Loading
کیا ریاست کے پاس پارا چنارکے عوام کے مصائب کا کوئی حل نہیں ہے؟ افغانستان کی سرحد سے متصل اس شہر اور اطراف کے دیہاتوں کے لوگ چھ ماہ سے حصار میں ہیں۔ پارا چنار کے کل مکین جن کی تعداد 7لاکھ 85 ہزار کے قریب ہے، اس دفعہ عید الفطر کی خوشیاں منانے سے محروم رہ جائیں گے۔ پارا چنار کی 2 لاکھ 75 ہزار کے قریب عورتیں جن میں بچے بھی شامل ہیں عید کے موقع پر خوف کے ماحول میں گھروں میں مقید رہیں گے۔ یہ عورتیں ملک کے دیگر علاقوں اور بیرون ممالک میں مقیم اپنے بچوں، بھائیوں اور والدین سے ملاقات کو محض خواب ہی تصورکریں گی۔ پارا چنار کو پشاور سے ملانے والی سڑک مہینوں سے بند ہے۔ پارا چنار کے شہریوں کے لیے ایک راستہ افغانستان جانے اور وہاں وہ بے چارے وہ اپنی جانوں کو دہشت گردوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلح جنونی گروہوں کی سرحدی پٹی کے ساتھ اجارہ داری ہے۔ یہ جنونی گروہ اور ان کے مسلح جنگجو پارا چنار سے آنے والے افراد کو قتل کرنے کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں، یوں اب پارا چنار کے لوگوں کے لیے عملی طور پر یہ راستہ اختیارکرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ گزشتہ سال کے وسط میں مسلح گروہوں نے پارا چنار جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کردی تھی جس کے بعد پارا چنار میں ضروری اشیاء، ادویات، پٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت ہوگئی تھی۔ پارا چنار کے سول اسپتال میں شدید سردی کے موسم میں ادویات کی نایابی کی بناء پر بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔ کینسر اور دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کی حالت غیر ہوچکی تھی، جب پارا چنار کے حصارکا معاملہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی شہ سرخیوں میں شامل ہوا اور سوشل میڈیا پر مسلسل بچوں کے مرنے کی خبریں وائرل ہونے لگیں تو خیبر پختون خوا کی حکومت کو کچھ خیال آیا اور پشاور سے یہ اعلامیہ جاری ہوا کہ پولیس کے دستوں کی نگرانی میں بسوں اور ٹرکوں کے قافلوں کو پارا چنار جانے اور آنے کی اجازت ہوگی، مگر 21 نومبر 2024پارا چنار کے مکینوں کے لیے سیاہ دن تھا۔ پارا چنار کے نزدیک جگن کے مقام پر 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر مسلح افراد نے منظم انداز میں آٹو میٹک رائفلوں سے اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس حملے میں 5 بچوں اور 8خواتین سمیت 50 سے زائد لوگ قتل کردیے گئے۔ پھر دوبارہ نومبرکے اس سانحے پر ذرایع ابلاغ پر بہت واویلا ہوا تو وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ایک امن جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ امین گنڈاپور جو ہمیشہ اسلام آباد فتح کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں، وہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے پارا چنار نہیں گئے بلکہ پارا چنار سے متصل کوہاٹ کا دورہ کیا۔ بہرحال قبائلی جرگہ کے کئی اجلاس منعقد ہوئے، ایک 14 نکات پر مشتمل معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے میں جنگجوؤں سے اسلحے کی واپسی اور دونوں گروہوں کے تعمیرکردہ مورچوں کو ختم کرنا شامل تھا۔ ضلع انتظامیہ نے بار بار یہ خبریں شایع اور نشرکرائیں کہ ان حفاظتی مورچوں کے خاتمے کا عمل جاری ہے۔ اس معاہدے میں ایک شق ہتھیاروں کو حکومت کے حوالے کرنے سے متعلق ہے مگر پارا چنار کے شہری کہتے ہیں کہ سرحد پار سے روز حملے ہوتے ہیں، آج تک سرحد کو محفوظ نہیں بنایا جا سکا۔ اس صورتحال میں ہتھیاروں سے محروم ہونے کا مطلب خودکشی کرنا ہے، مگر پارا چنار جانے کا راستہ نہیں کھل پایا۔ اس دوران متحارب گروہوں نے کئی بے گناہ شہریوں کو قتل کیا۔ ان میں وہ دو بدقسمت بھی شامل تھے جو مخالف گروہ میں موجود اپنے قریبی دوستوں کی یقین دہانی پر خطرناک راستہ سے گزرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ان کے لواحقین کو ان افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل پائیں۔ پارا چنار کے ڈپٹی کمشنر پر حملہ ہوا مگر اﷲ تعالیٰ نے ان کی جان بچائی مگر صورتحال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ پارا چنار کے ایک قبائلی رہنما کے مطابق پاراچنارکی 365 کلومیٹر سرحد افغانستان سے ملتی ہے تو وہاں تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں، لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے، اشیاء ایک دوسرے علاقے میں فروخت ہوتی ہیں تو دونوں اطراف کے لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے اور علاقے میں خوشحالی آتی ہے لیکن یہی ہمارے بدنصیبی کہ یہاں ماحول جنگ و جدل کا سبب بنا۔ پاراچنار اورکرم میں آبادی کی اکثریت کا تعلق بنگش قبائل سے ہے مگر بنگش قبائل مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک قبائلی رہنما نے اس علاقے میں جھگڑوں کی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ زمینی تنازعہ ہے جو بدقسمتی سے برسوں سے حل نہیں ہو رہا اور ساتھ ہی ضلع کرم کی جو جغرافیائی اہمیت ہے وہ بھی اپنی جگہ ہے۔ مقامی ٹی ٹی پی خوارج بھی درمیان میں آتے ہیں اور فرقہ وارانہ روپ ڈھال لیتے ہیں۔ بعض غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ پارا چنار کے علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات انگریز دور سے ہورہے ہیں۔ 1923 میں لکھنؤ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔ اس فساد کی گرمی پارا چنار میں محسوس ہوئی تھی۔ سینئر صحافی خالد احمد نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات پر تحقیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 1977میں امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان میں عوامی انقلاب آنے کے بعد کامریڈ نور محمد تراکئی کی حکومت کے خلاف افغان مجاہدین کا پروجیکٹ شروع کیا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بن گئی اور ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتیں بھی اس پروجیکٹ میں شامل ہوگئیں تو افغانستان کے مہاجرین کی پاکستانی قبائلی علاقے میں آزادی سے آنے جانے میں بڑی رکاوٹ پارا چنار کی آبادی کو قرار دیا گیا تھا، یوں ایک منصوبے کے تحت سب سے پہلے اس علاقے میں فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا، پھر اس خطے کی جغرافیائی حیثیت تبدیل ہوگئی۔ سرحد کے اس پار سے آنے والے افغان مہاجرین نے اس علاقے کی Dynamics کو تبدیل کردیا، یوں اس علاقے میں زرعی زمینوں پر قبضہ اور دعوے سے نئے تضادات ابھرکر سامنے آئے، یوں 48 سال گزرگئے۔ ان تضادات کو ختم کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ ان تضادات کو مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں اس علاقے میں آباد تمام فرقوں میں شدت پسندی بڑھ گئی، مگر المیہ یہ ہے کہ ابھی تک خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور وفاقی حکومت کے ذمے داروں نے پاراچنار آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سیاسی رہنماؤں کا بھی فرض ہے کہ وہ پاراچنار کا دورہ کریں، مگر جن صحافیوں نے پاراچنار جانے کی کوشش کی تھی وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ انھیں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ پاراچنار کے عمائدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور پشاور کی حکومتیں امن معاہدہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کرائیں تو اس علاقے کے عوام کو سکون مل سکتا ہے۔ ریاست کو اس علاقے میں اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے ہونگے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل