Sunday, December 15, 2024
 

شام کی طرف جانے والے راستے

 



    دو معاملے ہیں جن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایک ہے شام کا انقلاب جس نے 54 برس پرانے فرعونی نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ دوسرا معاملہ مدارس کی رجسٹریشن کا ہے جس پر مولانا فضل الرحمان بہت خفا ہیں۔ معاملات دونوں اہم ہیں اور ان کا ہماری زندگی کے ساتھ تعلق بہت گہرا ہے۔ شام میں اسد خاندان کے پانچ دہائیوں پر پھیلے ہوئے ظالمانہ تسلط کے خاتمے سے ایک تو یہ ہوا کہ شام کی اکثریتی آبادی کو پہلی بار سکھ کا سانس لینے کا موقع مل گیاجو ظاہر ہے کہ مشرق وسطی ٰمیں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ شام میں جو تبدیلی انگڑائی لے کر اٹھی ہے، اس کے اثرات صرف اسی سر زمین تک رکنے والے نہیں۔ اس کی لہریں اپنے ارد گرد کو متاثر کرتے ہوئے پاکستان بلکہ بلوچستان تک پہنچ سکتی ہیں۔ یوں اس صوبے کی کیفیات میں ایک نئی کیفیت کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ مدرسوں کی رجسٹریشن کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں، اس کے اثرات کا تعلق بھی سماج کی شکست و ریخت سے ہے۔ ہمیں اپنے منتشر معاشرے کو منظم کر کے ترقی کے راستے پر چلانا ہے تو دینی مدارس کے نظام کو شفاف طریقے سے کمزوریوں سے پاک کرنا ہے۔ اس لیے اگر یہ دونوں موضوعات اگر الگ الگ بھی ہیں تو یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لہٰذا اس جائزے میں یہ دونوں موضوعات ایک ساتھ زیر بحث آئیں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔     دمشق کے گلیوں اور بازاروں کے مناظر انسانی ذہن کو حیران کر دینے والے ہیں۔ ہمارے عہد میں مصر، لیبیا اور عراق جیسے ملکوں میں آمریت کے بدترین ادوار گزرے ہیں جن میں میں انسانیت کو سسک سسک کر جینے کی اجازت بھی نہیں تھی لیکن شام کی جیلوں سے رہا ہونے والے قیدیوں کی ذہنی اور جذباتی کیفیت ذہن کو جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ زندگی کے تیس چالیس اور پچاس برس قید خانے کی اندھی غاروں میں گزار دینے والے انسانوں پر اس عرصے میں جو قیامت بیتی ہے، اس کا ایک منظر قبرستان میں اپنے کسی پیارے کی قبر کے کتبے سے 'یا حبیبی' کہہ لپٹ کر رونے والے شخص کی کیفیت دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے۔      حیرت ہوتی ہے کہ فرعون اور نمرود جیسے جابروں کے عبرت ناک انجام کے بعد بھی آمرانہ رجحانات رکھنے والے طاقت ور سبق نہیں سیکھتے اور انسانیت پر ظلم کرنے اور اس کی توہین کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرلیتے ہیں۔ ہم اہل پاکستان کو ان واقعات سے خاص طور پر عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ سبب یہ ہے کہ خالص جمہوری عمل کی برکت سے وجود میں آنے والے ملک میں آج بھی ایسے طبقات موجود ہیں جو صدام، قذافی اور بشار الاسد جیسے طرز عمل کو پسند کرتے ہیں۔     پاکستان اس وقت 2018 کی تبدیلی کے جوہڑ میں ڈوب ابھر رہا ہے۔ یہ تبدیلی کیا تھی؟ اس کی حقیقت کو کوئی سمجھ سکے تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آخری پناہ گاہ کے طور پر وجود میں آنے والے پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی اس کے قیام کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی شروع کر دی گئی تھی۔ اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہوتے ہمارے بعض طاقت ور طبقات اس نتیجے  پر پہنچ چکے تھے کہ آئین کی حکمرانی مذاق ہے اور جمہوریت ایک عیاشی۔ پاکستان کے مسائل کا حل  مصر، عراق اور لیبیا جیسے نظام میں ہے نیز ایک ایسا فرد درکار ہے جو سادہ لوح ہو، سیاست کی پیچیدگیوں سے جس کا دل گھبراتا ہو اور اسے جو کہہ دیا جائے، وہ اسے بجا لانے پر یقین رکھتا ہو۔ ہمارے یہاں 2018 میں جو واقعہ رونما ہوا، اس کے پس پشت یہی منصوبہ کار فرما تھا۔ ہماری ' فلاح و بہبود ' کے لیے سر تا پا فکر مند رہنے والوں کو بالآخر ایک ایسا ' مرد کامل' عمران خان کی صورت میں میسر آ گیا۔ یہ مرد کامل کئی معیارات پر پورا اترتا تھا لیکن کچھ پہلوں سے وہ ذرا مختلف بھی تھا۔ مشرق وسطیٰ کے جس ماڈل کو یہاں دہرانے کی خواہش تھی، وہ  بھی اس ماڈل پر نہ صرف یقین رکھتا تھا بلکہ  اس ضمن میں کچھ مزید ' بہتر ' کرنے کا بھی خواہش مند تھا لیکن اس بیچ میں کچھ ایسا ہوا جس نے بنا بنایا منصوبہ تباہ کر دیا۔ پہلی اور بڑی خرابی تو یہی تھی کہ دائمی حکمرانی کا یہ خواہش مند کچھ کر کے دینے کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ ایسا کرنے کی ذرا سی خواہش بھی اس میں پائی جاتی تھی۔ ہاں اگر وہ کسی کام میں دلچسپی رکھتا تھا تو کام تھا جیل خانوں کو آباد رکھنا اور جیلیں آباد کرنے والوں کو اس انجام سے دو چار کرنا چاہتا تھا جس کے مناظر ہمیں شام کی صید نایا جیل سے چھوٹنے والے گرتے پڑتے بوڑھوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ عین ممکن تھا کہ پاکستان کو شام اور عراق بنانے کی اس خواہش کو نہ صرف برادشت کر لیا جاتا بلکہ اس کی دائمی حکمرانی کو بھی برداشت کر لیا جاتا جس کے لیے ابتدائی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھی تیار کر لی گئی تھیں لیکن مشکل یہ آ پڑی کہ اس کے عہد میں اچھا بھلا چلتا ہوا نظام بھی زمیں بوس ہو گیا اور آنے والے دنوں میں نہ صرف یہ کہ معیشت کی مزید ابتری کے آثار پیدا ہو گئے بلکہ دفاع اور دفاعی اثاثوں کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا۔ یوں سمجھ میں آیا کہ آئین اور جمہوریت کا راستہ ہی درست تھا۔ یہ بھی سمجھ میں آیا کہ یہ جو کسی موہوم بہتری کی خواہش میں بار بار مداخلت کی جاتی ہے، اصل تباہی اسی سبب سے آئی۔ یہ ہماری تاریخ کا پہلا مثبت یو ٹرن تھا جس پر قوم کے سنجیدہ طبقات نے اطمینان کا سانس لیا۔      یہ تو ہو گیا لیکن ' تبدیلی پروجیکٹ ' کے زیر سایہ جس شخص کی خواہشات کا تاج محل تعمیر ہوا تھا، نہ وہ حقائق کو سمجھ سکا اور نہ اس پائیڈ پائپر کے پیچھے چلنے والی مخلوق کی آنکھیں کھل سکیں۔ ویسے یہ حقیقت ہے بھی قابل فہم کہ پروجیکٹوں کے زیر سایہ جنم لینے والے بچے ہول ناک تجربات سے گزرنے کے بعد ہی کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ یہ تو ہوئی بنیادی حقیقت لیکن تازہ حقیقت  مہم جوئی کے وہ سلسلے ہیں جنھیں علی امین گنڈاپور محمود غزنوی جیسے حملوں کا نام دے کر کسی فتح کی نوید سناتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ اب وہ مسلح ہو کر آئیں گے۔ ممکن ہے کہ خود اس ' لشکر ' کے کچھ سمجھ دار لوگ علی امین کا ہاتھ روکنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس شخص کیا ہو گا جو اقتدار کی منھ زور خواہش کے زیر اثر کبھی آخری کال دیتا ہے۔ کبھی آخری چال چلتا ہے ، کبھی سول نافرمانی پر اتر آتا ہے اور کبھی مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا کر یو ٹرن لے لیتا ہے۔ سیاسی عمل سیاسی طریقے سے ہوتا ہے، مسلح یلغار کے ذریعے نہیں ہوتا۔ یہ شخص اقتدار میں تھا تو بشار الاسد کی طرح سب کچھ تہہ وبالا کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد اس نے مسلح لشکروں والے طور طریقے اختیار کر لیے ہیں تاکہ ریاست کا نظام درہم برہم کر دیا جائے۔ اس نازک مرحلے پر اس شخص کو سمجھانے کی کسی ہمت ہے تو وہ اسے سمجھائے کہ یہ طور طریقے تباہی کی طرف جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے پیرو کاروں کو بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جن راستوں پر تمھیں گامزن کر دیا گیا ہے، وہ سارے کے سارے شام کی طرف جاتے ہیں۔      رہ گیا مدرسوں کی رجسٹریشن کا معاملہ، پاکستان کے 18 ہزار مدرسوں نے رجسٹریشن کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہی دانش مندی کا راستہ ہے۔ دینی تعلیم کے مدارس کو وزارت صنعت و تجارت کے تحت سوسائٹی ایکٹ کے تحت لانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ان کے ذرائع آمدن نامعلوم رہیں کیوں کہ اس قانون کے تحت وہ انٹرنیشنل این جی اوز جیسے نظم میں چلے جاتے ہیں جن کے ذرائع آمدن کا آڈٹ مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستانی سوسائٹی کو جنگ جدل سے محفوظ بنانے اور منظم کرنے کا راستہ ریاست کو تسلیم کرنے سے نکلتا ہے، خودسری اس کے لیے نامناسب ہے۔ بہتر یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن 18 ہزار مدارس کا اختیار کردہ راستہ اختیار کر لیں تاکہ ہم اندھیرے راستوں میں بھٹکنے کے بجائے روشن شاہراہ پر گامزن ہو سکیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل