Loading
مولانا فضل الرحمن ذہین اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں‘ دین کے علم کے حوالے سے تو بات کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ خاندانی پس منظر ہی دینی ہے اور ان کے نام کے ساتھ لگا ہوا مولانا کا لفظ ہی ان کے دینی علم کی گواہی ہے‘ میں ان کی سیاست پر بات کر رہا ہوں‘ ایک آدھ روز قبل میں ٹی وی اسکرین پر ان کی باتیں سن رہا تھا‘ انھوں نے افغان مہاجرین کے ایشو پر بات کی‘ سابقہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام پر اپنا موقف دہرایا اور افغانستان کے ایشو پر بات کی‘ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی نئی یا اچھوتی بات کی ہو‘ یہ مولانا صاحب اور ان کی جماعت کا پرانا موقف ہے۔ ان کی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے تاہم وہ جس انداز اور پیرائے میں اپنا موقف بیان کرتے ہیں‘ وہ بتاتا ہے کہ انھیں اپنی بات کہنے کا سلیقہ اور ہنر آتا ہے۔ ان باتوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک ایسی بات کی جس میں مجھے دلچسپی ہے‘ میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کو اپنے صوبے میں کاروبار اور کام کرنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے صوبے میں کام کریں گے تو ان پر یہاں کے قوانین لاگو ہوں گے۔ ان کی یہ بات یا مشورہ بالکل درست اور حالات کے عین مطابق ہے۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کو بزرگوں کی نصیحت سمجھنا چاہیے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کیوں پسماندہ ہیں‘ معاشیات کی رو سے اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں‘ مثال کے طور پر ان صوبوں کے پاس کیپیٹل یعنی سرمائے کی کمی ہے‘ سرمایہ اس لئے کم ہے کہ یہاں غربت زیادہ ہے‘ غربت اس لئے زیادہ ہے کہ لوگوں کے پاس روز گار نہیں‘ اس کی وجہ تعلیم نہ ہونا اور ہنرمند نہ ہونا کہی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر نہ ہونا بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی اشرافیہ کا حجم دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ان صوبوں کے لوگوں کے پاس سرمائے یا کیپیٹل کی کمی نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی اشرافیہ کے پاس بہترین تعلیم بھی ہے اور دولت بھی ہے۔ انفراسٹرکچر کی صورت حال دیکھیں تو تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان صوبوں میں شاہراہیں اور انٹرلنک روڈز موجود ہی نہیں ہیں‘ ان علاقوں میں بہترین سڑکیں موجود ہیں‘ یہاں کے نوجوان پڑھے لکھے بھی ہیں اور ہنر مند بھی ہیں۔ یہ نوجوان کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد میں بہترین کام کر رہے ہیں اور کاروبار بھی کر رہے ہیں‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ قطر اور کویت وغیرہ میں یہاں کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ امریکا‘ یورپ ہی نہیں بلکہ افریقہ اور تھائی لینڈ ملائیشیا وغیرہ میں بھی ان صوبوں کے لوگ کام کرتے ہیں‘ اس کے باوجود اگر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں یا اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں ترقی اور خوشحالی کی سطح وہ نہیں ہے جو وسطی پنجاب اور کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد راولپنڈی میں نظر آتی ہے تو اس کی وجہ میری نظر میں وہ ہے جس کی طرف مولانا فضل الرحمن نے اشارہ کیا ہے بلکہ واضح کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے لوگ اپنے صوبے میں کام اور کاروبار کریں۔ آج اوور سیز پاکستانیوں کے بھیجے گئے زرمبادلہ کی جو بات ہو رہی ہے‘ غور کیا جائے تو یہ سارا سرمایہ ان اوور سیز پاکستانیوں کا ہے جن کا تعلق زیادہ تر پنجاب کے شہروں اور قصبوں سے ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے یہ پاکستانی اپنا سرمایہ لاہور‘ اسلام آباد‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ میں کیوں انویسٹ کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ تو یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ اوور سیز پاکستانیوں کے آبائی شہر ہیں۔ یہاں ان کے لئے اجنبیت نہیں ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے سرمایہ کار بھی اپنا کاروبار لاہور اور کراچی میں کرتے ہیں‘ اسی طرح بلوچستان کی اشرافیہ کی سرمایہ کاری بھی کراچی یا خلیجی ملکوں میں نظر آتی ہے‘ ایسا کیوں ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔ میری ناقص عقل کے مطابق تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ پنجاب اور کراچی میں اپنے سرمائے کو اپنے آبائی علاقوں کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں‘ ان کے کاروبار کو قانونی تحفظ بھی ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی قدرے بہتر ہے۔ ایک اہم وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ پنجاب خصوصاً وسطی و شمالی پنجاب اور کراچی میں مڈل کلاس کا حجم بہت زیادہ ہے‘ مڈل کلاس ہی خرچ کرتی ہے‘ مڈل کلاس کے لوگ ہی ریستورانوں اور کیفیز میں بیٹھتے ہیں‘ پارٹیز کرتے ہیں‘ شادی ہالز اور ہوٹلز میں شادی کی تقریبات منعقد کرتے ہیں‘ مختلف تہواروں کی رنگا رنگی بھی ان ایریاز میں ہوتی ہے جہاں مڈل کلاس کا حجم زیادہ ہوتا ہے‘ آج بھارت کی شرح ترقی اس لئے بڑھ رہی ہے کہ وہاں مڈل کلاس کا پھیلاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے‘ مڈل کلاس بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب لوگوں کی قوت خرید بڑھتی ہے تو بازاروں میں کاروباری گہما گہمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روپے کی شرح تبادلہ بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص ہزار روپے کا بل ادا کرتا ہے تو یہ دوسرے کی آمدنی بن جاتا ہے‘ وہ شخص اپنے ہزار روپے سے کوئی اور چیز خریدتا ہے تو یہ تیسرے شخص کی آمدنی بن جائے گی‘ یوں اگر ایک ہزار روپیہ دس لوگوں کے پاس آتا اور جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہزار کے نوٹ نے دس ہزار کا بزنس کیا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خرچ کرنے والی مڈل کلاس موجود نہیں ہے‘ یہی ان صوبوں کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے قوم پرست سیاستدان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ کراچی پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میں پشاور سے زیادہ پختون آباد ہیں‘ ان کی یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اس کا ایک دوسرا مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کا وہ طبقہ جو کاروبار کر سکتا ہے‘ جو ہنر مند ہے‘ جو تعلیم یافتہ ہے اور جس کے پاس سرمایہ ہے‘ وہ اپنے صوبے سے باہر ہے‘ اگر یہی سرمایہ خیبرپختونخوا میں لگتا تو یہاں بھی مڈل کلاس کا پھیلاؤ ہوتا‘ مڈل کلاس بڑھتی تو پشاور ہی نہیں بلکہ مردان‘ چار سدہ‘ کرک‘ بنوں اور کوہاٹ جیسے شہروں میں بھی ریستورانوں اور کیفیز کی انٹرنیشنل چینز خود بخود کاروبار کرنے وہاں پہنچ جاتیں‘ میں خیبرپختونخوا کے کئی شہروں میں گیا ہوں‘ سچی بات ہے مجھے نوشہرہ‘ صوابی ‘ مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کاروبار کرنے کے وسیع اور منافع بخش امکانات نظر آتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہی ہے کہ ان شہروں میں مڈل کلاس نہ ہونے کے برابر ہے۔ صوبائی حکومتیں اسمال بزنس کی حوصلہ افزائی کریں‘ پنجاب اور کراچی کے سرمایہ کاروں کو مراعات اور ترغیب دیں‘ ان کے سرمائے کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے‘ امن و امان بہتر کیا جائے تو آنے والے برسوں میں خیبرپختونخوا کے یہ شہر بزنس حب بن سکتے ہیں۔ان میں پوٹینشل موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بہت پتے کی بات کی ہے۔ میں تو وفاقی حکومت سے بھی کہوں گا کہ وہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کاروبار کرنے والوں کو خصوصی پیکیج دے‘ ان صوبوں کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ کاروباری ترقی کریں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل