Loading
بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو دنیا بھر میں انصاف کا عالمی نگہبان سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ واقعات نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ادارہ بھی طاقتور ممالک کے زیر اثر ہے۔ ICC کے فیصلے اگرچہ کاغذ پر انصاف کا تاثر دیتے ہیں مگر حقیقت میں یہ عدالت کمزور ممالک کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا آلہ بن چکی ہے جب کہ طاقتور ممالک کے سربراہان کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے، چاہے ان پرکتنے ہی سنگین جرائم کے الزامات کیوں نہ ہوں۔ فلپائن کے سابق صدر روڈریگو ڈوٹرٹے کی گرفتاری اس کی تازہ مثال ہے۔ انھیں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں دی ہیگ (The Hague) لے جایا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی انسداد منشیات مہم کے دوران ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قتل کر وایا۔ ان ہلاکتوں کو عالمی برادری نے ماورائے عدالت قتل قرار دیا اور انسانی حقوق کے علم بردار حلقے اس گرفتاری کو انصاف کی جیت قرار دے رہے ہیں لیکن اس عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے خلاف بھی جنگی جرائم کے وارنٹ جاری کیے تھے، یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا جس پر میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اس فیصلے کو سراہا تھا۔ یہ فیصلہ دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں میں امید کی کرن بن کر آیا تھا کہ شاید اب طاقتور رہنماؤں کو بھی جواب دہ ٹھہرایا جائے گا، مگر یہ امید ایک سراب ثابت ہوئی۔ نیتن یاہو جن پر فلسطین کے علاقے غزہ میں معصوم شہریوں کے قتل، اسپتالوں اور رہائشی عمارتوں کی تباہی اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں جیسے سنگین الزامات ہیں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ وہ ہنگری کے سرکاری دورے پر جانے والے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ہنگری نے ICC کو دھمکی دی ہے کہ اگر نیتن یاہو کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو وہ عدالت سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ یہ تضاد کسی بھی باشعور شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آخرکیوں ڈوٹرٹے کو دی ہیگ (The Hague) کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے لیکن نیتن یاہو کو عالمی سطح پر سفارتی پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا ہے؟ یہ سب اس لیے ہے کہ عالمی انصاف کے اصول طاقت کے مطابق بدلتے ہیں۔ فلپائن جیسے ترقی پذیر اورکمزور ملک کے رہنما کوگرفتار کرنا آسان ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت نہیں کھڑی۔ مگر اسرائیل جسے امریکا اور یورپی طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اس کے رہنما کو پکڑنا تقریباً ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ چاہے اس پر انسانی حقوق کی جتنی بھی خلاف ورزیاں ثابت ہو چکی ہوں۔ ICC کے ریکارڈ کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے زیادہ ترکارروائیاں افریقی اور ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کے خلاف کی ہیں۔ یوگینڈا، کانگو، سوڈان، کینیا اور اب فلپائن دوسری طرف امریکا، اسرائیل اور روس جیسے طاقتور ملک ICC کو ماننے سے ہی انکارکردیتے ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی فیصلہ آ بھی جائے تو وہ اسے کھلے عام مسترد کردیتے ہیں اور پھر بھی آزاد گھومتے ہیں۔ نیتن یاہو کے معاملے میں ICC نے ایک مثبت قدم اٹھایا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونا اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ ایک موقعہ تھا کہ عالمی برادری کو دکھایا جاتا کہ انصاف اندھا ہوتا ہے نہ کہ طاقت دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے مگر ہوا اس کے برعکس۔ ICC نے اپنی کمزوری واضح کردی ہے۔ آج ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر عالمی انصاف کے ادارے اپنے فیصلوں پر عمل نہ کرا سکیں تو وہ انصاف کے محافظ نہیں بلکہ طاقتور ممالک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جاتے ہیں۔ ڈوٹرٹے کو دی ہیگ (The Hague) میں پیش کرنا اگر انصاف ہے تو نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ موجود ہے تو اسے بھی ڈوٹرٹے کی طرح دی ہیگ (The Hague) کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔ انصاف کو سیاسی مصلحتوں اور طاقت کے کھیل سے آزاد ہونا ہوگا ورنہ ICC کی ساکھ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔آج کے حالات میں یہ مطالبہ فروری ہے کہ ICC کے تمام فیصلے چاہے وہ کسی بھی رہنما کے خلاف ہوں بغیرکسی سیاسی دباؤ کے نافذ کیے جائیں۔ اگر نیتن یاہو کے خلاف جاری وارنٹ پر عمل نہیں ہوتا اور انھیں اس طرح آزادی سے گھومنے دیا جاتا ہے تو پھر یہ ادارہ انصاف کے بجائے طاقتور ممالک کے تحفظ کا ذریعہ بن جائے گا اور یہ عالمی امن اور انسانیت کے لیے ایک خطرناک مثال ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انصاف کو رنگ، نسل، مذہب اور طاقت سے بالاتر ہونا چاہیے۔ نیتن یاہو اور ڈوٹرٹے کے معاملات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ موجودہ نظام میں انصاف کمزورکے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس دہرے معیارکو چیلنج نہ کیا تو دنیا میں ظلم کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوگا یا تو انصاف سب کے لیے ہو یا پھر کسی کے لیے نہ ہو۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل