمن کے حوثی جنگجو بھی غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے بحیرہ احمر میں اسرائیل آنے اور جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں جب کہ جوابی وار کے طور پر امریکا حوثی جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہا ہے۔ دراصل یہ واقعات موجودہ عالمی منظر نامے میں عمل اور رد عمل کے اس خونی کھیل کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں جو اس وقت عالمی طاقتیں کھیل رہی ہیں۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس میں کون مر رہا ہے اور کون جی رہا ہے؟ ان کو بس اپنے مفادات ہی کی تکمیل کرنا ہے۔ دنیا میں جاری تنازعات خصوصاً یوکرین اور روس، اسرائیل اور حماس جنگوں کا سب سے زیادہ فائدہ اسلحہ بنانے والی امریکی کمپنیوں کو ہوا جنھوں نے دنیا بھر میں فروخت ہونے والا 50 فیصد جنگی سامان فروخت کیا۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق دفاعی صنعت کے ماہرین کے خیال میں پوری دنیا میں صرف 10ممالک کی ہتھیاروں کے کاروبار پر اجارہ داری ہے جن میں امریکا سرِفہرست ہے جب کہ باقی ممالک میں چین، روس، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، اسرائیل، جنوبی کوریا اور اسپین شامل ہیں۔ اِن ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کا ہتھیاروں کی عالمی منڈی پر90 فیصد کنٹرول ہے۔ بین الاقوامی تحقیقی ادارے نے انکشاف کیا کہ امریکی کمپنیوں نے 317 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ ہتھیار بنانے والی دنیا کی پہلی 100 کمپنیوں نے 632 ارب ڈالر کا جنگی ساز و سامان فروخت کیا جو کہ 2022 کے مقابلے میں 4.2 فیصد زیادہ ہے تاہم سب سے زیادہ منافع روس اور اسرائیل میں واقع چھوٹی کمپنیوں نے کمایا۔ دراصل ہر سال سامنے آنے والے اعداد و شمار ہتھیاروں کی بھاری عالمی مانگ کی صحیح تصویر پیش نہیں کرتے کیونکہ معاہدے بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں آتے اور خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ دنیا کی 100 بڑی کمپنیوں میں 41 امریکی کمپنیاں ہیں جب کہ اِن میں سے پانچ ایسی ہیں جو 2018 سے ہتھیاروں کی فروخت میں سر ِفہرست رہی ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق جنگی ساز و سامان ماضی کے مقابلے میں اب بہت مہنگا ہو چکا ہے جس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ایک جدید اینٹی ٹینک میزائل (جیولن) کی پاکستانی روپے میں قیمت قریبا پانچ کروڑ روپے بنتی ہے۔ امریکا میں دفاعی ہتھیاروں کی صنعت نجی شعبے کے ہاتھ میں ہے جنھوں نے ہتھیاروں کی ایک لابی بنا رکھی ہے تاہم متعلقہ ماہرین کے خیال میں یہ لابی دراصل امریکی سرکار ہی چلاتی ہے۔ روس،یوکرین جنگ سے جنگی سامان بنانے والی روس کی کمپنیوں کو بھی بھاری فائدہ ہوا جن کی آمدن میں 40 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا جنھوں نے 25 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار فروخت کیے۔ ہتھیار بنانے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں اسرائیل کی تین کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کی غزہ جنگ کے بعد مجموعی فروخت 13 ارب 60کروڑ ڈالر رہی جو کہ تاریخ کی سب سے بڑی فروخت ہے۔ اسلحے کی بڑھتی فروخت کا رحجان جاری رہنے کی توقع ہے کیونکہ غزہ میں جنگ ابھی تک بھڑکی ہوئی ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ ہتھیار بنانے والی اسرائیلی کمپنیوں کو اِس برس پہلے سے بھی کہیں زیادہ جنگی سازو سامان کے آرڈر ملیں گے۔ 1997 میں ایک سازش کے تحت ملائیشیا کی کرنسی رنگٹ کی قدر اچانک گرکر تقریباً آدھی رہ گئی۔ اس پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ تمام اسلامی ممالک کو آپس میں لین دین اور تجارت کے لیے امریکی ڈالر پر انحصار کی بجائے اپنی ایک کرنسی بنانی چاہیے یا سونے کے دینار پر لین دین کو فروغ دینا چاہیے تاکہ عالمی معیشت پر امریکا کے پشت پناہ یہودیوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جا سکے اور انھوں نے 2003 کے وسط تک مجوزہ سونے کا دینار جاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ظاہر ہے سونے کے دینار میں لین دین سے شرح تبادلہ کی ضرورت ختم ہو جائے گی جس پر مغربی ممالک کی معیشت کا انحصار ہے۔ اس لیے مہاتیر محمد کو 2003 میں ہی اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور عبداللہ احمد بداوی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا، جس نے ملکی سطح پر سونے کا دینار جاری ہونے سے روک دیا، لیکن ملائیشیا کی ایک اسٹیٹ کیلانتن نے پھر بھی 20 ستمبر 2006 کو سونے کے دینار جاری کیے جن کا وزن 25ء 4 گرام ہے اور یہ 22قیراط سونے سے بنے ہوئے ہیں۔ صدام حسین نے بھی ایسی ہی جسارت کی تھی۔ 2000 میں انھوں نے یہ کوشش کی تھی کہ عراق کو تیل کا معاوضہ امریکی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں دیا جائے۔ صدام کا یہ مطالبہ امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر براہ راست ایک مضبوط وار تھا۔ صدام کا یہ ناقابل معافی جرم آخرکار انھیں لے ڈوبا۔ لیبیا کے معمر قذافی بھی صدام حسین کی راہ پر چل پڑے اور سال 2009میں افریقہ سے لین دین اور تجارت کے لیے سونے کا دینار نافذ کرنے کا ارادہ کیا اس لیے انھیں بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کاغذی کرنسی ڈالر امریکی حکومت جاری نہیں کرتی بلکہ ایک نجی ادارہ فیڈرل ریزرو (سینٹرل بینک) جو دسمبر 1913 میں وجود میں آیا تھا، جاری کرتا ہے۔ عام طور پر فیڈرل ریزرو کو حکومتی ادارہ سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقتاً یہ ایک نجی ادارہ ہے، جو چند یہودی کرتا دھرتاؤں کی محنتوں کا نتیجہ ہے، جو ڈالر چھاپ چھاپ کر امریکی حکومت کو نہ صرف قرض دیتا ہے بلکہ سود سمیت وصول بھی کرتا ہے۔ اپنی بے تحاشا دولت کے باعث یہودیوں کا یہ ادارہ امریکی حکومت کو کنٹرول کرتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے لگ بھگ سبھی خطوں میں ایسے تنازعات موجود ہیں جن کی چنگاری کسی بھی وقت آگ میں بدل سکتی ہے، مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین، افریقی ممالک ہوں یا مشرقِ وسطیٰ، دنیا کے درجنوں ممالک ایسے ہیں جو تنازعات کا شکار ہیں اور اِن میں سے بعض تو نصف صدی سے بھی زیادہ پرانے ہیں، دنیا کا سب بڑا ادارہ اقوام متحدہ بھی اِن تنازعات کو حل کرانے میں ناکام نظر آتا ہے، دنیا میں آج بھی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون رائج ہے، دنیا پر حکومت کرنے والے چند ممالک کی دلچسپی نہ ہو تو کوئی مسئلہ حل ہو ہی نہیں سکتا، اسرائیل فلسطین جنگ میں بھی سلامتی کونسل کے کردار پر انگلیاں اُٹھی ہیں کہ ویٹو کی طاقت کا استعمال جنگ بندی نہیں بلکہ اِسے جاری رکھنے کے لیے کیا گیا۔ جنگی سامان کی خرید و فروخت اکثر کمزور ممالک کو دنیا کے نقشے سے ہٹانے اور اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے کی جا رہی ہے تو یہ عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اُسے چاہیے کہ وہ اِس معاملے پر غور کرے اور کوئی تو قواعد و ضوابط طے کرنے پر زور دے، اگر عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ دنیا میں امن کے پھول کھلیں تو پھر انھیں اپنے عمل و کردار کا جائزہ لینا ہوگا، اپنی خون آشام پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل