Loading
ٹرین سبک رفتاری سے چلے جا رہی تھی، شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ ’’یہ دریائے سندھ ہے۔‘‘ ’’یہ دریائے سندھ ہے لیکن یہ تو بہت چھوٹا سا ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں حیرت پنہاں تھی۔ دریائے سندھ کا پاٹ واقعی سکڑ کر بہت کم نظر آ رہا تھا، دور خشکی میں کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں، غالباً اپریل یا مئی کا مہینہ تھا۔ توقع سے زیادہ گرمی پڑ رہی تھی۔ بارش کا دور دور پتا نہ تھا۔ یہ ابھی چند برسوں پہلے کی ہی بات ہے۔ دریائے سندھ دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں اسکردو سے ہوتا ہوا ہندوکش سے ہوتا دریائے گلگت سے ملتا ہے پھر اس میں دریائے استور سے ہوتا اونچے پہاڑوں سے تربیلا کے مقام پر اسے تربیلا ڈیم کے ذریعے کنٹرول کیا گیا یہ آگے دریائے کابل سے ملتا کالا باغ تک جاتا ہے وہی کالا باغ جس کے ڈیم بنانے کے جھگڑے ہماری نسل ہوش سنبھالنے سے سنتی آئی ہے۔ یہ ایک طویل دریا ہے جو اپنے اندرکئی دریاؤں کو سموتا پہاڑوں، نشیبی میدانی علاقوں سے ہوتا بہتا چلا جا رہا ہے۔ مقامات بدلتے اس کے نام بدلتے جاتے ہیں پر یہ وہی تاریخی دریا ہے جس سے کئی کہانیاں منسوب ہیں۔ مذہبی تہوار، قبائل کے روایتی تہوار، محبت کی داستانیں، جنگیں اور بھی بہت کچھ لیکن ان دنوں یہ موضوع دوسری طرح کا ہے لیکن جو بھی ہے بات توجہ طلب ہے۔ بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق ہے، یہ شوق سائنس فکشن سے ہوتا جاسوسی کہانیوں تک پہنچ گیا اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے قلم چلتا رہا لیکن بچپن میں کچھ ایسا تھا کہ جس نے ایک ناول جوکہ بچوں کے لیے ہی تحریرکیا تھا، جس کا عنوان تھا ’’ واٹر بم۔‘‘ یہ الگ بات کہ ہر انسان بچپن میں اپنے آپ کو بڑا پرفیکٹ سمجھتا ہے لیکن یہ ایک ایسی حقیقت بھی ہے کہ جسے جھٹلانا مشکل ہے۔ پانی دنیا کے لیے ایٹم بم کی مانند ہوتا جا رہا ہے یہ شاید عجیب سا محسوس ہو لیکن آج ہم پینے کے پانی کی جس طرح بے قدری کر رہے ہیں تو وہ وقت قریب ہے کہ ہم خدانخواستہ کسی بری صورت حال میں گھر جائیں۔ یہ ایک مفروضہ ہے اور مفروضے جھوٹے بھی ہوتے ہیں کہ ہم ایسے حالات نہ پیدا کریں کہ ان مفروضات کو سچ کر دکھائیں۔ ہم بھی اپنے آپ کو ماہر قلم کار سمجھ کر لکھتے گئے لیکن شکر ہے خدا کا وہ ناول چھپ نہ سکا۔ ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے اندرکیا کمزوریاں ہیں، نقائص ہیں لیکن ان کو دورکرنا تو درکنار اس پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہمارے اداروں کی ناقص پالیسیاں۔ آج صرف شہرکراچی کو ہی اٹھا کر دیکھ لیں، کیا کچھ تبدیل ہوا ہے۔ کراچی کی پرانے زمانے کی ویڈیوز ملاحظہ فرما لیں، خود سمجھ میں آجائے گا کہ پہلے کے حالات کیسے تھے اور آج کیا ہیں۔ صفائی کے ناقص انتظامات تو ایک جانب بقول سوشل میڈیا کے مطابق نشہ کرنے والے ان افراد نے شہر کے پلوں، سڑکوں کے گرد حفاظتی باڑھوں کو نگلنے کے ساتھ اب برجز کے نیچے سے لوہے کے سریوں کو بھی نگلنا شروع کر دیا ہے۔ یہ موضوع اب دریائے سندھ کی مانند کہیں سے کہیں بہتا چلا جا رہا ہے کہ شکوے شکایات بہت۔ دریائے سندھ کے حوالے سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جو معاہدہ طے پایا تھا، کیا اس پر واقعی عمل ہو رہا ہے۔ انڈیا نے جن تیرہ پروجیکٹس پر کام شروع کر رکھے ہیں، کیا ان کی صحت پر کوئی اثر پڑا ہے کہ وہ رک کر نہیں دے رہے اور یہاں ہم آپس میں ہی ایک رکابی کی کھینچا تانی میں لگے ہیں۔ نہ تم بات کرو نہ ہم کچھ کہیں، والی کہانی میں کوئی صداقت ہے تو یہ کہ اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ باہر والے ہمارے بخیے ادھیڑنے پر لگے ہیں اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے پر تلے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں سے ہونے والے مسائل الگ سے سر اٹھا رہے ہیں۔ بھارت آگے بڑھ کر ترقی کی راہوں پر دوڑنا چاہتا ہے ،ایسا کرنے میں اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہے وہ بھی اندرونی خلفشاروں کا شکار ہے لیکن اپنے ملک کے وسائل کے لیے، ترقی کے لیے وہ ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ اندرونی مسائل پر ایک دوسرے سے تُو تکار چلتی رہتی ہے، ہنگامے شور اٹھ رہے ہیں، اقلیتی مسائل بے شمار ہیں، مسلمانوں کا جینا دوبھر لیکن اپنے ملک کی ترقی کے لیے وہ ایک ہوکر سوچ رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ تفصیل سے دیکھیں تو پانی کی صورت حال سندھ اور پنجاب کے درمیان کافی اونچ نیچ کا شکار نظر آتی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پانچ دریاؤں کا مالک آج پانی کے مسائل میں گھرا ہے، ہیڈ پنجند کے مقام پر دریائے چناب، ستلج، بیاس، جہلم اور راوی آ کر ملتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ دریائے راوی کے تصور سے ہی ایک خوبصورت تصور ذہن میں ابھرتا تھا آج دریائے راوی کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کبھی یہاں لاہور کی اشرافیہ چہل قدمی اور دوڑ لگایا کرتی تھی۔ پانیوں پر پہرے لگ جائیں تو وہ سڑ جاتے ہیں، تعفن و غلاظت کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ ہم اپنے اندر کے حالات کو سنوار نہیں سکتے تو بگاڑنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ انسانوں کو پینے کے پانی کی ضرورت ہے، یہ ان کا بنیادی حق ہے اسے سلب کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہمارے جیسے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک گھر کے مختلف حصوں میں رہتے اس انتہائی اشد ضروری نعمت پر اتنا واویلا کیوں؟ یہ بھی تو دیکھیں کہ ہمارے پانیوں پر باہر سے جن لوگوں نے نقب لگائی ہوئی ہے، اسے کیسے چھڑانا ہے۔ کسی ایک بندے کے سپرد اتنی اہم ذمے داری لگا کر نہ بیٹھیں، مل جل کر اس صورتحال کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ سیاست کرنے کے اور بھی مقامات ہیں، اس نعمت خداوندی پر شکر ادا کریں۔ جنوبی افریقہ کی جانب دیکھیں، پانی کی کمی نے کس طرح انسانوں کو مشکلات میں گھیرا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک پیش گوئی کے مطابق 2030 کی دنیا میں تازہ پانی کی طلب چالیس فی صد تک بڑھ جائے گی جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں، آبادی میں اضافہ اور انسانی رویوں میں تبدیلی بتائی گئی ہے۔ صاف پانی کی ہمارے ملک میں کمی نہیں لیکن اس کے محفوظ کرنے کے طریقے اور ذرائع میں کمی اور تکنیکی خرابیاں ہیں۔ شہری نظام میں سیوریج کے مسائل اس قدر ہیں کہ جس نے آبی وسائل کو پیچیدہ بنا دیا ہے جو اکثر مدغم ہو کر شہریوں کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ اس پر کہا جاتا ہے کہ پانی ضایع نہ کیا جائے، شہر میں ہر اضافی آبادی کا بوجھ بھی ان مسائل کو ہوا دے رہا ہے جو اپنی مرضی کے تحت سڑکوں کے ارد گرد گزرنے والے مین پانی کے پائپوں کو توڑ کر اپنے کام کرتے ہیں اب چاہے وہ بہتا ہوا ایک نالہ ہی کیوں نہ بن جائے، ایک بگڑی ہوئی ترتیب ہے جو اوپر سے لے کر نیچے تک چلی جا رہی ہے۔ آج سے برسوں پہلے ڈالی گئی ناقص سیوریج کا جال جو شاید کسی پلمبرکا ہی کارنامہ لگتا ہے شہر کی زبوں حالی اور پانی کی بربادی کا حال سناتا ہے۔ لہٰذا توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرکے پانی کے ضیاع کو روکیں۔ شہروں کی آبادی بڑھنے کے تناسب سے ان کے حصے مقرر کریں اور ایک ہو کر ان باہر کے بلّوں کو مار بھگائیں جو ہمارے گھر کے دودھ پر جھپٹا مارتے ہیں، ٹھیک ہے کہ بلّوں نے کچھ دے دلا کر کچھ وقت تو گزار ہی لیا، پر اب ہم نے تہیہ کرکے اپنے ملک کے لیے کام کرنا ہے کہ لڑنے جھگڑنے سے کچھ نہیں بنتا، بگڑ ہی جاتا ہے اور تیسرا حصہ ہڑپ کر جاتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل