Loading
ہم اپنی دادی کو اماں کہا کرتے تھے۔ ہماری اماں دراصل ’’جگ اماں ‘‘ تھیں، وہ اپنے بچوں، نواسے، پوتے، پوتیوں کے ساتھ ساتھ اُن سے عمر میں چھوٹے اردگرد موجود تمام افراد کی بھی اماں تھیں۔ ہماری اماں کا اسمِ گرامی سکینہ سیدہ تھا، وہ جنوبی ہندوستان کی ریاست میسورکے ایک چھوٹے قصبے چنپٹن میں سن 1922 کے ماہِ جون میں پیدا ہوئی تھیں۔ ہماری اماں اُس زمانے کی ایک پڑھی، لکھی اور باشعور عورت تھیں جس میں دیسی معاشروں میں لڑکوں کو پڑھانے کا بھی کوئی خاص رجحان نہیں تھا۔ اماں کے گھرکا ماحول مذہبی تھا، اُن کے والد قاری تھے جن کی بدولت وہ دینی معاملات سے بھی پوری طرح واقفیت رکھتی تھیں۔ اماں کی والدہ محترمہ نے اُنھیں چھوٹی عمر سے ہی گھرداری کے اُمور سکھلائے، وہ اپنے بھائی، بہنوں میں سب سے بڑی تھیں، جس کے باعث بردباری اُن کی طبیعت کا حصہ تھی۔ اماں 31 سال کی عمر میں رشتہ ازواج سے منسلک ہوئیں۔ اماں کے شوہرِ نامدار یعنی ہمارے دادا سید شہاب الدین صاحب نے شادی سے کچھ عرصہ قبل ہی بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انھوں نے اپنے علم کے موتیوں کا ہار اپنی زوجہ یعنی اماں کو بخوشی زیب تن کروایا۔ دادا نے زندگی کے ہر موڑ پر اماں کو اپنے شانہ بہ شانہ رکھا جس نے اماں کے اعتماد کو خوب تقویت بخشی، وہ دونوں صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے شریکِ حیات تھے۔ دادا اماں کو چاند کہا کرتے تھے۔ اماں اپنے والد محترم کے عزیز دوست کی بہو بن کر ہندوستان کی ریاست میسور سے رخصت ہوکر نظاموں کی ریاست حیدرآباد دکن آئیں، سکینہ سیدہ نے سسرال آکر جب گھر سنبھالا تو اپنی ہر ذمے داری کو احسن انداز میں سر انجام دیا۔ اماں کے یہاں آٹھ بچوں کی پیدائش واقع ہوئی، ایک بیٹی اور سات بیٹے جن میں سے اب صرف تین بیٹے حیات ہیں۔ جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اماں اپنے تین بچوں، ساس، سسر اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ میکے کو ہندوستان میں خیر آباد کہہ کر پاکستان منتقل ہوگئیں جب کہ اُن کے خاوند اپنی کاروباری و سیاسی مصروفیات کے باعث قیامِ پاکستان کے دو برس بعد نومولود مملکت میں اپنے اہلِ خانہ کے پاس آئے۔ اماں کے یہاں سب سے پہلے ایک بیٹا پیدا ہوا، نام رکھا سید محمود، وہ غیر معمولی صفات کے مالک تھے،کم عمری میں گہری باتیں اور مستقبل کے حوالے سے پیشن گوئیاں آسانی سے کرجاتے تھے۔ سید محمود کی ذات کے حوالے سے ان حیرت انگیز باتوں کو دیکھ کر خاندان کے بزرگوں نے اندازہ لگایا کہ اُن کی عمر نہایت مختصر ہوگی اور آنے والے وقتوں میں ایسا ہی ہوا، وہ کمسنی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اُس وقت اماں کس قدر اذیت سے گزری ہونگی کہ اُن کی پہلوٹی کی اولاد اور وہ بھی غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئی۔ اماں کے دکھی دل کا مداوا کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے اُنھیں ایک بیٹی عطا فرمائی جن کا نام سیدہ اچھی بی رکھا گیا، اس کے بعد ربِ الٰہی نے اُنھیں چھ بیٹوں کی ماں بنایا۔ اماں پر آزمائش صرف کم سن سید محمود کی وفات تک محدود نہیں رہی بلکہ صدمات کا ایک طویل سلسلہ اُن کی ذات کے ساتھ ہمیشہ جُڑا رہا۔ اماں کی واحد دختر اور چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن سیدہ اچھی بی کے یہاں بچے کی ولادت متوقع تھی کہ اماں کو اچانک چنپٹن ہندوستان سے اطلاع موصول ہوئی کہ اُن کے والدِ محترم شدید علیل ہیں اور سانسیں پردیس سدھارے بیٹی کی یاد میں اٹکی ہوئی ہیں۔ اماں نے پاکستان سے ہندوستان جانے کی فی الفور تیاری کی، یوں تو اُن کو اپنی بیٹی اچھی بی کو اس حالت میں چھوڑکر جانے کی بہت تکلیف تھی، مگر انھوں نے اپنی ممتا کے اوپر اپنے بیٹی ہونے کو فوقیت دی۔ ہائے بدقسمتی کہ اماں ابھی ہندوستان کے دورانِ سفر ہی تھیں کہ اُن کے والد سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے، اماں پرکیا قیامت بیتی ہوگی کہ جان سے پیارے والد سے ملاقات کرنے کے لیے اس مشکل سفرکو اختیارکیا اور اُن کا دیدار بھی نصیب نہیں ہوا۔ اماں نے ہندوستان پہنچ کر ابھی ٹھیک سے اپنے والد کی دائمی جدائی کا غم بھی نہیں منایا تھا کہ پاکستان سے دل خراش خبر آئی کہ اُن کی پیاری بیٹی سیدہ اچھی بی بھی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ اُدھر باپ نہ ملے، ادھر بیٹی نہ رہی، یہ صدمہ نہیں بلکہ قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا۔ ہماری باہمت اماں نے پاکستان واپس آکر اپنی مرحومہ بیٹی کے نومولود فرزند کو اپنی ممتا کی آغوش میں لیا اور بیٹی کی آخری نشانی کو نانی نہیں ماں بن کر پالا پھر ازخود اپنے داماد کو دوسری شادی پر آمادہ کیا۔ اماں کی زندگی جلتی، تپتی مستقبل کی جانب محوِ سفر تھی کہ ماہِ مارچ، سال 1988 میں اُن کے ہم سفر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں سخت مجروح ہوگئے،آزمائش کی اس گھڑی میں آنسو بہانے بیٹھنے کے بجائے وہ اپنے شوہرکا مضبوط سہارا بنی اور فرض شناسی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ 20 اکتوبر، 1988 کا سورج اماں کے آشیانے پر پہاڑ بن کرگرا،گھر میں اماں کے عزیز و جاں نواسے کی شادی کی تیاری اپنے عروج پر تھی،گھر مہمانوں سے بھرا پڑا اور رونق افراز تھا، چاروں سو ہنسی ٹھٹھوں کا پُرلطف شور تھا کہ اچانک اماں کو اُن کے دو جوان بیٹوں کی لاشیں موصول ہوئیں اور شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا، شرکاء شادی شرکاء غم بن گئے۔ دراصل اماں کے دو بیٹے اپنے دو دوستوں کے ہمراہ شادی میں شرکت کرنے کے لیے آرہے تھے کہ جان لیوا روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئے۔ دیکھنے والوں کو محسوس ہوا کہ اماں اپنے جوان بیٹوں کی موت کے صدمے کو برداشت نہیں کرپائیں گی، ٹوٹ جائیں گی یا شاید ختم ہی ہوجائیں گی۔ عام خیال تھا کہ اب شادی موقوف ہوجائے گی اور شاید سماجی تقاضہ بھی یہی تھا مگر یہاں بھی اماں رب کی رضا میں راضی رہیں اورکمال حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو بُلا کرکہا کہ مرنے والوں کی تدفین ہوچکی ہے، نواسے کی دلہن مایوں بیٹھی ہے۔ لہذٰا نکاح کی کارروائی ممکن بنائی جائے۔ اماں کی اس ہمت کو دیکھ کر اہلِ خانہ و دیگر سناٹے میں آگئے اورکہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے دل غم سے پھٹ رہے ہیں اور ایک ماں ایسا مضبوط فیصلہ کر رہی ہے مگر یہاں وہ محض ایک ماں نہیں تھیں، ایک تاریخ تھیں، ایک کردار تھیں۔ اماں نے اُس موقعے پر یہ تاریخی جملہ ادا کیا،’’ خوشی بھی ہماری ہے اور غم بھی ہمارا ہے، اگر پرُانوں کی زندگی ختم ہوگئی تو نئی زندگی کوکیونکر روکا جائے۔‘‘ زندگی کچھوئے کی چال چلتے ہوئے جب سال 1991میں داخل ہوئی تو امّاں کے سرکی چادر، اُن کا سہارا اور اُنھیں چاند کہہ کر پکارنے والا خود ماند پڑ گیا۔ جس شوہرکی ذات سے امّاں کو اتنا حوصلہ ملا تھا کہ اُنھوں نے اپنی زندگی میں بار بار آنے والے خزاں کے دنوں میں صبر و ہمت کا مظاہرہ کیا وہ اُنھیں اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر دوسرے جہاں کوچ کرگئی۔ خاوند کی وفات کے بعد اماں نے اپنے بچوں کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے باپ کا کردار بھی ادا کیا اور اپنے غموں کو پسِ پشت ڈال کر اپنے بیٹوں، بہوؤں، نواسے اور پوتے پوتیوں کی زندگیوں میں آنے والی مسرتوں اورکامیابیوں پر اُن سے زیادہ خوشی کا اظہارکیا۔ اماں جو کہ اپنے ذات میں ایک عظیم کردار تھیں، گھنی چھاؤں اور چمکتا ہوا ماہتاب تھیں اپنے پیچھے انگنت سوگواروں کو چھوڑکر غروب ہوگئیں مگر جاتے جاتے اپنی روشنی اپنے چاہنے والوں میں منتقل کرگئیں۔ اس ماہِ رمضان ان کو ہم سے بچھڑے گیارہ سال بیت چکے ہیں، وہ آج جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں ہیں مگر اُن کی روشنی ہماری آنکھوں کو اب بھی خیرہ کر رہی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل