Loading
سیاسی تنازعات مسلسل عوام کو مایوسی کا شکار کر رہے ہیں۔ چولستان میں نہروں کی تعمیرکا قصہ چھ ماہ قبل شروع ہوا۔ ایوانِ صدر میں ایک اعلیٰ اختیارات اجلاس ہوا۔ صدر آصف زرداری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزیر داخلہ محسن نقوی اور اعلیٰ عسکری افسران نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں گرین پاکستان انیشی ایٹو Green Pakistan Initiative (GPI) کی منظوری دی گئی۔ کچھ عرصے کے بعد جب اس منصوبے کی تفصیلات ذرائع ابلاغ پر ظاہر ہونے لگیں تو سندھ کے ماہرین نے اس منصوبے کی تفصیلات آرٹیکل کی صورت میں بیان کرنا شروع کردیں۔ سوشل میڈیا پر اس منصوبے سے دریائے سندھ میں پانی کی کمی کے بارے میں حقائق وائرل ہونے لگے، یوں سندھ کی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے چولستان کنال منصوبے کے نقصانات پر رائے عامہ ہموارکرنی شروع کی تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس معاملے کی نزاکت کا احساس نہیں کیا مگر جب تحریک انصاف، جی ڈی اے اور بائیں بازو کی تنظیموں نے کراچی اور دیگر شہروں میں مظاہرے کرنے شروع کیے اور اخبارات میں اس منصوبے سے سندھ میں خشک سالی کے امکانات کے بارے میں مضامین شائع ہوئے اور ٹی وی ٹاک شوز میں اس منصوبے کے نقصانات پر بحث و مباحثہ شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی مگر اسلام آباد میں اس قرارداد کی گرمی کو محسوس نہیں کیا گیا۔ اب پیپلز پارٹی بھی اس مہم میں شامل ہوگئی اور پورے سندھ میں یہ معاملہ گرما گرم موضوع بن گیا مگر کیسی عجیب بات ہے کہ سندھ میں پیدا ہونے والی اس بے چینی کو اسلام آباد اور لاہور میں محسوس ہی نہیں کیا گیا۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چولستان میں سپہ سالار کے ہمراہ اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ جب اس منصوبے کے سنگِ بنیاد رکھنے کی خبر عام ہوئی اور سوشل میڈیا پر بعض بلاگرز نے یہ کہنا شروع کیا کہ متنازع نہروں کی تعمیر شروع ہوگئی ہے تو سندھ میں احتجاج میں شدت آگئی۔ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی زوردار بیانات دینے شروع کردیے۔ انھوں نے اپریل کے مہینے میں گڑھی خدا بخش اور حیدرآباد میں ہونے والے جلسوں میں سخت زبان استعمال کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ میاں شہباز شریف عوام چولستان نہروں کی تعمیر نہیں چاہتے تو پیپلز پارٹی عوام کے ساتھ کھڑی ہے، مگر وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد میں اعلیٰ سطح اجلاسوں اور غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے۔ وفاقی وزیر مصدق ملک جن کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ سنجیدگی سے بات کرتے ہیں اور افہام و تفہیم پر یقین رکھتے ہیں کا ایک بیان سامنے آیا جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ نہریں بن گئیں تو قیامت نہیں آجائے گی۔ یوں کراچی سمیت پورے سندھ میں احتجاج میں شدت آگئی۔ اتوار 20 اپریل کو پورے سندھ میں ہڑتال تھی۔ کراچی میں سول سوسائٹی نے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرہ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے دانشور، سوشل ایکٹیوسٹ کی بڑی تعداد شریک تھی۔ عالمی شہرت یافتہ شہری امور کے ماہر عارف حسن طویل عمری اور بیماری کے باوجود شدید گرمی میں مظاہرے میں شریک ہوئے۔ سندھ بھر کی وکلاء تنظیمیں میدان میں آگئیں۔ پنجاب جانے والے ہائی وے پر دھرنا شروع کردیا گیا۔ اس دھرنا میں قوم پرست اور بائیں بازو کی تنظیمیں شامل ہوگئیں۔ جماعت اسلامی کی سندھی قیادت اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علمائے کرام بھی احتجاج میں شریک ہوگئے۔ ان دھرنوں کی بناء پر ٹرک اور بسیں سکھر خیرپور ہائی وے پر پھنس گئیں۔ ان دھرنوں کا دائرہ بڑھا تو کراچی سے لاہور جانے والی ریلوے لائن پر ریل گاڑیوں کی آمدورفت بھی معطل ہوگئی۔ اس صورتحال میں کراچی کی بندرگاہ سے ملک کے دیگر علاقوں کو جانے والا سامان کی رسد رک گئی۔ ملک کے دیگر علاقوں سے سندھ میں آنے والے سامان کی رسد بھی معطل ہوئی۔ سب سے زیادہ نقصان ایکسپورٹرز کا ہوا۔ قربانی کے جانوروں کے ٹرک اس دھرنے میں پھنس گئے۔ بہت سے جانور گرمی کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگئے، یوں بیوپاریوں کو بہت نقصان ہوا۔ ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سڑکوں کی بندش سے ادویات کی ترسیل متاثر ہوئی اور ادویات کے بڑے اسٹاک اور کیمیکل کا دھوپ اورگرمی کی وجہ سے افادیت کھونے کا خدشہ ہوگیا ہے۔ یہ اسٹاک مارکیٹ میں پہنچنے سے صحتِ عامہ کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ جب بلاول بھٹو زرداری کی زوردار تقریر کی گونج لاہور تک پہنچی تو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ انھوں نے لندن جانے سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف کو ہدایت کی کہ بلاول صاحب کی شکایت پر توجہ دیں، یوں وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے اپنا ٹیلی فون استعمال کرنا شروع کیا اور سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دونوں رہنماؤں نے کئی دفعہ ٹیلی فون پر رابطہ کیا مگر کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ عوام مطمئن ہوسکے۔ ایسی ہی صورتحال بلوچستان کے بارے میں ہے۔ حکومتی وزراء اور حزب اختلاف سب اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی رٹ صرف کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کی حدود تک محدود ہوگئی ہے اور باقی صوبہ پر پرتشدد گروہوںکا راج نظر آتا ہے۔ جب جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تھا تو اس وقت سیکیورٹی کے نظام کی خامیوں کا ذکر نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملہ میں کئی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اب بھی روز یہ خبر آتی ہے کہ سیکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی کو جیکب آباد اسٹیشن پر روک لیا گیا۔ یہی صورتحال بلوچستان کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی سڑکوں کی ہے۔ یہ سڑکیں لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاج یا دہشت گردی کی وارداتوں کی بناء پر بند رہتی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال پاراچنارکی ہے۔ پاراچنار چھ مہینے سے حصار میں ہے۔ حکومتی اعلانات کے بعد بھی مکمل طور پر ٹریفک بحال نہیں ہوسکی ہے۔ پارا چنار کے ٹرانسپورٹرز تو یہ واویلا بھی کر رہے ہیں کہ ان کے ٹرکوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے پر رشوت طلب کی جاتی ہے۔ اخبارات میں یہ خبریں بھی متواتر شائع ہوتی ہیں اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز بنتی ہیں کہ وفاقی حکومت طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات کر رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک غیر رسمی نشست میں کہا کہ اگر وزیر اعظم پارلیمنٹ کے سامنے نہروں کی تعمیر کا منصوبہ پیش کرتے اور اس موضوع پر کھل کر بحث ہوتی اور سی سی آئی کا اجلاس بلا کر اس مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکتا تھا۔ اب جب پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو ساتھ بیٹھ گئے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس منصوبے کو سی سی آئی کے اجلاس تک ملتوی کردیا جائے مگر وکلاء کی بڑی تعداد اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بہرحال وکلاء کو بھی اپنا دھرنا ختم کرنا ہوگا، اگر وزیر اعظم شہباز شریف یہ مسئلہ پیدا ہونے سے پہلے ہی سی سی آئی کا اجلاس بلا لیتے تو اربوں روپے کا نقصان نہ ہوتا اور سندھ کے عوام کو سڑکوں پر نہ آنا پڑتا۔ کچھ منتخب رہنما ٹی وی پروگراموں میں یہ پرچار کرتے ہیں کہ یہ نظام ناکام ہوگیا ہے ،تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آئین کی بالادستی میں ہی ریاست ترقی کی طرف گامزن ہوسکتی ہے مگر برسرِ اقتدار رہنماؤں نے اپنا رویہ نہ تبدیل کیا تو بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل