Saturday, February 08, 2025
 

آیندہ بجٹ کے لیے مشاورت اور درآمد و برآمد

 



حکومت نے آیندہ بجٹ2025-26 کے لیے بجٹ تجاویز طلب کر لی ہیں۔ اس کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ کا آغاز یکم جولائی سے اور اختتام 30 جون تک ہونے کے باعث ہر مالی سال کے عنوان کے تحت متعلقہ دونوں سال کا ذکرکیا جاتا ہے۔ حکومت نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے ہر سال کی طرح امسال بھی تمام چیمبرز اور صنعتکاروں سے 8 فروری تک تجاویز مانگی ہیں۔ اب یہ خبر اخباروں میں چھپ کر 4 فروری کو متعلقہ افراد کے سامنے آئی اگلے ہی روز 5 فروری چھٹی کا دن۔ اب 6 تا 8 فروری تک محض3 یوم دستیاب ہوئے ہیں۔ اب کسی چیمبرز کی طرف سے مشاورت درکار ہو یا صنعتکاروں کی ایسوسی ایشن کی طرف سے تجاویز طلب کی جا رہی ہوں، لہٰذا پہلے وہ اپنے طور پر مشاورت کریں گے۔ مشاورت کے لیے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممبرز مشاورت کے لیے دستیاب ہوں یا مشاورتی مجلس میں شرکت کریں یا میٹنگ اٹینڈ کرنے کے لیے تشریف لائیں۔ انتہائی قلیل ترین مدت یعنی محض 3 یوم میں مشاورت کی الف ، بے بھی نہ طے پا سکے گی۔ پھر مشاورت کے بعد اور یہ سلسلہ کئی یوم پر محیط ہو سکتا ہے، لہٰذا کم از کم ایک ہفتہ تو درکار ہوگا۔ پھر کہیں جا کر بہتر تجاویز مرتب کر کے حکومت کے حوالے کی جاسکتی ہے۔ حکومت 8 فروری کی تاریخ میں اضافہ کرے بہ صورت دیگر تاخیر سے ملنے والی تجاویز کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بزنس کمیونٹی کو جنوری 2025 سے سنا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ تجاویز موصول ہوئی ہیں لیکن تمام تر تجاویز کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے وقت سب سے اہم عنصر ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ برآمدات سے معاشی نمو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے حصول کی کوشش ایک طویل عرصے سے ہو رہی ہے۔ اب اس میں سب سے اہم ترین رکاوٹ بجلی،گیس کے نرخ اورکارخانہ داروں کو کسی بھی علاقے کی واٹر بورڈ کی جانب سے اور پانی کی فراہمی کی عدم دستیابی ہے جس کے باعث لاکھوں روپے کا پانی بذریعہ ٹینکرز خریدا جاتا ہے اور صنعتکار کا منافع وہاں پر کم ہو جاتا ہے۔ بہت سی وجوہات ایسی ہیں جن کی بنا پر صنعتکار بادل نخواستہ اپنی صنعتوں کو بند کر کے اسٹاک ایکسچینج میں جا کر بیٹھ گئے اور شیئرز کے کاروبار میں شریک ہو کر بغیر کسی محنت کے منافع بھی کما رہے ہیں۔ اس طرح ملک جوکہ پہلے ہی درآمدی ملک بنا ہوا ہے۔ اس کا انحصار درآمدات پر اور زیادہ بڑھ جائے گا۔ پھر برآمدات میں زیادہ اضافہ کرنا اور درآمدات میں زیادہ کمی کرنا مشکل ترین ہوکر رہ جائے گا۔ پہلے ہی پاکستان کی بڑھتی ہوئی درآمدات کوکسی طور پر لگام نہیں ڈالی جا سکتی۔ پاکستان میں جب بھی درآمدات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی اس کا الٹا نتیجہ نکلا کہ برآمدات کے لیے خام مال اور انتہائی اہم ترین درآمدات پر اچھی خاصی ضرب لگائی جاتی ہے جس سے کارخانوں کے چلنے کی رفتار مدھم پڑ جاتی ہے یا پھر اشیائے ضروریہ اور خوراک کی درآمدات کو کنٹرول کرنے کے نتیجے میں ملک میں خوراک کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور مہنگائی برپا ہو جاتی ہے۔  بات دراصل یہ ہے کہ درآمدات میں کمی لے کر آنا یہ ایک خاص تکنیکی اور انتہائی مہارت اور بہت سی دیگر ضروری باتوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس مرتبہ گزشتہ 7 ماہ کی درآمدات کے اعداد و شمار کچھ اس طرح سے ہیں کہ 33 ارب 3 کروڑ90 لاکھ ڈالرز کی درآمدات پر نہیں جب کہ اس کے بالمقابل مدت یعنی جولائی 2023 تا جنوری 2024 تک کی کل درآمدات 30 ارب 89 کروڑ30 لاکھ ڈالرز کی تھیں۔ اس طرح اس مد میں تقریباً 7 فی صد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ حکومت نے جولائی 2022 سے کچھ درآمدات پر پابندی عائد کی تھی جوکہ بعض مرحلوں میں غلط بھی ثابت ہوئیں۔ مثلاً درآمدات کے کنٹینرز روک لیے جانے کے باعث کئی کارخانوں میں کام بند ہوا یا نہیں شفٹ سے کم ہو کر ایک شفٹ چلنے لگی۔ اس لیے کہ ان کو وہ درآمدی میٹریل میسر نہ آسکا جس کے سبب اپنا برآمدی مال تیار کرے۔ بہرحال سال 2022-23 برآمدات میں کمی واقع ہوئی لیکن ایسی درآمدات جن کا تعلق لگژری آئٹمز سے ہو یا ان کا متبادل ملک میں تیار ہو سکتا ہو یا ایسی درآمدی اشیا جن کا ملک میں بہترین نعم البدل موجود بھی ہے اور ملک کا تقریباً تمام طبقہ اسے استعمال کرتا ہے لیکن امیر افراد، اشرافیہ، نئے درآمدی اشیا اپنے بنگلوں کی تعمیر کے لیے اپنی ضرورت کے لیے اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے غیر ملکی ذائقے کے حصول کی خاطر ان اشیا کو خریدتے ہیں۔ ان سب پر پابندی ہونی چاہیے۔ حکومت ان غیر ضروری اور قیمتی لگژری آئٹمز کی درآمد کو کنٹرول کرے تو درآمدی بل کم ہو کر رہے گا۔ حکومت کی بھرپور کوشش کے باوجود گزشتہ مالی 2023-24 کی کل برآمدات 30 ارب 67 کروڑ70 لاکھ ڈالرز کی تھیں اور رواں مالی سال کے پہلے 7ماہ کی برآمدی مالیت19 ارب 55 کروڑ10 لاکھ ڈالرزکی رہیں۔ مالی سال 2023-24کی کل برآمدات اور اس کی 7 ماہ کی برآمدات کا فرق تقریباً 14 ارب ڈالرز ہیں۔ یعنی اگلے 5 ماہ میں صرف13 ارب ڈالرکی برآمدات کا اضافہ کرسکے۔ اس مرتبہ پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی اور درآمدی خام مال یا میٹریلزکی قیمتوں میں اضافہ اور بہت سی باتیں مل کر برآمدات میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، جس کے باعث برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ مشکل ہے۔ حکومت کی یہ خواہش کہ برآمدات سے معاشی نمو حاصل کرنا چاہتے ہیں فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آ رہا کیونکہ برآمدات میں آیندہ 5 ماہ میں اضافے کے تخمینے کے لیے کتنا ہی دریا دلی سے کام کیوں نہ لیا جائے مبالغہ آرائی سے کام لینے کے باوجود35 یا 36 ارب ڈالرز سے زائد محال دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف درآمدات میں اضافے کی راہ ہموار ہے جوکہ ہمیشہ کی طرح برآمدات سے کہیں بہت زیادہ ہی رہتی ہے۔ ان حالات میں بہتر شرح نمو کا حصول بھی مشکل ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل