Sunday, May 19, 2024

پریم کہانی

 



آئی ایم ایف 1944 میں معرض وجود میں آیا تھا۔ اس بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا بنیادی مقصد ضرورت مند ممالک کو سودی قرضہ فراہم کرنا ہے۔ ابتدا میں اس کے ارکان ممالک کی تعداد 44 تھی جو بڑھتے بڑھتے اب 190 تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف میں شمولیت 11جولائی 1950 میں اختیارکی۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک مالیاتی بحران سے دوچار تھا۔ پاکستان نے پہلی مرتبہ 1958 میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے جنرل ایوب خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت امداد طلب کی۔ اس کے بعد 1965 اور 1968 میں ایوب خان نے دو مرتبہ آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی۔ اس طرح پاکستان آئی ایم ایف کا مستقل کلائنٹ بن گیا۔

بعد ازاں 18 مئی 1972 میں پاکستان کے سولین حکمران ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی میں آئی ایم ایف کا رخ کیا گیا۔ بھٹو کی قیادت میں پاکستان نے 3مرتبہ آئی ایم ایف کے سامنے اپنی جھولی پھیلائی۔ اس کے بعد جب جنرل محمد ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹوکا تختہ الٹ کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا تعلق مزید مضبوط ہوگیا۔

ضیاء کے دور میں پاکستان نے 2مرتبہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا آئی ایم ایف کے آگے پاکستان کی کشکول برداری میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں پاکستان نے 8 بار آئی ایم ایف کے در پر حاضری دی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے آئی ایم ایف سے 5 بار اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 3 بار امداد مانگی۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے امداد لینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ مشرف نے 9 سال کے دور حکومت میں 2مرتبہ آئی ایم ایف سے امداد طلب کی۔

2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس نے آئی ایم ایف سے ایک بیل آؤٹ پیکیج حاصل کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا بیل آؤٹ پیکیج تھا جس کی رقم 4.94 بلین ایس ڈی آر تھی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پاکستان کو چند اصلاحات کرنا تھیں، جس میں ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی بڑھوتی کرنا، بعض ٹیکس مستثنیات کو ختم کرنا اور ایک سودی شرح کو متعارف کرانا شامل تھا۔

2013 میں ایک بار پھر برسر اقتدار آنے کے بعد پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنا تعلق نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ماضی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا قرضہ حاصل کیا جس کی مالیت 4.399 بلین ایس ڈی آر تھی۔ آئی ایم ایف کے تجزیے کے مطابق اس 3 سالہ منصوبہ کے نتیجے میں جو ستمبر 2016 میں مکمل ہوا پاکستان کی میکرو اکنامک استحکام میں اضافہ ہوا۔آئی ایم ایف کے حتمی جائزے کے مطابق معاشی شرح نمو بہتر ہوئی، مالیاتی خسارہ کم ہوا اور بیرونی زرمبادلہ کی صورتحال بہتر ہوئی۔ اس سلسلے کے ایک حصے کے طور پر اضافی اسٹرکچرل اصلاحات پر عمل درآمد ہوا۔

2019 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کو 3سالہ، ڈالر 6 بلین کے قرضے کی منظوری دی۔ اس کے بعد 2023 میں پی ڈی ایم کے دور میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر امداد کے لیے آئی ایم ایف کا رخ کیا۔ 30 جون 2023 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ 3 بلین ڈالر قرضہ کا بندوبست کیا۔

2024 کے الیکشن کے بعد شہباز شریف کی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد مئی 2024 تک آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نیا قرضہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے جس کی مالیت کم ازکم ڈالر 6 بلین ہوگی۔ایسا لگتا ہے کہ چہرے بدلتے رہیں گے لیکن آئی ایم ایف اور پاکستان کی یہ پریم کہانی یونہی جاری رہے گی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل