Loading
خطہ ہند میں ہر علاقے کے عوام وخواص نے اردو کی تشکیل واِرتقاء میں اپنی اپنی جگہ بہت اہم کردار اَدا کیا ہے۔ دیگر مختلف مقامات کی طرح وادی کشمیر بھی اردو کا گہوارہ رہی اور رہے گی۔ وادی جمّوں وکشمیر (آزادو مقبوضہ) کے قدیم باشندے اپنی زبانوں کشمیری، ڈوگری، پہاڑی، پوٹھوہاری، گوجری اور ہندکو (نیز نسبتاً کم بولی جانے والی دیگر زبانوں) سے کہیں زیاد ہ، اردو سے پیار کرتے ہیں اور اِس بات کا ثبوت ہے پچھلے کوئی دو سو سال میں تخلیق کیا جانے والا اردو ادب۔ بنیادی نکتہ وہی ہے کہ اردو کے فروغ میں ریاست کی سرکار سے بہت پہلے، صوفیہ وعلمائے کرام، تاجروں اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور پھر عوام النّاس نے اس باب میں شعوری یا غیرشعوری کاوش کی۔ موضوع یقیناً دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع ووقیع ہے اور بندہ فقط اپنی بساط بھر کوشش ہی کرسکتا ہے کہ اس بارے میں قارئین کرام کو اُس مواد سے رُوشناس کرے جو متعدد کتب اور بعض ویب سائٹس کی زینت ہے، مگر بوجوہ ہر ایک کی رسائی یا توجہ سے محروم ہے۔ کشمیر میں اردو کی پرورش، وہاں کی مقامی زبانوں کشمیری، ڈوگری، گوجری، پہاڑی، پوٹھوہاری، ہندکو ودیگر سے تعلق قائم ہونے سے ممکن ہوئی، ویسے بنیادی طور پر ریاست جمّوں وکشمیر میں کشمیری اور دیگر زبانوں کی جڑوں میں سنسکِرِت اور ہندی شامل ہے، وہی اردو کی بنیادوں میں بھی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کی تقریباً تمام زبانیں ہم رشتہ یا بہنیں ہیں۔ اشوک اعظم کے عہد میں جب بُدھ مت کشمیر میں آیا تو سنسکِرِت بھی یہاں خوب پھلی پھُولی اور یہاں مذہبی کتب، بجائے پالی کے سنسکرت میں لکھی گئیں۔ اُس دور میں فقط مذہب ہی نہیں بلکہ مختلف موضوعات پر سنسکرت زبان میں کتابیں لکھی گئیں۔ پنڈِت کلہن کی ’’راج ترنگنی‘‘ کو سب سے زیادہ شہرت ملی جو 1100ء میں لکھی گئی۔ آٹھ حصص پر مبنی یہ کتاب بادشاہوں کا مفصل تاریخی تذکرہ ہے جس کی تصنیف میں پنڈت موصوف نے بہت عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ کشمیر میں اردو کے نثری سرمائے کی اوّلین کتاب ’’گلدستہ کشمیر۔تواریخِ کشمیر‘‘ ہے جو پنڈِت ہرگوپال خستہ ؔ کا کارنامہ ہے۔1877ء میں مکمل ہونے والی اس کتاب کی اشاعت بھی یقیناً جبھی ہونی چاہیے تھی، مگر(بقول ایک کشمیری محقق) نمعلوم وجوہ سے یہ اہم کتاب 1983ء میں لاہور سے منصہ شہود پر آئی۔ (بطور محقق مجھے اس بیان کی صداقت پر شک ہے، بہرحال یہ لکھا ہوا پایا تو نقل کردیا۔ کشمیری احباب توجہ فرمائیں)۔ انیسویں صدی کے نصف اواخر میں اردو شاعری بھی کشمیر میں راہ پانے لگی تھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے تقریباً ساتھ ساتھ ہی کشمیر میں باقاعدہ اردو شعراء منظرعام پرآنے لگے۔ ان میں اوّلین نام کِشتواڑ کے محی الدین محیؔ کا ہے۔ اُن کے بعد سید عنایت الدین، بہاؤالدین بھائی، عبدالرحیم اعماؔ، عبدالغفار احقرؔ اور منشی نصراللّہ جیسے صاحبِ طرز شعراء نے نام کمایا۔ بعد کے شعراء میں غلام رسول کامگار، سید غیاث الدین ، رساؔ جاودانی، عشرت کاشمیری، نشاط کشتواڑی، کشمیری لال روپؔ اور رانا گوپال سنگھ قابل ذکر ہیں۔ (اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی ذکر کردوں کہ کشتواڑ، کشمیر کے راجاؤں محمد تیغ سنگھ اور عنایت اللّہ سنگھ سے ایسا اردو کلام منسوب کیا جاتا ہے جو اَمیر خسرو سے منسوب کلام خصوصاً پہیلیوں سے مماثل ہے۔ اس باب میں تحقیق ابھی تشنہ ہے)۔ وادی میں اردو شاعری کا اوّلین دور اُنیسویں صدی کے نصف آخر سے اوائل بیسویں صدی تک ہے۔ اس دور کے شعراء کا ذکر ’بہارِ گلشن ِ کشمیر‘ میں موجود ہے۔ وادی جمّوں کو بائیس حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا جس میں بھدرواہ کا علاقہ ہندو اکثریت اور کشتواڑ کا علاقہ مسلم اکثریت کا حامل تھا۔ 1750ء میں ان دونوں کو جمّوں میں یکجا کرکے شامل کیا گیا، تب تک یہاں دو متوازی دھارے چل پڑے تھے۔ ایک طرف سنسکرت کا ماحول تھا تو دوسری طرف فارسی کا۔ کشتواڑ، بانہال اور ڈوڈہ میں فارسی ادب کی تخلیق پر بطور خاص توجہ دی گئی۔ تحقیق بتاتی ہے کہ وادی چناب میں شمالی ہند سے بھی قبل ، سنسکرت اور فارسی کا چلن تھا۔ ِبغورجائزہ لیا جائے تو کشمیر میں صدیوں تک ایرانی نژاد اور افغان حکمرانوں کی حکومت کی وجہ سے ایک طرف وادی کشمیر میں فارسی بطور سرکاری زبان (1924ء تک) رائج رہی تو دوسری طرف جمّوں میں ڈوگری کا رِواج رہا جو اپنی اصل میں کسی نہ کسی طرح، پنجابی اور اُردو سے قریب ہے۔ ڈوگری کو عوام وخواص میں یکساں مقبولیت نہ ملی تو 1888ء میں جمّوں کی عدالتی زبان اردو قرار پائی جبکہ کشمیر کو اِس ضمن میں شامل نہ کیا گیا جہاں اردو کا چلن پہلے ہی بہت زیادہ تھا۔ یوں زبانوں کے ارتباط سے اردو کے فروغ کی راہ نکلی۔ پہلے تو فارسی اور اردو کے درمیان ربط ضبط پھر ڈوگری سے ملاپ نے اردو کے ریاست میں چلن کے اسباب مہیا کیے۔ کشمیر نے فارسی زبان وادب کی اس قدر خدمت کی کہ اِسے ’ایرانِ صغیر‘ کہا جانے لگا، بقول اقبالؔ: آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور و اَسِیر کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ’ایرانِ صغیر‘ (ارمغان ِ حجاز) علماء و صوفیہ کرام نے ایران سے کشمیر تشریف لاکر یہاں اسلام کی دعوت عام کی۔ ان میں سیدشرف الدین بلبل شاہ، امیر کبیر سید علی ہمدانی، امیر کے فرزند میر محمد شاہ ہمدانی ودیگر شامل تھے۔ کشمیریوں کے رہن سہن پر ایرانی اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ لباس میں پھرن (پیرہن: کُرتہ، قمیض)، عمامہ، جبّہ، قبا، کھانوں میں چاول، کُلچہ اور گوشت کے مختلف پکوان، فنِ تعمیر میں مساجد کے ایرانی طرز کے مینار، آلاتِ مُوسیقی میں رَباب، سنتور اور تمکناری، خطّاطی اور مصوّری میں بھی ایرانی اسلوب کی چھاپ نظر آتی ہے۔ ’’کشمیر میں فارسی کو ایسی ہمہ گیری حاصل ہوچکی تھی کہ کشمیر کے پنڈِتوں نے بھی اِسے علمی اور اَدبی زبان کے طور پر اختیار کرلیا اور تحریروتقریر دونوں میں ایسا قابو حاصل کرلیا تھا کہ اُس زمانے کے کسی ایرانی کو بھی، اس لحاظ سے اہلِ کشمیر پر تَفّوق نہیں رہا تھا۔ اسی لیے اہل ِ ایران کے یہاں، کشمیر ’ایرانِ صغیر‘ کہلانے لگا تھا‘‘۔ (’کشمیر میں فارسی ادب کی تاریخ‘ از عبدالقادر سروری) کشمیر کے اوّلین مبلغ ِاسلام سیدعبدالرحمن شرف الدین بلبل شاہ، سُہرَوَردی تُرکستانی صوفی تھے جن کی تبلیغ سے کشمیر کا بادشاہ رنچن (Rinchan Shah) مسلمان ہوگیا تھا اور اُس نے صدرالدین کے لقب سے کشمیر پر حکومت کی تھی۔ وہ 1324ء میں اپنے مُرشد میر سید نعمت اللّہ کے حکم پر کشمیر تشریف لائے۔ حضرت کے ہاتھوں کم وبیش دس ہزار افراد مسلمان ہوئے تھے۔ بعدازآں شاہ میر سلطان شمس الدین نامی بادشاہ نے سلسلہ شاہ میری کی بنیاد رکھی۔ ایک عرصے بعد جب شاہ ہمدان میر سید علی کبیر ہمدانی کشمیر آئے تو ایک مرتبہ پھر بُدھ مت کے پیروکاروں کا غلبہ ہوچکا تھا اور ایسے میں حضرت نے وہاں اسلام پھیلایا۔ یہاں ایک دل چسپ روایت کا بہ یک وقت ایران اورکشمیر میں سینہ بہ سینہ نقل ہونا بھی توجہ چاہتا ہے۔ شیراز سے چالیس مِیل دور واقع ’تخت ِ جمشید‘ نامی مقام ہخامنشی بادشاہوں کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں نامور ایرانی حکمراں جمشید کا ہوا میں تیرتا ہوا تخت اُترا تھا۔ بالکل اسی طرح، سری نگر (کشمیر) میں ایک حکایت ملتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تخت یہاں اُترا اور اُنہی کے حکم سے سری نگر آباد ہوا تھا۔ شیراز کے نواح میں ’باغ ِ ارم‘ یا ’باغ ِسلیمان‘ نامی مرغ زار ہے تو سری نگر کے نواح میں بھی ’باغ ِ سلیمان‘ ہے۔ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید عرفانی کی کتاب ’ایرانِ صغیر‘ کا موضوع کشمیر کے فارسی شعراء کا مرقّع ہے۔ ایران اور کشمیر کے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں۔ فصیحی نے ’مجمل التواریخ‘ میں لکھا ہے کہ بہمن بن اسفند یار کیانی نے کشمیر کے بادشاہ صورنائی کی بیٹی کسایوں سے شادی کی تھی۔ تیسری صدی عیسوی میں مشہور مصوّر مانی کشمیر آیا تو اُس کی تبلیغ کے نتیجے میں اُس کا مذہب ترکستان، تبّت اور چین تک پھیل گیا اور اسی اثناء میں مانی کا مذہب کشمیر میں بھی عام ہوا۔ ہرچند کہ مانی کے معاملے میں سید محمد علی جمال زادہ اور احمد افشار شیرازی کی تحقیق سے فصیحی کی بات صحیح ثابت نہیں ہوئی، بہرحال یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ساسانیوں کے عہد حکومت میں ایران اور کشمیر کے مابین روابط قائم تھے۔ ایک ضمنی نکتہ یہ ہے کہ ساسانی عہد کے مجسموں سے مشابہ گوتم بُدھ کا مجسمہ سری نگر کے قریب پایا گیا ہے۔ سنسکِرِت کی مشہور کتاب ’پنج تنتر‘ کسی کشمیری نے لکھی تھی جسے خسرو اَنوشیرواں ساسانی کا ندیم (خاص مصاحب) برزویہ حکیم، کشمیر سے ایران لے گیا اور پھر دنیا کے سامنے ’کلیہ ودمینہ‘ جیسا شاہکار آیا۔ ایران سے کشمیر آنے والے شعراء میں عُرفی، شاپور تہرانی، قُدسی، رضی دانش، سلیم تہرانی، صائب تبریزی ،مُلّا طُغرامشہدی، کلیمؔ اور مِیرالٰہی ہمدانی کے ہم پلّہ قرار دیے جانے والے مقامی فارسی شعراء میں محسن فانی، غنی کشمیری جویا ، مشتاق، ساطع اور شیخ یعقوب صرفی شامل ہیں۔ محسن فانی اور صرفی کو ’جامع ِکمالات‘ قراردیا گیا ہے۔ شیخ یعقوب صرفی ایک صوفی، سیاح ، خمسہ نگار اور نغز گو شاعر تھے جنھوں نے تاجکستان اور ایران کی سیاحت کی اور ایران کے شاہ طہماسپ صفوی کو اپنا گِرویدہ بنالیا۔ صرفی کو ’جامی ثانی‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ کشمیر کے شاہ مِیری اور چک سلاطین نے ایران سے دوستی کا رشتہ خوب نبھایا۔ مؤخر الذکر نے ایران کے حکمراں صفوی خاندان کے ہم مذہب یعنی شیعہ ہونے کے سبب بھی تعلقات مضبوط کیے۔ میرزا حیدر دوغلات نے کشمیر میں ایرانی وترکی آداب کو فروغ دیتے ہوئے ایرانی طرز کے باغات، حمام اور مسافر خانے بنوائے ، نیز مدارس کی تعداد میں اضافہ کیا۔ مغل تاجدار ہمایوں کے اخیر عہد میں شیعہ مذہب اور ایرانی اثرات کا سلسلہ عام ہوا تو کشمیر میں سب سے زیادہ نقوش مرتب ہوئے اور پھر اکبر کے عہد میں کشمیر مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گیا۔ 1753ء تا 1819ء افغان تسلط کے دور میں کشمیر کئی اعتبار سے انحطاط کا شکار ہوا، مگر فارسی زبان وادب کو اس سے فرق نہیں پڑا۔ سکھّا شاہی (1819ء تا 1846ء) اور ڈوگرہ ہندو راج (1846ء تا 1947 ء) میں بھی فارسی اور ایرانی کے اثرات برقرار رہے اور ’شاہنامہ فردوسی‘ لحن سے پڑھنے والے، نیز فارسی شعر کہنے والے باقی رہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے فارسی کو سرکاری زبان قراردیا مگر عوام کی سطح پر اردو کو مقبولیت حاصل رہی اور اکثر سرکاری دفاتر میں بھی اردو ہی کا رواج رہا۔ فارسی کے دور میں یہاں کے مقامی شعراء اور اُدَباء نے فارسی زبان کی بہت خدمت کی۔ فارسی کے کشمیری شعراء کی طویل فہرست میں یوسف شاہ چک (1545ء تا 1592ء)،غنی کاشمیری( 1630ء تا 1669ء)، محمودگامی (1765ء تا 1855ء )، مقبول شاہ کرلاواری (Maqbool Shah Kralawari)(1820ء تا 1876ء)، زندہ کول(1884ء تا 1965)، مہجور (1887ء تا 1952ء)،پیر عبدالقادر آثم، میر غلام رسول نازکی (1910ء تا 1998ء)، سید مبارک شاہ فطرتؔ، سید شمس الدین غمگینؔ، سرخوش ؔکشمیری، تنہا انصاری (1914ء تا 1969ء)، محی الدین Hajni(1917ء تا 1993ء)، غلام نبی فِراق (1927ء تا 2016ء)، راشد نازکی (1931ء تا 2016ء)، خواجہ محمد اَمین دَاراب (متوفیٰ1979ء)، ایاز رسول نازکی، رفیق راز اور ارنی مل کے نام شامل ہیں۔ دَارابؔ نے وزیراعظم پاکستان، شہید ِ ملت لیاقت علی خان کی شہادت پر ایک پُرسوز مرثیہ کہہ کر پاکستان ارسال کیا تھا۔ انھیں جدید دورمیں کلاسیکی طرز کا فارسی شاعر مانا گیا۔ وہ ایران کے نامور شعراء اور علامہ اقبال کی زمینوں میں شعر کہا کرتے تھے، جبکہ انھوں نے اقبال کی ’زبورعجم‘ کا جواب بھی لکھا تھا۔ ان سے قبل شیخ محمد ایوب نے ’نوائے فردا‘ لکھ کر یہی کارنامہ انجام دیا تھا۔ کشمیریوں کے فارسی اور ایران سے قلمی روابط کے ضمن میں تحقیقی مقالات کی تحریر بھی قابل ذکر ہے۔ ان مقالات کے موضوعات میں ظفرخان احسنؔ ، خمسہ سرایانِ پارسی (فارسی) درکشمیر، غزل سرایانِ پارسی درکشمیر، ادبیات ِ فارسی درعہد ِسلاطین ِ شاہ میری اور مشتاق کشمیری پر پی ایچ ڈی کا مقالہ شامل ہے جو شمس الدین احمد نے تہران یونیورسٹی کے لیے 1965ء میں تحریرکیا۔ غنی کاشمیری وہ مشہور شاعر ہے کہ جس کا ایک واقعہ یارلوگوں نے خواہ مخواہ اپنے میرؔ صاحب سے منسوب کردیا۔ ایک مرتبہ وہ گھر کے باہر بیٹھے تھے اور دروازہ کھُلا چھوڑا ہوا تھا کہ کسی نے کہا کہ کہیں چور نہ گھُس جائیں۔ غنی نے کہا کہ اس گھر کا سب سے قیمتی اثاثہ تو مَیں خود ہوں، پھر چورکیا لے جائے گا۔ ریاست جمّوں وکشمیر میں اردو کو سرکاری، دفتری اور عوامی زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن وہاںبولی جانے والی سب سے بڑی زبان کشمیری یا کاشُر (انگریزی میں Koshur) ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد کا تخمینہ سا ت ملین کے لگ بھگ ہے۔ یہ ایک دردی۔ ہندآریائی زبان ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر قدیم پراکِرِت سے ہے اور اِس کی بنیاد میں سنسکِرِت کا حصہ بھی شامل ہے۔ ایک مصنف ڈاکٹر فیض قاضی آبادی نے انکشاف کیا کہ کسی زمانے میں کشمیر پر یہودیوں کی حکومت تھی ;یہی وجہ ہے کہ کشمیری میں بعض الفاظ عبرانی بھی شامل ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر یہ کہنا کہ کشمیری قدیم زبان سُریانی اور عبرانی سے نکلی، بالکل بے سروپا بات ہے۔ جمّوں میں ڈوگری کا غلبہ ہے، جبکہ پیر پنجال، جمّوں اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں مختلف بولیاں رائج ہیں۔ لیہ اور کارگِل میں تبّتی بولی جاتی ہے جو لدّاخ اور بلتستان کے کچھ حصوں میں بھی موجود ہے۔ لدّاخی اور اُردو کی مخلوط بولی بھی ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں پہاڑی، پوٹھوہاری، شِنا (صحیح تلفظ شِنڑا)، بروشسکی، پنجابی ، گوجری، بکروالی، براہوی اور ہندی کا رواج ہے، جبکہ بھدرواہی، پاڈری، کشتواڑی ، سراجی اور پوگلی جیسی مقامی بولیوں کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں میں پشتو بھی بولی جاتی ہے۔ جدید تعلیم کے طفیل انگریزی کا چلن بھی عام ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل