Loading
بھارتی اداکار سیف علی خان کو اسپتال سے صحت یاب ہونے کے بعد واپسی پر ایک بڑی خبر کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے وہ بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سیف علی خان کے خاندان ’’پٹودی فیملی‘‘ کی تاریخی جائیدادیں حکومت کے قبضے میں جانے کا خدشہ ہے، جن کی مجموعی مالیت 15 ہزار کروڑ بھارتی روپے ہے۔ بھارت کی مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے 2015 میں ان جائیدادوں پر عائد حکم امتناع کو ختم کردیا ہے جس سے ممکنہ طور پر اینمی پراپرٹی ایکٹ 1968 کے تحت ان جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اینمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت بھوپال میں پٹودی خاندان کی 15000 کروڑ روپے کی جائیداد پر حکومت کنٹرول حاصل کرسکتی ہے۔ پٹودی خاندان کی تاریخی نمایاں جائیدادوں میں فلیگ اسٹاف ہاؤس، جہاں سیف علی خان نے اپنا بچپن گزارا، اس کے ساتھ نورالصباح پیلس، دارالسلام، حبیبی کا بنگلہ، احمد آباد پیلس، کوہیفزہ پراپرٹی اور دیگر شامل ہیں۔ جسٹس وویک اگروال نے حکم سناتے ہوئے کہا کہ ترمیم شدہ اینمی پراپرٹی ایکٹ 2017 کے تحت ایک قانونی علاج موجود ہے، اور متعلقہ فریقوں کو 30 دنوں کے اندر نمائندگی داخل کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’’اگر آج سے 30 دنوں کے اندر کوئی نمائندگی دائر کی جاتی ہے، تو اپیل اتھارٹی حد کے پہلو کی طرف اشارہ نہیں کرے گی اور اپیل کو اپنے میرٹ پر نمٹائے گی۔‘‘ اینمی پراپرٹی ایکٹ مرکزی حکومت کو ان افراد کی ملکیت کا دعویٰ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھوپال کے آخری نواب حمید اللہ خان کی تین بیٹیاں تھیں۔ ان کی سب سے بڑی، عابدہ سلطان، 1950 میں پاکستان ہجرت کرگئیں۔ دوسری بیٹی ساجدہ سلطان بھارت میں رہیں، نواب افتخار علی خان پٹودی سے شادی کی، اور قانونی وارث بنیں۔ ساجدہ کے پوتے سیف علی خان کو جائیدادوں کا حصہ وراثت میں ملا۔ تاہم، عابدہ سلطان کی ہجرت حکومت کی طرف سے جائیدادوں پر ’’دشمن کی ملکیت‘‘ کے دعوے کا مرکز بن گئی۔ 2019 میں عدالت نے ساجدہ سلطان کو قانونی وارث کے طور پر تسلیم کیا، لیکن حالیہ فیصلے نے خاندان کے جائیداد کے تنازعے کو پھر سے جنم دیا۔ بھوپال کے کلکٹر کوشلندر وکرم سنگھ نے گزشتہ 72 سال میں ان جائیدادوں کے مالکانہ ریکارڈ کی جانچ کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان زمینوں پر رہنے والے افراد کو ریاست کے لیزنگ قوانین کے تحت کرایہ دار سمجھا جاسکتا ہے۔ حکومت کے ممکنہ قبضے نے 1.5 لاکھ باشندوں کو پریشانی کی حالت میں چھوڑ دیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو بے دخلی کا خوف ہے کیونکہ حکومت سروے کرنے اور ملکیت کا تعین کرنے کے منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک رہائشی سمر خان نے کہا، ’’اسٹے کو ختم کردیا گیا ہے، لیکن ان املاک کو اینمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت ضم کرنا پیچیدہ ہے۔ پٹودی خاندان کے پاس اب بھی اپیل کرنے کا موقع ہے۔‘‘ ایک اور رہائشی چاند میاں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ’’ہم ٹیکس دیتے ہیں، لیکن ہمارے گھروں کی کوئی رجسٹری نہیں ہے۔ نوابوں کی لیز ابھی بھی قائم ہونی چاہیے۔‘‘ اس علاقے میں رہنے والے نسیم خان نے کہا کہ ’’حکومت ان جائیدادوں کا دعویٰ کر رہی ہے، لیکن یہ کئی سال سے فروخت یا لیز پر دی گئی ہیں۔ یہ معاملہ سیدھا نہیں ہے۔‘‘ صورت حال پیچیدہ ہے اور پٹودی خاندان کےلیے قانونی راستے اب بھی کھلے ہیں، ان تاریخی املاک کی تقدیر ابھی ہوا میں لٹکی ہوئی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل