Loading
حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے ایمان کی حالت میں خلوص نیّت سے لیلۃ القدر میں عبادت کی تو اﷲ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری باب فضل لیلۃ القدر) لیکن اس فضیلت کے حصول کے لیے آقائے نام دار صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو شرطیں ذکر کی ہیں، مفہوم: 1:عبادت کرنے والا مومن ہو۔ یعنی عقیدہ صحیح ہو، اگر عقیدہ ہی غلط ہو تو ایک لیلۃ القدر نہیں ہزار لیلۃ القدر بھی عبادت کرتا رہے تو وہ محروم ہی رہے گا۔ کیوں کہ صحیح اور درست عقیدہ ہی اسلام کی اصل اور بنیاد ہے۔ اگر بنیاد ہی درست نہ ہو تو عبادت والی عمارت کیسے کھڑی ہوگی۔ یعنی عقائد اسلام کی بنیاد ہیں اگر ایک عقیدہ بھی غلط ہوگیا تو گم راہی مقدر بنے گی۔ 2:عبادت کرنے والے کی نیّت درست ہو، اگر نیّت میں ریا، دکھلاوا آگیا تو رات بھر جاگنا اور عبادت کرنا کسی کام کا نہیں۔ فائدہ: اس حدیث میں اور اس طرح کی احادیث میں جو عبادت پر گناہوں کی معافی کا تذکرہ ہے اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، باقی کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ اور حقوق العباد والے گناہوں کی معافی کے لیے ان حقوق کی ادائیگی یا پھر صاحب حق سے معافی ضروری ہے، صرف عبادت سے وہ کبھی معاف نہیں ہوں گے۔ لیلۃ القدر کون سی رات ہے۔۔۔ ؟ مفہوم: ’’لیلۃ القدر کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (یعنی،21 ، 23 ، 25 ،27 ، 29 کی راتوں میں تلاش کرو۔) (صحیح بخاری) اسی طرح کی ایک حدیث مسند احمد میں بھی ہے جس میں حضرت عبادہ رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا کہ وہ کون سی رات ہے؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ لیلۃ القدر کی مخصوص دعا: حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، اﷲ سے یوں دعا مانگنا، مفہوم: ’’اے پروردگار! آپ بہت معاف فرمانے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند بھی فرماتے ہیں، مولائے کریم مجھے معاف فرما دیں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ باب الدعاء بالعفو والعافیۃ) اتنی بابرکت رات میں بھی امت کے بہت سارے افراد اعتدال کا دامن چھوڑ کر افراط و تفریط کرکے عتاب کے مستحق بنتے ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ ہمیں اس رات اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور شب قدر کو امت کے لیے ذریعۂ بخشش بنائے۔ آمین
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل