Tuesday, April 15, 2025
 

بے غرض نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی!

 



امریکا میں کینسس شہر کافی بڑا ہے۔ آبادی تقریباً پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن یعنی مرکزی ایریا میں ایک Dinar ریسٹورنٹ ہے۔ کھانے پینے کی عام سی جگہ۔ اس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی خاص بات نہیں ، سادہ سا امریکی فرنیچر‘ درمیانے درجے کا سستا کھانا اور بے ہنگم موسیقی ۔ کھلے ہوئے تقریباً چار برس ہو چکے تھے۔ اخراجات وغیرہ ڈال کر مالک کو برائے نام منافع ملتا تھا۔ ارادہ تھا کہ اس ریسٹورنٹ کو بند کر کے کوئی نیا کام شروع کر دے۔ بہر حال‘ زندگی تھی اور بس چلے جا رہی تھی۔ اس ریسٹورنٹ میں ایک ویٹرس تھی، جس کا نام جیسی ہوپر تھا۔ محنتی اور بااخلاق لڑکی تھی لیکن معقول وسائل نہ ہونے کی بدولت زندگی بہت کٹھن تھی۔ مگر تنگدستی نے اس کے مزاج پر کوئی منفی اثر نہ ڈالا تھا۔ خوش مزاجی سے کام کرنا اس کی سرشت میں تھا۔ علی الصبح اٹھتی تھی۔ چھوٹے سے فلیٹ سے پیدل ریسٹورنٹ آتی تھی،کرسیوں اور میزوں کی بھرپور صفائی کرتی تھی۔ ریسٹورنٹ پورے سات بجے کھل جاتا تھا۔صبح کے وقت بہت کم لوگ ہی آتے تھے ۔ البتہ لنچ پر بہت رش ہو جاتا تھا۔ ایک اسی طرح کی صبح کو‘ ایک آٹھ نو سال کا بچہ‘ اپنا اسکول بیگ کمر پر لادے‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا ۔ خاموشی سے کونے کی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کھانے کا کوئی آرڈر نہیں دیا۔ جیسی نے اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھا۔ بچے نے آہستہ آہستہ پانی پیا ۔ آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر شائستگی سے اٹھ کر چلا گیا۔ پانی کا تو خیر کوئی بل نہیں تھا۔ مگر جیسی کو یہ بات عجیب لگی۔ اب ہونے یہ لگا کہ وہ بچہ سات بج کر پندرہ منٹ پر‘ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا تھا۔ جیسی اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھتی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی پیتا تھا اور آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر بیگ اٹھا کر چلا جاتا تھا۔ وہ اسکول یونیفارم میں ہوتا تھا اور جوتے بھی صاف دکھائی دیتے تھے۔ حلیہ سے وہ کوئی فقیر یا ہوم لیس معلوم نہیں پڑتا تھا۔ سات آٹھ دن ‘ اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن بچہ آیا۔ حسب معمول ‘ جیسی نے پانی کا گلاس سامنے رکا ۔ پھر کچن میں چلی گئی۔ وہاں سے اس نے پین کیک کا ناشتہ بنوایا۔ اور آرام سے بچے کے سامنے رکھ دیا۔ کہنے لگی، آج کچن میں کک نے ناشتہ زیادہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اسے ضایع کرنے کے بجائے ‘ وہ اس کے سامنے رکھ رہی ہے۔ اور اس کا کوئی بل نہیں ہو گا۔ جیسی اور بچے کی آنکھیں چند سیکنڈ کے لیے ٹکرائیں تو اس معصوم کی آنکھوں میں احساس تشکر تھا۔ ناشتہ رکھ کر جیسی چلی گئی۔ دانستہ طور پر بچے کو بالکل نہیں دیکھا۔ بچے نے آرام سے ناشتہ کیا۔ اور مقرر وقت پر اٹھ کر چلا گیا۔ یہ سلسلہ دو تین دن چلتا رہا۔ بچہ ‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں آتا تھا۔ جیسی اس کے لیے پین کیک کا ناشتہ بناتی تھی۔ اور پھر وہ کھا کر حد درجہ تہذیب سے واپس چلا جاتا تھا۔ ریسٹورنٹ کا منیجر اس سارے واقعے کو روزانہ دیکھتا تھا۔ تیسرے دن جیسی کو بلایا ۔ کہا کہ یہ ہوٹل کوئی یتیم خانہ نہیں ہے۔ جہاں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہو۔ تم کس طرح ‘بچے کو فری ناشتہ کرا رہی ہو۔ جیسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک دم‘ منیجر سے کہا‘ ناشتہ کے پیسے وہ ٹپ سے ادا کرے گی۔ اس سے ریسٹورنٹ کو کوئی مالی نقصان نہیں ہو گا۔ منیجر حیران رہ گیا۔ کیونکہ جیسی کے اپنے مالی حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ وہ ایک سستے سے فلیٹ میں رہتی تھی۔ بہرحال منیجر نے جیسی کو اجازت دے دی۔ کہ وہ بچے کو ناشتہ بنا کر دے اور پیسے اس کی ٹپ میں سے کاٹ لیے جائیں گے۔ منیجر کو فکر یہ تھی کہ ہوٹل بس گزارے لائق منافع بنارہا ہے۔ لہٰذا جیسی قطعاً زیادہ عرصہ ‘ مفت ناشتہ‘ اپنی ٹپ میں سے ادا نہیں کر سکتی۔ مگر منیجر غلط سوچ رہا تھا۔ پورے تین ماہ‘ یہ واقعہ ‘ مسلسل ‘ روز کی بنیاد پر ہوتا رہا۔ بچہ ٹھیک سوا سات بجے آتا اور آٹھ بجنے سے پہلے اٹھ کر چلا جاتا۔ جیسی کو اس معصوم لڑکے کو ناشتہ کرانے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ پھر یکدم یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ٹھیک نوے دن کے بعد‘ بچے نے آنا بند کر دیا۔ جیسی‘ سات بجے حسب معمول اس کا انتظار کرتی ۔ اس کی مخصوص ‘ کونے والی میز پر پانی رکھتی۔ اور تھوڑا سا ناشتہ بھی بنا کر رکھ دیتی۔ مگر ٹیبل خالی رہتی۔ منیجر اس کا مذاق اڑاتا کہ وہ بچہ دراصل ایک فقیر تھا جو تمہیں بے وقوف بنا کر چلا گیا۔ خیر جیسی کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اسی طرح بچے کے لیے ٹیل مخصوص رکھتی۔ ایک دن کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ چار کالی گاڑیاں ہوٹل کے سامنے رکیں ۔ ان پر امریکی حکومت کی سرکاری نمبر پلیٹیں لگی ہوئی تھیں۔ ان میں سے دس بارہ فوجی باہر نکلے ۔ اورہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سارے گاہک ‘ انھیں غور سے دیکھ رہے تھے۔ ایک سینئر افسر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے سینے پر متعدد تمغے لگے ہوئے تھے۔ حد درجہ شائستگی سے منیجر سے پوچھا کہ جیسی کون ہے؟ جیسی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ اس کا گلہ خشک ہو گیا۔ ان فوجیوں کا اس سے کیا کام ہے؟ آفیسر نے اپنا تعارف کرایا کہ میں امریکی اسپیشل فورسز کا کرنل ہوں۔ میرا نام رابرٹ کنڈل ہے۔ جیسی اس کے سامنے گئی۔ کرنل نے اسے غور سے دیکھا۔ اور ایک خط ہاتھ میں تھما دیا۔ کہنے لگا کہ یہ خط‘ سارجنٹ ڈیوڈ نے افغانستان سے لکھا ہے۔ اور وہ ایڈم کا والد ہے۔ افغانستان کی جنگ میں ڈیوڈ مارا گیا۔ اورمرنے سے پہلے ‘ اس نے یہ خط اپنے کمانڈنگ افسر کے ہاتھ میں دیا۔ کہ اگر میں مارا جاؤں تو یہ مراسلہ‘ کینس شہر میں‘ ڈائنر ریسٹورنٹ میں جیسی نامی ویٹرس کو دے دیں۔ جیسی کے سامنے کرنل نے خط پڑھ کر سنایا۔ درج تھا ۔ میں ایڈم کا والد ہوں۔ اور امریکی اسپیشل سروسز گروپ میں کام کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں جنگ پر روانہ ہوا۔ تو میری بیوی ‘ ایڈم کو چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس کے پاس حد درجہ محدود پیسے تھے۔ وہ صبح اسکول جانے سے پہلے‘ آپ کے پاس ناشتہ کرتا تھا ۔ اور رات کو بس روکھی سوکھی کھا کر سو جاتا تھا۔ ایڈم نے چند دن پہلے ‘ یہ سب کچھ بتایا ۔ اب وہ اپنے داد دادی کے پاس کیلیفورنیا چلا گیا ہے۔ جیسی ! میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خط پڑھ کر جیسی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ریسٹورنٹ میں موجود فوجیوں نے جیسی کو تعظیمی سلیوٹ کیا۔ اور واپس چلے گئے۔ یہ واقعہ کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ یہ قصہ پوری دنیا میں وائرل ہو گیا۔ اب ہوا یہ ‘ کہ امریکی فوج کا جو بھی افسر یا سپاہی ‘ کینسس شہر کے قریب سے گزرتا۔ وہ جیسی کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے ضرور آتا۔ شہر میں جتنے بھی ریٹائر فوجی تھے۔ وہ تمام اب اس جگہ ناشتہ اور کھانا کھانے آتے تھے۔ ریسٹورنٹ کی آمدنی پہلے سے دگنی ہو گئی۔ جیسی معمول کے مطابق کام کرتی رہی۔ ایک دن‘ ریاست کا گورنر آیا۔ اس نے جیسی کو بلایا۔ اس کی مہربانی کا شکریہ ادا کیا ۔ اور اس کے نام کا ایک سکہ اور خط ‘ اس کے حوالے کیا۔ ریسٹورنٹ گاہکوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب نے کھڑے ہو کر جیسی کے احترام میں تالیاں بجائیں ۔ گورنر کے عملے نے اسے سلیوٹ کیا۔ اور اسے ریاست کی بیٹی قرار دے دیا۔ ہوٹل کے مالک نے ریسٹورنٹ کا نام ہی تبدیل کر ڈالا ۔ نیا بورڈ لگایا کہ یہ جیسی کا ریسٹورنٹ ہے۔ جیسی پورے شہر بلکہ ملک میں بے غرض نیکی اور مہربانی کا نشان بن گئی۔ معاشرے‘ ریاستی اداروں‘ شہریوں اور نظام نے جیسی کو ایک خوبصورت مثال قرار دے دیا۔ وہ ایک دیومالائی کردار بن گئی۔ گزارش کرنے کا مقصد بالکل سادہ سا ہے۔ بے غرض نیکی کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمارے معاشرے میں‘ اکثر لوگ اچھے کاموں کو اپنی شخصیت کے مثبت پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی جائیداد میں سے ایک ٹکہ بھی عام لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ نہیں کرتے۔ مگر چندہ مانگ کر اسکول‘ کالج اور درسگاہیں بناتے ہیں۔ لوگوں میں دیوتا بننے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔ ان کے نیک کام اچھے لگتے ہیں مگر وہ صرف اپنے قد کو بلند دکھانے میں کام آتے ہیں۔ بلکہ حقیقت میں ‘ دوسروں کو چھوٹا دکھانے کی شعوری کوشش ہوتی ہے۔ طالب علم اس طرح کے کج ادا لوگوں سے کوسوں دور رہتا ہے۔ ذہن میں صرف ایک خیال پختہ ہے۔ کہ اصل نیکی کسی بھی صلہ اور تمنا کے بغیر ہوتی ہے اور بے غرض نیکی کبھی بھی ضایع نہیں جاتی۔ جیسی کینسس شہر کی پہچان بن چکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت لوگ نیکی کو بے غرض نہیں بلکہ غرض سے ادا کرتے ہیں۔ مشورہ ہے کہ آپ خود‘ اپنی مرضی سے چھوٹے یا بڑے فلاحی کام کریں۔ ادنیٰ سماجی قزاقوں سے دور رہیں۔ یقین فرمائیے۔ قدرت خود آپ کا ہاتھ پکڑ کر‘ آپ کے لیے عزت کے راستے بنائے گی!

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل