Sunday, June 16, 2024
 

ففتھ جنریشن وار؛ نوجوان کیا کریں؟

 



تاریخ انسانی اس بات پر شاہد ہے کہ جس قدر نقصان انسان نے انسان کو پہنچایا ہے شاید ہی کسی دوسری چیز نے پہنچایا ہو۔ تبھی بعض اوقات تاریخ انسانی کے سیاہ صفحات سے گرد اڑاتے ہوئے بے ساختہ زبان پر یہ جملہ نازل ہوتا کہ ’’مجھے درندوں سے نہیں اب انساں سے ڈر لگتا ہے‘‘۔

انسان سے بھی پہلے جو سب سے طاقت ور چیز ہے وہ فطرت ہے۔ اگرچہ بہت سے ادوار میں فطرت نے بھی انسانیت کو آزمائش کی گہری کھائیوں میں دھکیلا ہے۔ کبھی زمین کا لرز جانا، کبھی فلک کا برس پڑنا، مگر پھر بھی اس حوالے سے فطرت کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ غرض آسمانی آفتوں سے بھی بڑھ کر انسان ہی وہ واحد ہستی ہے جو انسانیت کی دشمن رہی ہے۔

انسانی تاریخ کی پہلی جنگ ایک عورت کی خاطر لڑی گئی، اس دن سے لے کر آج تک جنگیں جاری ہیں، اگر ہم انہیں شمار کرنا چاہیں تو یہ ہمارے لیے ممکن نہیں، مگر آج ان جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔

اکیسویں صدی میں جب علم کے مختلف شعبوں پر کام ہوا تو اس دوران جنگوں کی تقسیم بھی زیر غور آئی۔ جنگوں کی یہ تقسیم ’’وار فیئر ماڈل‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس اصطلاح کو سب سے پہلے 1648 میں استعمال کیا گیا۔ امن کے پہلے معاہدے Treaty of Westphalia کے بعد اس کی ابتدا ہوئی۔ یہ معاہدہ 30 سالہ جنگی ماحول کے بعد ہوا تھا۔ یہ جنگ جرمنی اور دیگر ممالک کے درمیان تھی۔ اس جنگ کی بنیاد مذہب کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ جنگ فرسٹ جنریشن وار کہلاتی ہے، جس میں 80 لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔

عصر حاضر کا جو طریقہ جنگ ہے اسے ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ جنگ ان کوششوں کے مجموعے کا نام ہے جن کے ذریعے ایک قوم دوسری قوم پر غلبہ حاصل کرتی ہے، اسے متاثر کرتی ہے تاکہ اسے اپنی مطلوبہ شکل میں ڈھالا جاسکے۔

تحقیقات کے مطابق ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ وطن عزیز پاکستان میں ابھی اپنے ابتدائی مراحل طے کررہی ہے۔ جنگ کی اس قسم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایسی فضا قائم ہوتی ہے جس میں ہر چیز دھندلا جاتی ہے، ہر طرف شکوک و شبہات اور ابہامات کا بسیرا ہوتا ہے۔ کوئی تحریر ہے تو وہ تسکین کے بجائے تشکیک میں مبتلا کردیتی ہے، کوئی تحقیق ہے تو وہ فتنہ برپا کردیتی ہے۔ پھر سوشل میڈیا اس جنگ کا ایک اہم اور بہترین ہتھیار ہے، جسے کوئی بھی انسان کسی بھی طرح استعمال کرسکتا ہے۔ ترکی، ملائیشیا، ایران اور چین کی طرح اس کی کوئی حد بندی نہیں۔ جس میں طرح طرح کی وڈیوز، تصاویر، پوسٹس، اسٹیٹس اور تحاریر وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو بہکایا جاتا ہے، نتیجتاً قوم کی حیثیت اور مقام داؤ پر لگ جاتا ہے۔

اس جنگ کے منڈلاتے سیاہ بادلوں میں جب یکایک ہماری نگاہ نوجوان کے کردار کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو اس کے کردار کی چکاچوند روشنی کچھ پردوں میں ڈھکی دکھائی دیتی ہے۔ نوجوان تو قوم و ملت کا وہ ستون ہے جس نے ایسے حالات اور جنگی ماحول میں ڈگمگانا نہیں ہے، کیوں کہ پوری قوم و ملت اسی کے سہارے کھڑی ہے۔ کسی نے لکھا کہ ’’طاقتوں، صلاحیتوں، حوصلوں، امنگوں، جفاکشی، بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے‘‘۔ اس لیے نوجوان کو سب سے پہلے خود کو پہچاننے کی ضرورت ہے، مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

کہی سنی باتیں ان کےلیے ہوتی ہیں جن کے پاس اپنی صلاحیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایک نوجوان کےلیے، جو باصلاحیت، جرأت مند، بلند ہمت اور بلند حوصلہ ہو وہ سنی سنائی باتوں کے بجائے تحقیق کو ترجیح دیتا ہے۔

جنگ کے اس ماحول میں نوجوان کا اپنی حکمت و فراست سے کام لینا بھی ازحد ضروری ہے، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ کون سے ایسے عوامل اور امور ہیں جو ہمارے لیے، ہماری قوم کےلیے مفید ہیں تاکہ انہیں اپنایا جائے۔ اور کون سی ایسی چیزی ہیں جو محض بناوٹی اور جعلی ہیں تاکہ ان کی نشان دہی کرکے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور قوم میں شعور اجاگر کیا جائے۔

دور حاضر کے نوجوان کو جس جنگ کا سامنا ہے وہ معلومات کی جنگ ہے، جس میں پروپیگنڈا اور جھوٹی خبریں مسلسل زیر گردش رہتی ہیں، تاکہ نوجوان اور ان کی قوم حقیقت تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ اس دوران جب ان معلومات کو جذبات کا تڑکا لگایا جاتا ہے تو نوجوانوں کی صلاحیت اس کی بھینٹ چڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ جنگ میڈیا کی جنگ ہے، جس میں میڈیا اس کا وسیع تر میدان اوراس کے بیشتر پلیٹ فارم اس کا بہترین ہتھیار ہیں۔ انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب وغیرہ ہر پلیٹ فارم کا اگر نوجوان صحیح اور طریقے سے استعمال کریں تو ففتھ جنریشن وار کے بھیانک اثرات سے اپنے وطن، اپنی قوم و ملت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے نوجوانوں میں دینی اور عصری دونوں علوم کے رجحان کو پروان چڑھانا بھی نہایت ضروری ہے، کیوں کہ ان دونوں علوم کے حسین امتزاج کے بغیر نوجوان کا دور حاضر میں پیش آنے والے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

اس دوران ایک امر جو نوجوانوں کےلیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس بارے انہیں محتاط رہنا چاہیے کہ کچھ انتہاپسند گروہ نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے دینی اور مذہبی میلان کو اپنے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

حکومتی اور سیاسی سطح پر اس طرح کے گروہوں کے حوالے سے بھی ایک مضبوط اور پراثر حکمت عملی کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کی ذہن سازی کرکے ان کو ان کے اصلی مقاصد تک رہنمائی کی جائے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو دور جدید کے جدید ہتھیار میڈیا کے داؤ پیچ کے حوالے سے رہنمائی اور اس کے بدتر سے بہترین استعمال کی طرف برانگیختہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانان ملت کو اپنی عقل و حکمت کو بھی بروئے کار لانا چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسے گروہ یا سر گرمی کا حصہ نہ بنیں جس سے آپ کی زندگی، آپ کا کردار اور آپ کے وطن کا وقار داؤ پر لگ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل