Sunday, March 23, 2025
 

بلوچستان… معدنی ذخائر کا خزینہ

 



بلوچستان کی معدنی دولت اور جغرافیائی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بلوچستان ہی پاکستان کی اصل شہہ رگ ہے ۔ پاکستان میں پائے جانے والے معدنی ذخائر کا غالب حصہ بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان کے پشتو سپیکنگ علاقے کی نسبت بلوچ علاقے میں معدنی ذخائر کی بہتات ہے۔ پشتون علاقے میں کوئلے اور چند دوسرے معدنی ذخائر ہیں جب کہ بلوچ علاقے دنیا کی اہم ترین اور قیمتی دھاتوں کا خزینہ لیے ہوئے ہیں۔دنیا کا بہترین ماربل بھی بلوچ علاقے میں پایا جاتا ہے۔اس کے ذخائر ایک کروڑ سال تک ختم نہیں ہوں گے۔ گیس کے ذخائر کے نیچے ایک اور معدنی ذخیرہ بھی دریافت ہوا ہے۔ یہ دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ شمار کیا جاتا ہے۔ سیندھک اور رکوڈک تابنے اور سونے کے ذخائر ہیں ۔ دالبدین اور ڈھاڈر میں لوہے کے بھاری ذخائر ہیں ۔اس کے علاوہ زنک،لڈLEADقیمتی پتھر اور قیمتی پتھروں کی مالیت بھی کروڑوں ڈالرز میں ہے۔ ضلع چاغی کے مختلف علاقوں میں ماربل اور گرینائٹ بھی دریافت ہوا ہے ۔ بلوچستان میں وائلڈ لائف کی بھی بہتات ہے۔ صرف بھیڑ بکریوں کی افرائش سے بلوچستان لاکھوں ڈالرز سالانہ کما سکتا ہے۔گوادر کے ساحل سے حاصل کی جانے والی مچھلیوں اور جھینگوں کی مارکیٹ پوری دنیا ہے۔گوادر کی ٹونا فش دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کشمیر کی اہمیت یقینی اعتبار سے اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن بلوچستان کی اہمیت پاکستان کے لیے کشمیر سے بھی زیادہ ہے۔ کشمیر کا بڑا حصہ ہمارے پاس نہیں، ہم انفرادی اور قومی حیثیت سے اس کے لیے بے مثال جدو جہد کر رہے ہیں۔ جب کہ بلوچستان تو ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہے، پھر اس قدر بے اعتنائی کیوں؟ پاکستان میں سیاسی استحکام نہ ہونے کی بنا پر جمہوری حکومتیں اپنی مدت پوری نہ کر سکیں ہر نئے آنے والے وزیر اعظم، صدر اور فوجی ڈکٹیٹرز نے جب بھی اقتدار سنبھالا ، اپنی پہلی تقریر یا پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ ہم بلوچستان کے عوام کے حقوق کی پاسداری کریں گے۔ بلوچستان کے لیے خصوصی ترقیاتی منصبوبے شروع کیے جائیں گے۔لیکن بد قسمتی سے وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا ۔ میڈیا نے بھی حکمرانوں کے ان بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اس طرح ایک مجموعی تاثر بن گیا کہ بلوچستان ایک محروم خطہ ہے۔بلوچستان کے سرداروں اور سیاسی قائدین نے بھی خوب خوب اجاگر کیا اور اب بلوچستان کے عوام کی محرومی ایک قومی نعرے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اگر غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھا جائے تو سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خواہ کا غریب طبقہ بھی بلوچستان کے غریب طبقے کی طرح روز مرہ کی زندگی میں بڑی مشکلات کا شکار ہے۔پاکستان کے عام آدمی کی حالت کو بدلنے کے لیے قومی سطح پر سنجیدہ اور مخلص حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کا حل محض بیان بازی یا وعدوں میں نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے میں ہے۔ پاکستان کو آزادی حاصل کیے64سال گزر چکے ہیں لیکن بلوچستان کے عوام کی قسمت کیوں نہ بدل سکی اور وہاں قومی اتحاد کے مسائل کیوں ہیں؟ان کو حل کرنے کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ اب پاکستان کے نظام کو ویلفئیر ریاست کی طرز پر چلانے کی منصوبہ بندی کریں۔ تمام صوبوں اور وفاق کے درمیان ایک نئے سماجی سمجھوتے کا آغاز کیا جائے۔ بلوچستان کے اصل حقائق کو عوام کے سامنے لایا جائے، بلوچستان کے سرداروں کو اب تک حکومت یا ایجنسیوں کی طرف سے جو رقوم دی گئیں ہیں ان کا حساب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے اور اس پر بھی بحث ہو کہ یہ رقم کس وجہ سے دی گئی اور اس کاا ستعمال کہا ں ہوا۔ بلوچستان سمیت پورے ملک میں کسی کو مسلح لشکر رکھنے پر پابندی لگائی جائے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی کانفرنس بلا کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات پر غور کیا جائے۔ پارلیمنٹ اوربلوچستان کی صوبائی اسمبلی یک نکاتی ایجنڈے پر تفصیلی بحث کرے۔ عوامی قیادت کو ملک کی سیکیورٹی ایجنسیز کے نمایندے بھی بریفنگ دیں تا کہ قومی لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے۔ذرایع ابلاغ میں بلوچستان کے حوالے سے تحقیقاتی اور تجرباتی پروگرام شروع کیے جائیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل