Loading
پاکستان ماہرین نے اپنی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ ماحولیاتی مسائل ہوں، یا پھرموسمیاتی شدت ، اس ضمن میں واضح پالیسیاں موجود ہیں جن پراب ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ جامعہ کراچی میں " آبی حیاتیاتی تنوع اور سماجی ماحولیاتی پس منظر اور ٹیکنالوجی کے موضوع" پر منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے روز مختلف ماہرین نے تکنیکی سیشنز میں اپنی تحقیقات پیش کیں۔ ڈاکٹر شاہد امجد نے پاکستانی ساحلوں پر پائی جانے والی حیات کے مختلف پہلوؤں پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بایوڈائیورسٹی کی بہتات کسی نظام کی تندرستی کی علامت ہے۔ ساحلی کنارے مینگرووز یا تمر کے جنگلات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کیٹی بندر (سندھ ڈیلٹا) اور دیگر علاقوں میں مقامی آبادی ان کی افزائش کرتی ہے جن سے وہاں کے لوگ مالی فوائد بھی حاصل کررہے ہیں جو ایک بہتر مثال ہے۔ بعد ازاں جامعہ سندھ سے وابستہ جنید رزاق سومرو نے اپنی پریزینٹیشن میں سندھ کے دورافتادہ اور انتہائی غریب علاقوں پر چشم کشا حقائق بیان کئے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح پدرشاہی کے ماحول میں دیہی خواتین موسمیاتی شدت کے صدمے سہہ رہی ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ جنید رزاق سومرو نے کہا کہ لاڑکانہ میہڑ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں خواتین، بھوک، قدرتی آفات اور دیگر مسائل میں گرفتار ہیں۔ انہوں نے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پرائمری جماعت کی تین ہزار بچیوں میں سے ڈھائی ہزاربچیاں، پانچویں جماعت سے آگے نہیں پہنچ پاتیں کیونکہ ان کی زبردستی شادی کرادی جاتی ہے۔ اس طرح 10 سے 12 سال کی ان بچیوں پر گھر، کفالت اور حمل کی ذمے داریاں بوجھ بن جاتی ہیں جس میں وہ پوری زندگی گرفتار رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف پالیسیوں کے ثمرات اور مالی فوائد اصل حقدار تک پہنچنے کی بجائے بااثر لوگوں کی بندربانٹ کے نذرہوجاتے ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی پس منظر میں خواتین کی تعلیم، سماجی تحفظ، شعور اور قانون سازی پر عمل کرتے ہوئے ان کی مدد پر زور دیا۔ دوسرے سیشن میں سندھ فاریسٹ سے وابستہ ڈاکٹر ذیشان نے چند امید افزا حقائق پیش کرتے ہوئے کہا کہ کئی عشروں کی دیکھ بھال اور محنت سے قیمتی میگروز کی تعداد میں اب 300 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان جنگلات کو تحفظ کا درجہ حاصل ہے اور یوں درختوں کی کٹائی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جارہی ہے۔ سندھ یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر عظمیٰ پروین نے اپنے ہی گاؤں 'پیچوہو' کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قمبر شہداد کوٹ کا یہ چھوٹا سا علاقہ موسمیاتی شدت کا شکار رہتا ہے۔ کبھی یہ سیلاب میں گِھرجاتا ہے تو 2010 کی ہیٹ ویو سے مجروح ہوا ہے۔ یہاں کی اکثر آبادی کاشتکاری سے وابستہ ہے اور اب یہ حال ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد اب کھیتوں میں کام نہیں کرسکتیں اور یوں موسمیاتی شدت سے دوہری متاثر ہورہی ہیں۔ دوسری جانب فصلوں کی مکمل خرابی سے یہاں کی خواتین کا واحد ذریعہ معاش بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر ان کی مدد اور ہرطرح کی پالیسی پر عمل درآمد پر زور دیا۔ سمندر پر تحقیق اور تحفظ کے ایک ادارے سے وابستہ سندس سہیل نے کہا کہ مونگے اور مرجان (کورالز) سمندری حیاتیات کی نرسری ہیں جن کے تحفظ کی کوشش کی جارہی ہیں۔ انہوں نے عوام الناس سے بھی اس مشن کے لیے کچھ وقت نکالنے پر زور دیا۔ آخر میں تمام شرکا میں شیلڈ تقسیم کی گئیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل