Saturday, December 14, 2024
 

طاقت کے نشہ پر مبنی حکمرانی کا نظام

 



جب ریاستی یا حکومتی نظام صرف اشرافیہ کے مفادات کو سپورٹ کرتا ہے تو ایسا نظام مسائل کا شکار رہتا ہے اور اس کی ساکھ اور صلاحیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہتے ہیں ۔ ایسا نظام معاشرے میں نہ صرف خلیج پیدا کرتا ہے شہریوں کے باہمی تعلقات کو کمزور کرکے ان میں ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی کا رشتہ بھی قائم کرتا ہے۔ کچھ اسی طرح کا بحران ہمیں اپنے حکمرانی کے نظام میں نظر آرہا ہے۔ یہ خرابیاں کسی ایک حکومت تک محدود نہیں بلکہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں نے اس نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش نہیں کی، اسی لیے ہمارا نظام عوامی مفادات کے برعکس اشرافیہ کے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ کسی نے بھی اس ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کو بنیاد بنا کر جمہوریت کی مضبوطی کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں بنایا ۔ اس میں جہاں ریاستی اداروں کا کردار ہے، وہیں حکمران سیاسی جماعتیں بھی اس میں برابرکی شریک ہیں۔یہ ہی وجہ ہے ہم بطور ریاست اور معاشرہ جمہوری عمل سے مسلسل دوری کا شکار ہیں اور یہاں جمہوریت کو محض سیاسی نعرے کی بنیاد پر بطور ڈھال یا سیاسی ہتھیار کے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طاقت ور طبقات چاہے ان کا تعلق ریاستی عہدوں کی طاقت کی حامل اشرافیہ ہو ، سیاسی اشرافیہ ہو یا کاروباری اشرافیہ تکبر، غرور، تعصب ،نفرت، بغض اور ذاتیات کے کھیل کو ترک نہیں کرتی ہے۔ سیاسی اور جمہوری معاملات ہوں یا قانون یا آئین سے جڑے سوالات سب کو ہم نے طاقت کی بنیاد پر حل کرنے کو ہی اپنی حکمت عملی کا حصہ بنالیا ہے ۔سیاسی اور جمہوری نظام کی کامیابی کی بڑی کنجی قانون کی حکمرانی اور اداروں کے اختیارات میں توازن سے جڑی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں طاقت کی حکمرانی نے ان تمام اصولوں پر برتری حاصل کرلی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے ہم ملک میں قانون کی حکمرانی کے بجائے طاقت ور افراد کی حکمرانی کا منظرنامہ دیکھ رہے ہیں ۔ عوام کی حیثیت اس طاقت پر مبنی حکمرانی کے نظام کے سامنے بے بسی کی تصویر کی مانند ہے جو کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس طاقت کی حکمرانی نے پورے انتظامی ڈھانچوں کو بھی یکسر تبدیل کردیا ہے جہاں من پسند افراد کی مدد سے اس سارے انتظامی نظام کو اپنے ذاتی ،گروہی اور مالی مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔جو حالات اس وقت ہیں، یہ ریاستی نظام کی کمزوریوں کے کئی پہلووں کو نمایاں کرتے ہیں ۔ اس لیے طاقت کی حکمرانی کے کھیل میں جو کچھ اس ملک میں ہوتا چلا آرہا ہے، اس سے اس ملک کے طاقت ور طبقات کو لگتا ہے کہ کچھ فرق نہیں پڑرہا ۔ جو لوگ بھی سنجیدگی یا دیانت داری سے ریاستی و حکومتی نظام میں موجود خرابیوں یا طرزعمل کی نشاندہی کررہے ہیں، انھیں معاشرے میں مایوسی پھیلانے والے افراد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ملک میں متباد ل آواز اٹھانے والوں کو جب خود ہم شک کی نگاہ سے دیکھیں گے تو پھر جمہوریت یا اصلاح کا پہلو بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔مسئلہ یہ نہیں کہ متبادل آوازوں کی حثیت نہیں ہے ، مسلہ یہ ہے کہ ان کی آرا کو ریاستی پالیسی میں جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ پاکستان میں ایک گروہ وہ ہے جس نے ریاست کے خلاف بندوق اٹھائی ہوئی ہے، یہ متشدد گروہ بھی جمہورکی رائے کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرکے وسائل کی من پسند بندر بانٹ کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ جو طبقات قانونی اور آئینی فریم ورک میں رہ کر جدوجہد کرنا چاہتے ہیں،جمہوری نظام کو اس کی روح کے مطابق چلانے کے دعویدار ہیں، ملک کی سیاستی قیادت انھیں اپنی اپنی پارٹیوں میں آگے نہیں آنے دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا حکمرانی کا مجموعی نظام فرسودہ خیالات ، سوچ اور فکر کی بنیاد پر کھڑا ہے ۔ اشرافیہ سمجھتی ہے کہ عوام کو مسلسل الو بنایا جاسکتا ہے۔ اسی سوچ کی بنیاد پر ملک میںانتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات جنم لیتے ہیں۔ عام لوگوں کو ریاست، جمہوریت اور حکومت پر اعتماد نہیں ہے ۔ جب ریاستی یا حکومتی نظام میں اشرافیہ کے مفادات کو مقدم رکھ کر آگے بڑھا جائے گا تو اس کا نتیجہ محض اوپر کی سطح تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اوپر سے لے کر نچلی سطح تک طاقت کی حکمرانی کے نام پر بڑے ،درمیانے اور چھوٹے درجہ کے مافیاز پیدا ہوتے ہیں اور یہ مافیاز پھر باہمی گٹھ جوڑ کی بنیاد پر پہلے خود کو منظم کرتے ہیں اور پھر ریاست اور حکومت کے نظام میں اپنی جڑوں کو گہرا کرکے یا تو خود اس پر قبضہ کرتے ہیں یا ان کی فیصلہ سازی پر اپنے حق میں براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ ریاستی یا حکومتی نظام جب خود کو طاقت ور طبقات کے ساتھ جوڑ لیتا ہے یا خود ان کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر ایسے نظام کی ساکھ تواتر کے ساتھ اپنی اہمیت اور ساکھ کو کھودیتی ہے ۔ طبقاتی نظام حکومت ایک مخصوص طاقت ور طبقات کی ترجمانی کرتا ہے اور ایسے نظام میں عام آدمی یا کمزور طبقات کو ریاست اور حکومت کی جانب سے مختلف نوعیت کی سیاسی ،سماجی یا معاشی یا قانونی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کیونکہ جب عوام کی سوچ اور طاقت ور طبقات کی سوچ میں فرق آجائے یا اس میں تضاد یا ٹکراو کا پہلو نمایاں ہو تو پھر لوگوں میں بغاوت یا لاتعلقی کی سیاست جنم لیتی ہے ۔ طاقت کی حکمرانی کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں جمہوری عمل نہیںہوتا بلکہ اس اقتدار کے کھیل کی مجموعی کہانی سیاسی سازشوں ، حکومتوں کو گرانے ، بنانے ، مصنوعی قیادت یا جماعتیں پیدا کرنا یا عوامی حمایت سے محروم حکومتوں کی تشکیل کرنا، انتہاپسند گروہ کو سپورٹ کرنا، حکمران طبقات کو احتساب سے الگ کرنا ہوتی ہے۔ طاقت ور طبقات کو جمہوریت اتنی دیر تک ہی پسند ہوتی جب تک وہ ان کے مفادات کو پورا کرتی ہے، جب عوام کی اقتدار میں شراکت داری کی بات ہوتی ہے تو طاقت ور طبقات اپنے اختلافات بھلا کر عوام کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ اگر اس کو پورے ریاستی سیاسی و جمہوری نظام یا آئینی و قانونی نظام کو بھی بگاڑنا پڑے تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ یہ ہی سمجھتا ہے کہ وہ طاقت ور ہے اور ریاستی یا قانونی ادارے ان کی سیاسی گرفت میں ہیں اور ان اداروں کے سامنے آئینی یا قانونی جنگ سے زیادہ حکومتی طبقہ کے مفادات عزیز ہوتے ہیں ۔ اس لیے جو لوگ بھی پاکستان کے ریاستی یا سیاسی بحران کو سمجھنا چاہتے ہیں یا اس کے نتیجہ میں معاشی اور سیکیورٹی کے چیلنجز کو بھی سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں تو وہ طاقت کی حکمرانی یا اس کے سیاسی نشہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بہت اچھا کرنے کے تمام دعووں کے باوجود ہم کچھ اچھا نہیں کرسکے ہیں۔ ہماری ضرورت مضبوط سیاسی و سماجی و معاشی نظام ہے اور اس نظام کی اصل طاقت ملک میں موجود پہلے سے طاقت ور طبقات نہیں بلکہ معاشرے میں موجود کمزور محروم طبقات کی حکمرانی یا ان کے مفادات کی برتری سے جڑا ہوا ہے اور یہ ہی عمل اس ریاست کی ساکھ کو عوامی سطح پر بحال بھی کرسکتا ہے ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل