Saturday, December 14, 2024
 

اُردو ادب کی پری، خوشبو کی شاعرہ ’’ پروین شاکر‘‘

 



عہد ساز شاعرہ پروین شاکر پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، مگر آج اُن کی فن و شخصیت کے حوالے سے میں اپنے عصر کے مقبول شاعر اعتبار ساجد کے مضمون کا اقتباس ضروری سمجھتا ہوں کہ ’’ پروین شاکر کو جس قدر میں نے دیکھا اور سنا ہے مجھے وہ ایک لفظ بھی فالتو بولتی نظر نہیں آئی۔ پروین، عبد اللہ ہارون کالج میں میری ایک کزن کی اُستاد تھی۔ جب کبھی کراچی جاتا تو میری کزن پروین شاکر کے بارے میں بتاتی کہ میڈم اسٹاف سے الگ تھلگ کسی گوشے، کسی پیڑ کے نیچے تنہا کتاب خوانی میں مصروف ہوتیں۔ کلاس روم میں روایتی پروفیسرز کی طرح ڈانٹ ڈپٹ، رعب داب روکھے پن سے کام نہیں لیتی تھی۔ فیض احمد فیض بھی عبد اللہ ہارون کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے وہ بھی روایتی پرنسپلوں کی طرح رعب و دبدبہ والے پرنسپل نہ تھے۔ انتہائی مدھم اور ملائم لہجے کے سربراہ ادارہ تھے۔ بہت کم مسکراتے تھے اسی نسبت پروین شاکر پر بھی لاشعوری طور پر غالبا ان ہی کا اثر پڑا تھا، وہ بہت کم مسکراتی تھیں، ہنستی بہت کم تھیں، لباس سادہ مگر اچھا پہنتی تھیں،کام سے کام رکھتی تھیں۔‘‘ پروین شاکر جس قدر کم آمیز اور خاموش طبع شاعرہ تھیں، اُس قدر ہی اُس کے کلام میں جذبوں کی سچائیوں کے ساتھ پیدا ہونے والی لازمی شکست وریخت پر گریہ کے بجائے لطیف طنز کی عملداری بھی شامل تھیں۔ انھوں نے خاص پیچیدہ صورتِ حال کو شاعری بنایا ہے۔ ’’ نسوانی خاکے‘‘ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخِ ادب میں پہلی بار خواتین پر لکھے ہوئے خواتین کے خاکے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جس کو مرتب شاہد حنائی نے کیا ہے۔ اس کتاب میں پروین شاکر کے حوالے سے بھی ایک خاکہ پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں محترمہ سرفراز اقبال انھیں اپنے خاکے کے عنوان میں ’’ دُکھی عورت ‘‘ سے مخاطب کیا گیا ہے۔ جس میں وہ اپنی ملاقاتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ سچ کہلوانے نے اُس گڑیا سی شاعرہ کو زندگی میں ہی تنہا کر دیا تھا، وہ تمام عمر محبت اور انا کی جنگ لڑتی رہی۔ نہ جانے وہ کسی ایک جذبے کو بھی پا سکی یا نہیں۔ کئی لوگوں کی خوش بختی اور بدنصیبی قدم قدم ساتھ چلتی ہے۔ بس پروین شاکر کا یہی مقدر تھا ۔‘‘ کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدِ گرامی سید ثاقب حسین خود بھی بہت کمال کے شاعر تھے اور ’’شاکر‘‘ تخلص کرتے تھے، اسی نسبت پروین شاکر بھی اپنے نام کے ساتھ ’’شاکر‘‘ تخلص لکھتی تھیں۔ انھوں نے پندرہ برس کی عمر میں شاعری لکھنا شروع کی۔ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’خوشبو‘‘جب شائع ہوا تو اسے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ اس حوالے سے اعتبار ساجد بتاتے ہیں کہ ’’ یہ 80 کی دہائی کا واقعہ ہے جب پروین کی پہلی کتاب ’’خوشبو‘‘ آئی تو اُس وقت میرا دوسرا شعری مجموعہ ’’آمد‘‘ منظرِ عام پر آیا تب پروین سے پہلے بہت سے شعراء اور ادباء اور نقادوں کی میرے بارے میں لکھی ہوئی سطریں پڑھی تو مسکرا کر کتاب کے صفحات اُلٹے پلٹے پھر ایک فقرہ کہا ’’ایسی شاعری کو اتنی آراء بیساکھیوں کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ پروین شاکر بے حد نرم دل خاتون تھیں۔ ان کے اندر ہمدردی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے، ان کی شاعری میں جہاں محبت، عورت اور اقدار کا گراں قدر احساس موجود ہے وہاں ان کی شاعری میں دُکھ اور حزن کی کیفیت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ جب کہ ماں کے جذبات، شوہر سے ناچاکی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے اپنی شاعری میں قلم بند کیا ہے۔ اس لیے ان کی پوری شاعری ان کے جذبات اور دردِ کائنات کے احساسات کا اظہار لیے ہوئے ہیں۔ سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا پروین شاکر کو جھوٹ سے نفرت تھی، اسی لیے وہ زندگی بھر اپنے اشعار میں سچی بات کو صاف گوئی سے پیش کرتی رہی۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’خوشبو‘‘ (1976)، ’’صدِبرگ‘‘ (1980)،  ’’خود کلامی‘‘ اور ’’انکار‘‘ یہ دونوں کتابیں (1990) میں منظرِ عام پر آئی۔ اس کے بعد ’’ماہِ تمام‘‘ (1994) میں شایع ہوئی۔ ان تمام مجموعوں میں جتنی اچھی غزلیں کہیں اتنی ہی اچھی ان کی آزاد نظمیں بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی لیے خوبصورت الفاظ کا استعمال ان کے کلام کا وصف رہا ہے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری کے بھی جوہر دکھائے مگر انھیں کالم نگاری سے زیادہ شاعری میں بہت دلچسپی تھیں۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا کھل کر اعتراف اُس دور کے بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں نے بھی کیا جن میں احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، جمیل الدین عالی اور علی سردار جعفری وغیرہ شامل ہیں۔ پروین شاکر نے پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان پر میزبان کی حیثیت سے پہلی بار جلوہ گر ہوئیں۔ انھیں پانچ بڑے ادبی انعامات و اعزازت سے بھی نوازا گیا جن میں خوشبو 1978کے لیے میں آدم جی ایوارڈ جو پاکستان میں ایک قومی سطح کا اعزاز ہے، 1985 میں علامہ اقبال ایوارڈ، 1986 میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ اور فیض احمد فیض ایوارڈ کے علاوہ انھیں بہت قلیل متاعِ حیات میں وہ کارنامے سرانجام دیے جن کی بدولت ان کو پرائیڈ آف پرفارمنس کے ساتھ ساتھ ’’خوشبو کی شاعرہ‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ یہاں مجھے ان کی مشہورِ زمانہ غزل کا مطلع یاد آر ہا ہے کہ: کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی اسی غزل کا تیسرا شعر دیکھیے کہ: وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی محبت کی خوشبو کو شعروں میں سمو کر بیان کرنے والی منفرد لبوں لہجے کی یہ شاعرہ 26 دسمبر1994 کو اسلام آباد اپنے آفس جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا دیں گے لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے پروین شاکر کی وفات کے بعد ان کا ایک مجموعہ ’’ کفِ آئینہ‘‘ ان کی ہمشیرہ نسرین شاکر نے شایع کروایا۔ جنھیں ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ محترمہ نسرین شاکر بتاتی ہے کہ ’’ اس مجموعہ کا نام وہ اپنی زندگی میں خود ہی تجویز کر چکی تھیں اور مکمل بھی۔ مزید یہ بھی کہا کہ ہم ہر سال اُن کی برسی پر اُن کی یاد میں ’’پروین شاکر‘‘ ایوارڈ کی تقریب بھی منعقد کرواتے ہیں۔‘‘ آخر میں جاتے جاتے پروین شاکر کو خراجِ تحسین کے طور پر اپنی نظم کے اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ وہ پروین شاکر تھیں رب کی رضا پر ہمیشہ تھا جس کا بھروسہ خدا پر کھلاتی رہیں غنچے شعر و ادب کے بچھاتی رہیں خوشبوئیں جو صبا پر بہت خوبصورت تھیں لہجے کی مالک زمانہ تھا نازاں غزل کی ادا پر بہاروں میں خوشبو لُٹانے کو آئیں انھوں نے کئی گیت لکھے ہوا پر وہ اُردو ادب کی پری بن کے اُتری ستارے چمکتے تھے جس کی ردا پر انھوں نے شکایت نہیں کی کسی سے بھروسہ تھا جس کو ہر اک کی وفا پرأ

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل