Loading
رواں سال 76ہزار 80ہزار پاکستانی حاجیوں کا حج خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔ حج ایک ایسا فریضہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے لاکھوں مسلمان زندگی بھر کی کمائی میں سے بچت کرتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں اپنے گھر بلائے لیکن اس سال سعودی اتھارٹیز کی حج کے تمام امور کی ڈیجیٹلائزیشن سسٹم پر حکومت پاکستان کی وزارت مذہبی امور وحج کی جانب سے نجی حج آپریٹرز کو نئے خودکار سسٹم سے متعلق آگاہی نہ دیے جانے اور پیشگی اقدامات نہ ہونے سے تقریبا 80 ہزار پاکستانی حاجیوں کا حج خطرے میں ہے۔ حج آپریٹرز کے مطابق مکہ، مدینہ، منیٰ اور عرفات میں حاجیوں کو ٹھہرانے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی عازمین کا سفر حج مشکل ہوگیا ہے۔ حج آپریٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق چئیرمین فرقان عبدالقادر نے ایکسپریس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ 22 اکتوبر 2024 کو اس وقت پیدا ہوا جب سعودی حکام نے ایک نیا خودکار نظام متعارف کرایا لیکن پاکستانی وزارت مذہبی امور نے بھی بروقت اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے نجی حج آپریٹرز کو اس نئے سسٹم کے تحت درپیش مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نجی حج آپریٹرز کے مطابق ان کی جانب سے خودکار سسٹم کے تحت مکہ اور مدینہ کے ہوٹلوں کی ایڈوانس میں بکنگ کرائے جانے کے باوجود اب تک سعودی دفاع مدنی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے حاجیوں کو ٹھہرانے کا اجازت نامہ نہیں دیا گیا ہے۔ نجی حج آپریٹرز نے ممکنہ بحران سے بچنے کی غرض سے اپنے اثاثے فروخت کرکے متعلقہ سعودی اتھارٹیز اور سروس پروائیڈرز کو ایڈوانس میں ادائیگیاں کی ہوئی ہیں۔ حج آپریٹرز کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کی کمائی لگادی تاکہ وہ اپنے پاکستانی حاجی کسٹمرز کو بہتر سے بہتر سہولیات دے سکیں لیکن اب انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں۔ اگر یہ بحران برقرار رہا تو نجی شعبے کے 80 فیصد حج آرگنائزر دیوالیہ ہوسکتے ہیں اور ہزاروں حاجیوں کا حج خطرے میں پڑجائے گا جس کا انہوں نے پتہ نہیں کب سے خواب دیکھا ہوا ہے۔ نجی حج آپریٹرز نے خادم حرمین شریفین، وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر مذہبی امور سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ضمن میں فوری مداخلت کرکے اس سنگین بحران کو حل کرائیں اور سعودی اتھارٹیز کے ذریعے حج ویزوں کے اجرا کی تاریخ 30 ذیقعد تک بڑھانے کے لیے اقدامات بروئے کار لائیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل