Loading
وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے زرعی شعبے کو تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوارکرنا ناگزیر ہے، اسی سلسلہ میں ایک ہزار زرعی گریجویٹس کو ٹریننگ پر چین بھیجا جا رہا ہے، وطن واپس آکر ہمارے نوجوان زرعی ترقی میں بھرپورکردار ادا کریں گے۔ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو جی ڈی پی، روزگار اور غذائی تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہے تاہم ناکافی انفرا اسٹرکچر و سرمایہ کاری اور جدت پذیری کی کمی کی وجہ سے یہ شعبہ پسماندگی کا شکار ہے۔ بلاشبہ ایگری ٹیک میں نوجوانوں کی شمولیت کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھا کر وہ نہ صرف اپنا بلکہ پاکستان کی زراعت کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں کیونکہ جدید طریقوں سے پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ دراصل سبز انقلاب کی کنجی زرعی تعلیم کو جدید بنانے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقی اور معاشی خوشحالی کو فروغ دینے میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان میں سبز زرعی انقلاب لانے کی ملکی اور عالمی سطح پر مربوط کوششیں کی جارہی ہیں۔ زرعی شعبے کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرکے نہ صرف غذائی خود کفالت کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں بلکہ نوجوانوں کے لیے پرکشش کیریئر کے امکانات اور معقول اجرت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی معیشت میں اب اہم کردار آج کے نوجوان اور آنے والی نسلوں کا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زرعی ترقی کے بغیر ملک میں صنعتی ترقی ممکن نہیں کیونکہ صنعتوں کے لیے خام مال یہی شعبہ فراہم کرتا ہے۔ جس قدر عمدہ اور زیادہ خام مال فراہم ہوتا رہتا ہے اسی قدر صنعتی پیداوار اور ترقی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر زرعی پیداوار میں کمی کے باعث خام مال صنعتی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو صنعتیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہی وہ شعبہ ہے جس کے ذریعے کوئی بھی ملک زرِمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں زرعی آلات پر بھی ٹیکس نافذ ہے۔ جب کسانوں کے پاس جدید مشینری اور آلات ہوں گے تو وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ کسانوں اور زرعی محکموں کے پاس فصلوں کی صحت کے تجزیے کے لیے جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے بروقت اقدامات نہیں ہو پاتے۔ جدید زرعی طریقوں سے آگاہی اور سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار خاصی کم ہے۔ وزارت برائے قومی غذائی تحفظ، پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل اور زراعت کے صوبائی محکمے مربوط زرعی پالیسی ترتیب دیں جس میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کو ترجیح دی جائے۔ پائیدار معاشی نمو، غربت میں کمی اور تیز رفتار ترقی کے لیے زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا انتہائی ضروری ہے۔ ایسی پالیسیوں کے نفاذ کی ضرورت ہے جو زراعت میں تکنیکی ترقی، آبپاشی کے بہتر انتظام اور اعلیٰ معیار کے بیجوں و کھادوں کی فراہمی میں معاون ہوں، چھوٹے کسانوں کے لیے مالی اعانت میں اضافہ کیا جائے تاکہ پیداواری لاگت اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ اسی طرح برآمدات کو بڑھانے اور زیادہ محصولات کے لیے زرعی مصنوعات کی مارکیٹ تک رسائی کو بہتر اور قیمت کو مسابقتی بنایا جائے۔ زرعی شعبے کو ترقی دینا ناممکن نہیں ہے ضرورت بس اس جانب توجہ دینے اور ضروری اقدامات اٹھانے کی ہے، اگر حکومت حقیقی معنوں میں زرعی شعبے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور اس کو درست کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تو ہم نہ صرف ملکی ضرورت کے مطابق اناج اور دیگر اجناس پیدا کرسکیں گے بلکہ دوسرے ملکوں کو برآمد کرکے کثیر زرِ مبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔ زرعی شعبے کی ترقی سے کسان خوشحال ہوں گے۔ ملک میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ اس سے قبل اوورسیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف سید عاصم منیر نے کہا کہ برین ڈرین کا بیانیہ بنانے والے جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے، جب تک اس ملک کے عوام افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ درحقیقت اپنے خطاب میں آرمی چیف نے صائب باتیں کی ہے، اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ مارچ میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی مہینے میں ترسیلات زر 4 ارب ڈالرزکی حد عبورکرگئیں۔ مرکزی بینک کے مطابق ترسیلات زر میں سالانہ بنیاد پر 37.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، مارچ کے مہینے میں سب سے زیادہ رقم سعودی عرب سے 98 کروڑ ڈالر بھجوائی گئی، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات رہا جہاں سے پاکستانیوں نے 84 کروڑ ڈالرز سے زائد کی رقوم بھجوائیں، برطانیہ سے 68 کروڑ ڈالرز جب کہ امریکا سے اکتالیس کروڑ ڈالرز کی ترسیلاتِ زر ایک ماہ کے دوران موصول ہوئیں۔ یہ ٹرینڈز بتا رہے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں، وہ کسی سیاسی جماعت کے بانی کے کہنے پر بائیکاٹ مہم کا حصہ ہرگز نہیں بن سکتے، بلکہ وہ وطن کی محبت سے سرشار ہوکر ترسیلات زر اپنے ملک بھجواتے ہیں اور ملکی معیشت کے استحکام میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب فتنہ الخوارج، بلوچستان میں دہشت گردی، سوشل میڈیا کے غیر ذمے دارانہ استعمال، کشمیر اور غزہ پر دو ٹوک اور واضح گفتگو کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کو روشن مستقبل کی جانب بڑھنے سے نہیں روک سکتے۔ بلاشبہ جموں و کشمیر کا تنازعہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ہے اور رہے گا۔ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا حامی ہے، اس لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق، حق خودارادیت کے حصول تک ان کی غیر متزلزل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا اور اسی حمایت کا اعادہ آرمی چیف کے خطاب میں ہمیں نظر آیا ہے۔ درحقیقت کشمیری عوام کئی دہائیوں سے بھارتی جبرو استبداد کا سامنا کر رہے ہیں۔ حق خودارادیت کوئی رعایت نہیں بلکہ تسلیم شدہ بنیادی حق ہے جسے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے تسلیم کر رکھا ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، درحقیقت کشمیریوں کے آزادانہ اور منصفانہ حق رائے دہی کے ذریعے تنازع کشمیر کا حل ہی خطے اور دنیا میں امن کا واحد راستہ ہے ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں تمام تر انسانیت سوز مظالم کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبانے میں ناکام رہا ہے، ان کی صبح آزادی ضرور طلوع ہوگی۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ، جنرل عاصم منیر کا اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن میں دیا جانے والا خطاب نہ صرف بروقت تھا بلکہ اس میں قوم کی یکجہتی، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور ملکی ترقی کے حوالے سے ایک اہم پیغام بھی چھپا تھا۔ یہ خطاب وہ موقع تھا جب ملکی قیادت نے اپنے بیرونِ ملک مقیم شہریوں کے ساتھ روابط مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آرمی چیف نے واضح کیا کہ اوورسیز پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں جو نہ صرف مالیاتی امداد فراہم کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے عالمی تشخص کو بھی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ پاکستانی، بیرونِ ملک محنت کشی کرتے ہوئے اپنے وطن کی ترقی میں معاونت فراہم کرتے ہیں اور ان کے تجربات و مہارتوں کا فائدہ ملکی معیشت کو حاصل ہونا چاہیے۔ جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں ایک مضبوط اور واضح پیغام دیا کہ افواجِ پاکستان آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل اور ادارہ جاتی خود مختاری کے حامی ہیں۔ اس کا مقصد صرف سویلین اداروں کے کردار کو تقویت دینا ہے، تاکہ ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس خطاب نے ایک اہم سوال بھی اٹھایا ہے۔ کیا ہم نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایسے مؤثر اقدامات کیے ہیں جس سے وہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کریں اور تعلیمی و تکنیکی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں؟ جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں اپنے وطن میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے عملی مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ مختصر یہ کہ یہ خطاب صرف ایک تقریر نہیں بلکہ ایک عزم تھا، جس کا مقصد پاکستان کی ترقی کی راہوں پر قدم بڑھانا اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس عزم کو حقیقت کا روپ دیا جائے، تاکہ پاکستان کا مستقبل مزید روشن ہو۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل