Saturday, February 08, 2025
 

فلسطین میں دہشت گردی کے جدِ امجد (قسط اول)

 



’’سوائے اسرائیل کے سب دہشت گرد ہیں‘‘۔ بھلے وہ پی ایل او تھی یا اب حماس اور حزب اللہ سمیت درجنوں تنظیمیں۔ مگر کوئی نہیں بتاتا کہ موجودہ اسرائیلی فوج دراصل ستتر برس پہلے تین دہشت گرد مسلح تنظیموں (ہگانہ، ارگون، لیخی) کو جوڑ کر بنائی گئی۔ چنانچہ اسرائیلی فوج نے فلسطین اور لبنان میں جو کچھ کیا یا کر رہی ہے وہ اس کے ڈی این اے میں کم از کم ایک صدی سے شامل ہے۔ ضروری ہے کہ اسرائیلی فوج کے عسکری شجرے کو دیکھا جائے تاکہ روزِ اول سے جاری اس اسرائیلی دعوے کی پرکھ ہو سکے کہ ’’ اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) دنیا کی سب سے مہذب سپاہ ہے‘‘۔ سب سے پہلے سب سے اہم دہشت گرد تنظیم ہگانہ کا تعارف ہو جائے۔ہگانہ عبرانی میں دفاع کو کہتے ہیں۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں بار گیورا اور پھر ہش مور کے نام سے فلسطین میں دو مسلح ملیشیائیں قائم کی گئیں۔ان میں شامل رضاکار جزوقتی تھے اور تعداد بھی محض چند سو تھی۔ان کا بنیادی کام اپنی اپنی آبادکار بستیوں کی چوکیداری تھا۔ انیس سو بیس میں یروشلم کے محلے نبی موسی اور انیس سو اکیس میں جافا شہر میں عرب اور یہودی آباد کاروں میں جھڑپیں ہوئیں۔ چنانچہ فلسطین میں یہودی آبادکاری کے نگراں ادارے جیوش ایجنسی کی تائید سے یہودی آبادیوں کے جامع تحفظ کے لیے ہگانہ ملیشیا تشکیل دی۔ اس میں یروشلم کو عثمانی سپاہ سے چھیننے والی برطانوی فوج کے جیوش لیجن کے سابق فوجی بھی شامل تھے ۔ہگانہ کا پہلا کمانڈر یوسف ہیخت بھی انیس سو انیس میں پہلی عظیم جنگ کے خاتمے کے بعد توڑی جانے والی جیوش لیجن کا اہلکار تھا۔ انیس سو انتیس میں الاقصی کمپاؤنڈ میں عبادت اور ہیکلِ سلیمانی کی دیوارِ گریہ تک راستے کے تنازعے پر عربوں اور یہودیوں کے درمیان یروشلم میں ایک اور بڑا بلوہ ہوا۔چنانچہ جسمانی طور پر صحت مند تمام جوانوں اور ادھیڑ عمر آبادکاروں پر لازم ہوا کہ وہ ہگانہ کے کارِ محافظت میں ہاتھ بٹائیں۔ مشرقی یورپ میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی پولینڈ میں تھی۔پہلی عالمی جنگ کے بعد انیس سو اٹھارہ میں جو نئی پولش ریپبلک قائم ہوئی اس پر صیہونیوں کا گہرا اثر تھا۔صیہونی قیادت اور پولش حکومت اس نکتے پر متفق تھے کہ زیادہ سے زیادہ پولش یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنی چاہیے۔انیس سو اکتیس اور سینتیس کے درمیان لگ بھگ دس ہزار یہودی آباد کاروں نے پولش کیمپوں میں عسکری تربیت حاصل کی۔اس دورانئے میں پولش حکومت نے جیوش ایجنسی کے تعاون سے ستائیس سو پچاس ماؤزر رائفلیں اور ریوالور ، سوا دو سو آر کے ایم مشین گنیں، دس ہزار دستی بم اور بیس لاکھ گولیاں مختلف راستوں اور ذرایع سے فلسطین اسمگل کیں۔ انیس سو چھتیس تا انتالیس کے تین برسوں میں عرب آبادی برطانیہ کی دوغلی پالیسی کے خلاف اجتماعی طور پر اٹھ کھڑی ہوئی۔اس وقت فلسطین میں ایک لاکھ برطانوی فوجی تھے۔ہگانہ ملیشیا کے دس ہزار مسلح محافظوں اور چالیس ہزار ریزرو ارکان نے فلسطینیوں کی تحریک کچلنے کے لیے برطانوی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس دوران نہ صرف جیوش سیٹلمنٹ پولیس قائم ہوئی بلکہ ایک برطانوی حاضر سروس کرنل اورڈے ونگیٹ نے ہگانہ کے رضاکاروں کو نائٹ اسکواڈ قاتل دستوں کے طور پر منظم کیا۔یہ دستے عرب بستیوں پر شبخون مارتے ، عرب کسانوں کو اغوا کر کے لے جاتے اور معلومات کے حصول کے لیے شدید ٹارچر کرتے، گھر اور زرعی املاک جلاتے۔ تربیت یافتہ نشانچی ان عربوں کو قتل کرتے جو برطانیہ کے نزدیک باغی قرار پائے تھے۔یہ قیمتی تجربات یہودی ملیشیا کے ارکان کو انیس سو سینتالیس اڑتالیس کے خون خرابے میں بہت کام آئے۔ ہگانہ اور برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ کے مابین فاصلہ تب پیدا ہونے لگا جب انیس سو انتالیس میں سرکارِ انگلشیہ نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا۔اس کے تحت بے چین عرب اکثریت کی تالیفِ قلب کے لیے فلسطین میں یہودی آبادکاروں کے داخلے کو عارضی طور پر محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مگر ستمبر میں ہٹلر کے پولینڈ پر حملے کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔ ہگانہ کی سرپرست جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے اس موقع پر برطانیہ کی جنگی حمائیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم ہٹلر کے خلاف ایسے لڑیں گے جیسے کوئی وائٹ پیپر ( یہودی پناہ گزینوں کے کوٹے سے متعلق ) جاری ہی نہیں ہوا۔اور پھر ہم اس وائٹ پیپر کے خلاف ایسے لڑیں گے جیسے جنگ ہوئی ہی نہیں ’’۔ بظاہر برطانیہ کی عسکری حمائیت کے باوجود جیوش ایجنسی اپنے اصل کام سے غافل نہیں رہی۔ ہگانہ میں پالماخ کے نام سے لگ بھگ دو ہزار پروفیشنل لڑاکوں کا ایلیٹ فوجی یونٹ قائم کیا گیا اور دورانِ جنگ ایک لاکھ مزید یہودیوں کو یورپ سے اسمگل کیا گیا۔یہ تعداد قانونی ہجرت کے لیے برطانوی حکومت کے طے کردہ کوٹے سے تین گنا زائد تھی۔ برطانوی حکام نے غیر قانونی طور پر فلسطین میں داخل ہونے والے سیکڑوں یہودیوں کو ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کی۔ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ہگانہ نے اٹھارہ سو یہودیوں کو ماریشس منتقل کرنے والے ایک بحری جہاز ایس ایس پیٹریا کو مسلح حملے میں ڈبو دیا۔اس واردات میں دو سو سڑسٹھ افراد ہلاک اور ایک سو بہتر زخمی ہوئے۔ متاثرین میں اکثریت یہودیوں کی تھی۔ دوسری جانب بن گوریان نے ہٹلر سے لڑنے والی برطانوی فوج میں فلسطین میں آباد یہودیوں کو بھرتی کرنے کی بھی حمائیت کی اور یوں برطانوی فوج کا جیوش بریگیڈ وجود میں آیا۔یہ بریگیڈ شمالی افریقہ اور اٹلی کے محازوں پر لڑا۔جیوش بریگیڈ کو جنگ کے خاتمے کے اگلے برس انیس سو چھیالیس میں توڑ دیا گیا۔ تب تک تیس ہزار یہودی آبادکار باقاعدہ جنگی تجربہ حاصل کر چکے تھے۔یہ تجربہ تب بہت کام آیا جب برطانیہ نے جنگ کے خاتمے کے بعد بھی یورپ سے یہودیوں کی فلسطین بڑی تعداد میں منتقلی محدود رکھنے کی پالیسی برقرار رکھی۔ چنانچہ تین بڑی مسلح یہودی تنظیموں (ہگانہ، ارگون اور لیخی) نے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے جیوش ریزسٹنس موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد بنایا اور عربوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے خلاف بھی بھرپور غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز ہوا۔اس کا مقصد برطانیہ کو ایک یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ جلد از جلد پورا کرنے کے لیے دباؤ میں لانا تھا۔ پلوں، ریلوے لائنوں اور تھانوں پر دہشت گرد حملے شروع ہو گئے۔ جافا کے مرکزی پولیس اسٹیشن سے بارود سے بھری ایک گاڑی ٹکرا دی گئی (یہ مشرقِ وسطی میں پہلا خود کش حملہ تھا)۔ برطانوی ریڈار سسٹم پر حملے ہوئے تاکہ ان کشتیوں کو بروقت شناخت نہ کیا جا سکے جو یہودیوں کو بھر بھر کے فلسطینی ساحل پر چوری چھپے اتار رہی تھیں۔اس پورے آپریشن کی کمان ہگانہ کے ایلیٹ فوجی یونٹ پالماخ کے ہاتھوں میں تھی۔ انیس سو چھیالیس میں ہگانہ کی افرادی قوت برطانوی انٹیلی جینس ذرایع کے مطابق پچھتر ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔اس فورس کو چھ بریگیڈز میں تقسیم کیا گیا۔ان میں جنگی تجربات سے مالامال تیس ہزار سابق فوجی شامل تھے۔ ہگانہ نے بندوقوں اور مشین گنوں کا ایمونیشن تیار کرنے کے لیے ایلون نامی یہودی بستی میں امریکی یہودیوں کے چندے اور تکنیکی معاونت سے خفیہ فیکٹری بھی قائم کی۔اس وقت مشرقِ وسطی میں موجود برطانوی فوج کے بعد ہگانہ سب سے طاقتور فوجی تنظیم بن چکی تھی۔اس کا عسکری بجٹ انیس سو چھیالیس میں چار لاکھ ڈالر تھا جو اکتوبر انیس سو سینتالیس تک تین اعشاریہ تین ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس عرصے میں فلسطینی عرب اپنے دفاع کے لیے محض ستر ہزار ڈالر تک چندہ کر پائے۔ جیسے ہی نومبر انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا۔وہاں موجود ہر یہودی زن و مرد پر لازم ہو گیا کہ وہ آخری فیصلہ کن لڑائی کی خاطر بھرتی کے لیے رپورٹ کرے۔ ہگانہ ایک پیرا ملٹری تنظیم سے ایک غیر اعلانیہ پروفیشنل فوج کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ایتزاک رابین، موشے دایان ، ایریل شیرون ہگانہ کے نوجوان کمانڈروں میں شامل تھے۔ چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو جب ڈیوڈ بن گوریان اسرائیلی مملکت کے قیام کا اعلان کر رہے تھے۔تین لاکھ سے زائد فلسطینیوں سے شہروں اور قصبوں کو بندوق کی نوک پر خالی کروایا جا چکا تھا۔ دیگر ساڑھے چار لاکھ فلسطینیوں کو اگلے دو ماہ تک جاری پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دوران نکال دیا گیا۔اس دوران دیر یاسین سمیت کئی دیہاتوں کی پوری پوری آبادی قتل کر دی گئی۔ ہگانہ کو جون انیس سو اڑتالیس میں وجود میں آنے والی اسرائیل ڈیفنس فورس میں ضم کر دیا گیا۔ دیگر دو دہشت گرد تنظیمیں ارگون اور لیخی ہگانہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں مگر وہ دہشت گردی میں اتنی آگے چلی گئیں کہ ہگانہ ایک اعتدال پسند تنظیم نظر آنے لگی۔اگلے مضمون میں ہم ارگون ملیشیا پر بات کریں گے۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل