Loading
خیبرپختونخوا کے واحد برنس اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر پشاور میں بھرتیوں میں غیر معمولی تاخیر، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور عملے کی شدید قلت بحران کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبے کے واحد برنس سینٹر میں صرف 40 فیصد نرسنگ اسٹاف ہے اور 60 فیصد سے زائد نرسیں مستعفیٰ ہوچکی ہیں جبکہ اُن کی خالی ہونے والی آسامیوں پر تاحال بھرتی نہیں کی گئی۔ موجودہ صورتحال کے باعث ایمرجنسی، آئی سی یو اور سرجیکل یونٹس کی خدمات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، صوبے کے سب سے اہم ریفرل سینٹر میں انفیکشن کنٹرول کے تمام معیارات پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں جبکہ تربیت یافتہ عملے کی عدم موجودگی میں صفائی اور انفیکشن روکنے کے اہم فرائض سیکیورٹی گارڈز اور نچلے درجے کے عملے کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جھلسے ہوئے مریضوں میں پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک سینیئر اسٹاف رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "بنیادی حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث انفیکشن کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جو مریضوں کی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔" انہوں نے بتایا کہ آئی سی یو صرف کاغذوں کی حد تک فعال ہے، جبکہ وہاں نہ کوئی مخصوص آئی سی یو میڈیکل آفیسر ہے اور نہ ہی کوئی ماہر "انٹینسِوسِٹ"۔ اسٹاف رکن نے بتایا کہ ان آسامیوں کے لیے تحریری امتحانات کئی ماہ قبل ہو چکے ہیں، مگر حتمی میرٹ لسٹ تاحال جاری نہیں کی گئی۔ "شدید زخمی مریض روزانہ بنیادی طبی ماہرین کی عدم دستیابی کے باعث تکلیف میں مبتلا ہیں، اور یہ تاخیر ناقابلِ قبول ہے،" ایک ذمہ دار افسر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نرسنگ بحران کے باعث طبی عملے پر غیر معمولی بوجھ ہے۔ دستیاب نرسیں طویل ڈیوٹیوں پر مجبور ہیں جبکہ درجنوں خالی آسامیوں کے لیے بھرتی کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ بیشتر سابقہ نرسیں خلیجی ممالک میں بہتر مواقع کی تلاش میں جا چکی ہیں، اور ان کی جگہ لینے والا عملہ تاحال دستیاب نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی بھی بدترین سطح پر ہے، جہاں نصف سے زائد آسامیاں خالی ہیں۔ اس قلت نے آپریشن تھیٹرز، ڈریسنگ رومز، اور پوسٹ آپریٹو کیئر سمیت کئی اہم شعبوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اسپتال ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ تین برسوں سے کسی بھی پوسٹ پر مستقل تقرری عمل میں نہیں لائی گئی، جبکہ ہنگامی بنیادوں پر بارہا درخواستوں کے باوجود بھرتیوں کا عمل جمود کا شکار ہے۔ ایک سینئر معالج نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ " سینٹر میں نہ نرسز ہیں، نہ آئی سی یو کے ماہرین، نہ پیرا میڈیکل اسٹاف، ہر روز انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور ذمہ دار ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ یہ صرف انتظامی غفلت نہیں، ایک عوامی ہنگامی صورت حال ہے۔" برن اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر نہ صرف پشاور بلکہ پورے خیبرپختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے مریضوں کے لیے زندگی کی آخری امید ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ واحد خصوصی ادارہ مکمل طور پر ناکارہ ہو سکتا ہے، جس سے صوبہ جھلسے ہوئے مریضوں کے علاج کے اپنے واحد مرکز سے بھی محروم ہو جائے گا۔ سول سوسائٹی، ماہرین صحت اور سینٹر کے اسٹاف نے خیبرپختونخوا حکومت، محکمہ صحت، اور اسپتال کی بورڈ آف گورنرز سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر بھرتیوں کا عمل مکمل کریں اور ادارے کو تباہی سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جامع اصلاحات متعارف کروائیں۔ ایکسپریس کے رابطے پر مشیر صحت احتشام علی نے وضاحت کی کہ نگران دور حکومت میں زیادہ تر ٹرینڈ اسٹاف بیرون ممالک چلا گیا جبکہ نگران دور میں تقرریوں پر پابندی عائد رہی ۔جس سے عملہ بھرتی نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ اب تحریک انصاف حکومت کی جانب سے فوری طور پر برن ٹراما سینٹر کو نئی تقرریوں کا عمل شروع کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے جس کے بعد بورڈ تشکیل دے کر تقرریوں کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ مشیر صحت نے کہا کہ بورڈ نے ڈائریکٹر کے ریٹائرمنٹ سے تین مہینے قبل تقرریوں کا عمل روک دیا تھا کہ ڈائریکٹر ریٹائرمنٹ کے وقت تقرری نہیں کرسکتا۔نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کی گئی ہے لیکن بورڈ نے انہیں تقرریوں کا اختیار نہیں دیا۔ تقرری کا عمل مکمل ہوچکا ہے، آئندہ بورڈ میٹنگ میں تقرریوں کی اجازت لی جائیگی ۔جس کے بعد عملے کی تعیناتی عمل میں لائی جائیگی۔ انہوں نے بتایا فی الوقت 120 میں سے 75 کے لگ بھگ ایکسپرٹ نرسز برن ٹراما سنٹر میں کام کررہی ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل