Friday, January 24, 2025
 

ریڈ بس کا نیا کرایہ: عوام کےلیے ’ریڈ‘ الرٹ!

 



سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے باسیوں کےلیے ایک نئی مصیبت، یا یوں کہیں کہ ایک اور ’تحفہ‘ تیار ہے۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں کراچی کی مشہور زمانہ ریڈ بس سروس یعنی پیپلز بس سروس کی، جس کے کرایوں میں یکم فروری سے ’تاریخی‘ اضافہ ہونے جارہا ہے۔ سنا ہے وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے فرمایا ہے کہ ریڈ بس کے کرایوں پر سبسڈی کم کررہے ہیں اور عوام کو ساٹھ فیصد زیادہ کرایہ دینا ہوگا۔ اب ذرا حساب لگائیں، پہلے کرایہ تھا 50 روپے، ساٹھ فیصد اضافہ ہوا تو بنتا ہے 80 روپے، لیکن جناب یہ کیا؟ بسوں پر جو نوٹیفکیشن لگائے گئے ہیں، ان کے مطابق پندرہ کلومیٹر تک کا سفر 80 روپے میں ہوگا، اور اس سے زیادہ کا سفر 120 روپے میں! یعنی یہ ساٹھ فیصد کا ’حساب‘ ہماری سمجھ سے تو بالکل باہر ہے۔ اگر پچاس روپے پر 120 روپے کا کرایہ لگائیں تو یہ 140 فیصد بنتا ہے۔ یہ کیسا حساب ہے، یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’میرا حساب، میرا ہی حساب‘۔ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ وزیر ٹرانسپورٹ ریاضی کے کسی نئے فارمولے پر کام کر رہے ہیں یا پھر عوام کو ’بیوقوف‘ سمجھنے کی کوئی نئی ترکیب آزمائی جارہی ہے۔ لیکن ہم کراچی والے ہیں، ایسے ’حسابوں‘ کے عادی ہوچکے ہیں۔ سندھ حکومت اور کراچی کا ’عشق‘ تو سب پر عیاں ہے۔ کراچی کی ٹرانسپورٹ کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ چنگ چی رکشوں کی بھرمار ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کی پرسان حالی سب پر عیاں ہے۔ ٹوٹی پھوٹی اور فٹنس سے عاری بسوں میں عوام دگرگوں حالت میں سفر کرنے کے باوجود ٹرانسپورٹر کو من مانے کرایے دینے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں ریڈ بس ایک ’غریب کی سواری‘ تھی، لیکن اب اس پر بھی ’قہر‘ ٹوٹ پڑا ہے۔ وزیر ٹرانسپورٹ نے کل اپنی بریفنگ میں کہا کہ یہ سبسڈی کم کرکے مزید الیکٹرک بسیں لائی جائیں گی۔ واہ جناب، کیا خوبصورت خواب دکھایا ہے! لیکن ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں یہ الیکٹرک بسیں بھی دیگر بسوں کی طرح کسی ’ڈپو‘ کی زینت نہ بن جائیں۔ یاد ہے نا، اربوں روپے خرچ کرکے بسیں منگوائی گئی تھیں، جن پر تقریباً 16 ارب روپے (غیر مصدقہ) سے زائد خرچ ہوئے تھے، جن میں سے کچھ رپورٹس کے مطابق آدھی سے زیادہ آج بھی ڈپو میں خاک پھانک رہی ہیں۔ اسی طرح پیپلز بس سروس پر بھی اب تک اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، جس کے بیڑے میں تقریباً 300 بسیں شامل ہیں، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں سے ہر وقت کتنی بسیں سڑکوں پر چل رہی ہوتی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نئی الیکٹرک بسیں بھی ان ہی بسوں کی طرح ڈپو میں کھڑی رہ جائیں۔ اب ایک طرف تو مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ غریب آدمی دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر پا رہا، اور دوسری طرف حکومت ہے کہ کرایوں پر کرایے بڑھائے جا رہی ہے۔ جیسے عوام کی جیبیں پیسوں سے بھری پڑی ہیں۔ ارے جناب، ہم کراچی والے تو پہلے ہی ’مظلوم‘ اور ’لاچار‘ ہیں۔ اوپر سے یہ ’ستم‘ مزید برداشت نہیں ہوتا۔ ہم تو بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے اور ہمیں ان ’حکمرانوں‘ سے نجات دلائے۔ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔ لیکن ہم کراچی والے ہیں، ہر مشکل کا مقابلہ مسکرا کر کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے ہم آج تک زندہ ہیں۔ باتیں تو بہت ہی جو کی جاسکتی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ سندھ حکومت کے کانوں پر کون سا جوں رینگنے والی ہے ان باتوں سے۔ لیکن چونکہ ہم خود ریڈ بس میں سفر کرتے ہیں تو بس کے دیگر مسافروں کے عوامی اور عمومی تاثرات بھی یہاں شامل کرہی دیتے ہیں۔ ’’شاید کہ تیرے کانوں تک پہنچ جائے میری بات‘‘ عوامی آرا اور خدشات: ’’کرایہ بڑھنے کے بعد ریڈ بس کی افادیت ختم ہوجائے گی۔ اب یہ سفر عام آدمی کےلیے بہت مہنگا ہوجائے گا۔‘‘ ’‘’ریڈ بسوں میں پہلے ہی اتنا رش ہوتا ہے اور بسیں کافی انتظار کے بعد ملتی ہیں۔ اب کرایہ بڑھنے کے بعد لوگ کیوں ان بسوں میں سفر کرنا پسند کریں گے؟‘‘ ’’حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دے، نہ کہ صرف کرایے بڑھا کر عوام پر بوجھ ڈالے۔‘‘ ’’مہنگائی کے اس دور میں کرایوں میں اضافہ کرنا غریب عوام پر ایک اور وار ہے۔‘‘ ’’حکومت کے ان اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ عوام کی مشکلات سے بالکل بے خبر ہے۔‘‘ یہ تو تھیں عوامی آرا جو ہمیں کل سے اب تک ریڈ بس کے سفر کے دوران سننے کو ملیں۔ یکم فروری کو کرایے بڑھنے کے بعد عوام ان حالات میں کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، یہ تو وقت آنے پر پتا چل ہی جائے گا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے عوام میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل