Thursday, March 20, 2025
 

ترقی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بے چارہ انسان

 



کولمبس کی براعظم امریکا کی دریافت نے انسانی دور کی ایک نئی سمت اور جہد کا آغاز کیا۔ اگر ہم بغور انسانی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ امریکا کی آمد کے بعد ہی ارضیاتی و عالمی تبدیلیوں کے نہ ختم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بین الاقوامی تجارت کا سنہرا دور بھی امریکا ہی کے مرہون منت شروع ہوا اور اسی تجارت کے سبب انسان، جانور، مشینیں اور پودوں کی مختلف نسلیں دنیا کے مختلف ممالک میں منتقل ہونا شروع ہوگئیں۔ اور یہیں سے اس سیارے یعنی زمین کی نئی سمت کا ارتقا شروع ہوا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے امتزاج نے شعور و فکر کی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کیں اور پھر زمین کے اس مکین نے ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کی منازل بہت سبک رفتاری سے طے کرنا شروع کردیں، نتیجتاً انسان ہر گزرتے لمحے بہت مضبوط اور طاقتور ہونے لگا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ انسانی معاشرے کی ترقی ہمیشہ مرحلہ وار ہوتی ہے اور جب بھی کوئی انسان یا معاشرے کے افراد کسی چیز کے حصول میں جلد بازی کرتے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ ناکامی ہمیشہ ان کا مقدر ہوتی ہے۔ ویسے ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ انسانی معاشرہ جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کررہا تھا دنیا سے ناانصافی، نفرت، خونریزی اور جنگوں کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس انسان ایک ایسی دنیا قائم نہ کرسکا جہاں کے مکین خوشی اور مسرت سے زندگی گزار سکیں۔ زرعی عہد سے صنعتی عہد تک کا فاصلہ انسان نے صدیوں میں طے کیا اور صنعتی انقلاب کی وجہ سے انسانی زندگی میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں سلطنت برطانیہ نے انسانوں اور جانوروں کی مشقت سے چلنے والی معیشت کو مشینوں پر شفٹ کیا۔ 18 ویں صدی میں شروع ہونے والے اس انقلاب نے 19ویں صدی کے اوائل تک تقریباً دنیا کے کافی ممالک میں اپنے پاؤں جما دیے اور نئی ایجادات نے انسانی طرز زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ آج ہم جسے مغربی تہذیب کہتے ہیں وہ حقیقت میں صنعتی تہذیب ہی ہے اور اس تہذیب کی بدولت آج دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے سیاسی اور معاشرتی نظام کو اس کے سرنگوں کرچکے ہیں۔ دنیا کی ہر حکومت آج اسی تہذیب کی وجہ سے اس آفاقی معیشت کے کنٹرول میں ہے۔ ہماری دنیا اس وقت اکیسویں صدی میں چل رہی ہے، جو کہ بیسویں صدی ہی کی توسیع ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدیوں نے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ انیسویں صدی میں اسٹیم انجن کی ایجاد نے صنعت کاری کی کایا ہی پلٹ دی۔ آپ اندازہ کیجیے کہ امریکا کی شمالی ریاستوں نے اپنی سول وار صرف اس لیے جیتی کیونکہ ان ریاستوں کے پاس لوکوموٹو موجود تھے، جس کی وجہ سے فوجوں اور ہتھیاروں کی ترسیل بروقت ممکن ہوئی جبکہ جنوبی ریاستیں اس وقت بھی گھوڑوں اور خچروں پر انحصار کر رہی تھیں۔ بیسویں صدی میں ہوائی جہاز کی ایجاد ممکن ہوئی اور ہوائی جہاز بالآخر مواصلات کا بہترین ذریعہ بنا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ انسان کی بیشتر ترقی کا راز ایک اچھے مواصلاتی نظام میں ہی پنہاں ہے۔ اسی صدی میں نیوکلیئر پاور کی ایجاد ہوئی اور ایٹم بم کا پہلا اور شاید آخری استعمال بھی اسی صدی میں ہوا۔ جو ترقی اس کرۂ ارض پر انیسویں اور اکیسویں صدی میں ہوئی اس کا تسلسل ہمیں اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ کی شکل میں نظر آرہا ہے، جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی اہمیت ختم ہورہی ہے۔ اکیسویں صدی میں انسان سے زیادہ آلات کی اہمیت بڑھ جائے گی اور انسانوں کی جگہ مشینیں کام کر رہی ہوں گی۔ حقیقتاً اکیسویں صدی بے رحم مقابلے کی صدی ہے، جہاں صرف غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد ہی کامیاب ہوں گے۔ جو تبدیلیاں پہلے برسوں میں آتی تھیں، اب مہینوں اور دنوں میں آرہی ہیں۔ انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے جو کہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہیں، اور کیا ہماری ریاست ایک ایسا مضبوط نظام بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے جس پر ترقی کی ایک اچھی عمارت تعمیر کی جاسکے؟ پاکستان ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان نوجوانوں کو بہتر تعلیم و تربیت دے کر انہیں ملک کی ترقی کا انجن بناسکتے ہیں۔ اور اگر ہم نے نوجوانوں کی اس کثیر تعداد کو معاشرے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تو ممکن ہے یہ بچے مشقت کی چکی چلائیں یا پھر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں۔ اے آئی ٹولز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اسمارٹ ہوتے جارہے ہیں۔ جیفری ہنٹن جو کہ اے آئی کے گاڈ فادر کہلاتے ہیں، ان کے مطابق اس وقت زیادہ تر کاروباری ادارے ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح اے آئی ٹیکنالوجی کو اپنے حق میں استعمال کریں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ مستقبل میں اے آئی انسانوں کی متبادل ہوسکتی ہے۔ 75 سالہ جیفری ہنٹن نے گوگل سے مستعفی ہونے کے بعد نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اے آئی چیٹ بوٹس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ذہین ہورہے ہیں اور اس خدشے کا بھی ذکر کیا کہ آنے والے کچھ وقت میں وہ ہم سے زیادہ ذہین ہوجائیں گے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت (AI) آنے والے وقتوں میں انسانی ملازمتوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہڑپ کرجائے گی۔ آئی بی ایم جیسی بڑی کمپنیوں نے اپنے ہزاروں ملازموں کو فارغ کرنے کا اعلان کردیا ہے اور اب وہ یہ کام اے آئی کی مدد سے لیں گے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ماہرین کے مطابق دنیا اس وقت اے آئی ٹولز کے پہلے مرحلے سے گزر رہی ہے جس کے اثرات اور فوائد انسانوں تک منتقل ہورہے ہیں، لیکن انہی ماہرین کے مطابق آنے والا وقت اے آئی کی وجہ سے دنیا کو بدل کر رکھ دے گا، جہاں انسانوں کی جگہ مشینیں لے لیں گی۔ آپ صرف سوچیں کہ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ اے آئی کی وجہ سے روزگار کے ذریعے کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ شاید دنیا اے آئی کی وجہ سے ترقی تو بہت کرجائے لیکن انسانی وجود کی قیمت پر۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل