Sunday, April 27, 2025
 

کچھ باتیں عام سی

 



آئیے! آج آپ کو رمضان چاچا کی کچھ باتیں بتاتا ہوں۔ تھے بوڑھے، لیکن ہمت اور حوصلہ کڑیل جواں تھا، کام ان کا سبزی بیچنا تھا، رہتے تنہا، چھوٹے سے کچے گھر میں تھے لیکن ارادوں کے کمال پکے تھے۔ یہ ارادہ اور عزم ہی تو تھا کہ کہتے تھے کہ مرتے مرجاؤں گا لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا منظور نہیں اور ہوا بھی ایسا ہی، حال ہی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ جب بیمار ہوئے تو سمجھ گئے تھے کہ اب وقت رخصت قریب ہے، تو انھی دنوں اپنے ایک نیک دل پڑوسی کو پیسے سپرد کرتے ہوئے یہ گزارش کی میرے کفن دفن کا انتظام اس رقم سے باآسانی ہوجائے گا اور اگر کچھ بچ جائیں تو قریب کی مسجد میں وضو خانہ زیرِ تعمیر ہے، اس میں ایصالِ ثواب کی نیت سے ملا دینا اور پھر بعد از انتقال، سارے انتظامات بھی باآسانی تکمیل پا گئے اور ایصالِ ثواب کی نیت بھی پوری ہوئی۔ رمضان چاچا جب سبزی بیچنے محلے میں آتے تھے تو اکثر سلام دعا ہوجاتی تھی، صوم صلوٰۃ کے پابند تو تھے ہی، زندگی سے جڑے دیگر معاملات کو بھی احکامِ شریعت کے تابع رکھنے کی ہر دم کوششوں میں مصروف رہتے تھے، ناجائز منافع خوری سے نفرت اور حصول رزق حلال کی کوششوں سے پیار تھا۔ ایک دن احمد کو اُن سے سبزی لیتے دیکھا اور بحث کرتے ہوئے بھی ( احمد میرے کزن عبیر کے بیٹے کا نام ہے، ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہیں ) احمد کو چاچا نے بتائے کسی سبزی کے 25 روپے تھے لیکن اس کا اصرار تھا کہ قیمت کم کر کے 20 روپے کردی جائے۔  رمضان چاچا اُسے بہت پیار سے سمجھا اور قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن اس کی بڑھتی تکرار تمام کوششوں کو بے سود کیے دے رہی تھی، پھر وہ کچھ دیر کو خاموش ہوئے اور احمد سے ایک گلاس پانی مانگا، گرمیوں کے دن تھے، سورج آگ برسا رہا تھا، احمد پانی لینے گیا تو انھوں نے جیب سے ( کئی جگہوں سے پھٹا) رومال نکالا، پسینا پوچھا اور کچھ دیر قریب بنے چبوترے پر بیٹھ گئے۔  پھر احمد پانی لے لایا، ٹھیلا چونکہ گھر کے بالکل سامنے تھا شاید اسی لیے، وہ ننگے پاؤں ہی باہر آگیا تھا، رمضان چاچا نے پانی پیا، سبزی تولی اور اسے دے دی۔ (پیسے 20 روپے ہی لیے تھے۔) ’’ سنو احمد … بیٹا چپل پہنے رکھا کرو، گلی میں پتھر اورکانچ وغیرہ پڑے ہوتے ہیں، چبُھ گئے تو تکلیف ہوگی۔‘‘ بس اتنا کہہ کر انھوں نے احمد کے سر پر ہاتھ رکھا اور دھیرے دھیرے ٹھیلا بڑھاتے آگے نکل گئے تھے۔ پھر احمد گھر کے اندر گیا اور نہایت پُرجوش انداز میں اپنے امی، ابو کو بتانے لگا کہ کیسے وہ پورے پانچ روپے بچانے میں کامیاب ہوا تھا۔ امی، ابو کا یہ سننا تھا کہ لگے ہونے اس پر صدقے واری۔ ’’یہ ہوتی ہے ہوشیاری اور چالاکی، آج بچائے گا توکل کام آئیں گے نا، شاباش بیٹا، بس آج سے گھر کے سودے کی خریداری تمہارے ذمے‘‘ پھر جب یہ باتیں ہوگئیں تمام، تو اسی رات وہ لوگ ایک شاندار ہوٹل آئے تھے۔  احمد اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا، اسی خوشی میں رات کا کھانا باہرکھانے کا پروگرام بنا تھا،کامیابی کے افق پر ستاروں کی گنتی کا پیچھا کرتے، اُس تھری اسٹار ہوٹل میں، قیمتوں کو بھی چاند چڑھے تھے … تین لوگوں کے کھانے کا بل ہزاروں میں بنا تھا، جسے نہایت آرام سے، بغیرکسی حیل و حجت ادا کردیا گیا تھا۔ (شاندار ہوٹل کے اُس پرُسکون ماحول میں کسی بحث و مباحثے کی گنجائش تھی بھی نہیں) جاتے، جاتے ویٹر کو بھی ’’ ٹپ‘‘ کی مد میں اچھے خاصے پیسے تھما دیے گئے تھے۔  پتہ نہیں ہمارے یہاں ایسا کیوں ہوتا ہے، جہاں بچت ہوسکتی ہو، وہاں خوب لُٹایا جاتا ہے اور پھر بچت ہی کے نام پرکسی کی ’’حق تلفی ‘‘ کو نہایت آرام سے چالاکی اور ہوشیاری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بات صرف رمضان چاچا سے قیمت پر کی جانے والی تکرار اور مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے کی نہیں، پورے ہفتے کے مختلف دنوں میں لگنے والے جا بجا بچت بازاروں میں دیکھیں نہ کہ کیا ہو رہا ہے، ان مارکیٹوں کا احوال بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ یہ بازار اشیاء خورونوش کی کم قیمتوں کے حوالے سے کا فی شہرت رکھتے ہیں۔ پھل، سبزی، دالیں، چاول، سرف، صابن، کپڑے، برتن، غرضیکہ روزمرہ کی زندگی سے جڑی تقریبا تمام اشیا ئے ضروریہ ان بازاروں میں موجود ہوتی ہیں، سبزی اور فروٹ کے ٹھیلے تو جا بجا لگے ہوتے ہیں، اب ظاہر ہے جیسا مال ویسی قیمت، اس لیے ان ٹھیلوں پر سجے پھل، سبزیاں اور دیگر اشیاء معیاری نقطہ نگاہ سے مختلف درجات کی حامل ہوتی ہیں۔ اب ہماری دکھوں کے مارے اور انتہائی بے چارے غریب عوام،کیا کرتے ہیں، ذرا وہ بھی سُن لیجیے، ان ٹھیلوں پر جایا جاتا ہے، سب سے پہلے قیمت پوچھی جاتی ہے ( حالانکہ بیچنے والا چیخ ، چیخ کر پیسے بتا رہا ہوتا ہے) پھر اصرار قیمت کو مزید کم کرنے پرکیا جاتا ہے اور اگر پیسے کم ہوجائیں تو پھولے نہیں سمایا جاتا، پھر جناب کیا ہوتا ہے کہ ٹھیلے والے سے مانگی جاتی ہے، ایک عدد تھیلی اور پھر چھانٹی کا مصروف ترین عمل شروع ہو جاتا ہے۔ خوب اچھے اچھے بڑے بڑے آلو، پیاز، ٹماٹر، سیب اور ناشپاتیاں چھانٹ لی جاتی ہیں اور باقی ذرا نسبتا کم معیاری اشیاء کس کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں؟ یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی، بہرحال پھر رات گئے تک ٹھیلوں پر بچ جانے والی چیزوں کو اونے، پونے داموں فروخت کردیا جاتا ہے۔ کیونکہ بہت سی ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جنھیں اگر ٹھیلے والے گھر واپس لے جائیں تو اگلے دن تک خراب ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے تو بہرحال، بازاروں میں تو یہ سب ہو رہا ہوتا ہے، لیکن زندگی کے دیگر معاملات میں بھی بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں ہونا کیا چاہیے؟ تو جناب ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ خرید و فروخت کے علاوہ اور ایسے کونسے معاملات ہیں جہاں ہم سے حق تلفی جیسا گناہ سرزد ہو رہا ہے اور پھر ایسے گناہوں سے خود کو بچا لیا جائے، رمضان چاچا جیسے ایماندار لوگوں سے قیمتوں کی کمی پر بحث نہ ہو تو اچھا ہے، بازاروں میں خراب سامان ہر گز نہیں لیا جائے، لیکن جب قیمتیں اگرکافی حد تک کم ہوں، تو پھر معیار پر اس حد تک سمجھوتا کہ آلو، سیب ، ٹماٹر اورکینو چھوٹے، بڑے، درمیانے سب قبول کر لیے جائیں، تو اس میں کوئی بُری بات نہیں۔  ایسا نہیں کہ قیمتوں پر بحث و تکرار ہونی نہیں چاہیے، ضرور ہونی چاہیے، لیکن اگر حق تلفی سے جڑے مسئلے کو پیش نظر رکھ کر یہ کام ہو، تو پھر کیا ہی خوب ہو۔ خرید و ٖفروخت کے معاملات میں جہاں خریداروں پر ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، وہیں فروخت کنندگان بھی بری الذمہ نہیں۔ بے ایمانی، ناجائز منافع خوری، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی سب بدترین عمل ہیں، ان سے اجتناب لازمی ہے۔ آئیے! ایک ایسے نظام کی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں کہ جہا ں نہ صرف خریدنے اور بیچنے، بلکہ زندگی سے جڑا ہر معاملہ احکام خداوندی اور شرعی اصولوں کے عین مطابق ہو۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل