Sunday, July 06, 2025
 

ابراہیمی معاہدے کی گونج

 



 ابراہیمی معاہدہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے ٹرمپ نے اپنی گزشتہ حکومت کے دور میں متعارف کروایا تھا۔ اس معاہدے کا نام پہلے صدی کی ڈیل رکھا گیا تھا، بعد میں اس کوکچھ تبدیلیوں کے ساتھ ابراھیمی معاہدے کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا اصل مقصد دنیائے اسلام کے ممالک کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ بٹھانا اور تعلقات استوارکروانا ہے تاکہ فلسطین کا سوال ہی ختم ہوجائے۔ اس معاہدے کا آغاز پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوا۔ اس کا باضابطہ ا ظہار اگست اور ستمبر 2020 میں کیا گیا اور 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کر کے اعلان کیا گیا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔ عرب امارات، عرب دنیا میں اردن کے بعد پہلا ملک بن گیا جس نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد مراکش اور سوڈان نے بھی اسی ابراہیمی معاہدے کی رو سے امریکی حکومت کے ساتھ مل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ابراہیمی معاہدے کے لیے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان، مسیحی اور یہودی تینوں حضرت ابراہیم کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں یہودیوں سے باربار یہی سوال پوچھا گیا ہے کہ ’’ تم یہودی کہاں سے اور کیسے بنے ہو؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سوال پوچھا کہ ’’ تم ابراہیم کو مانتے ہو لیکن ابراہیم تو یہودی نہیں تھے؟‘‘ یہودیوں سے پوچھا گیا کہ ’’جنھیں تم اپنا باپ داد مانتے ہو، وہ تو یہودی نہیں تھے؟‘‘ لیکن آج یہودیوں سے بڑھ کر یہودیوں کے وفادار مسلم ممالک میں موجود ہیں اور ایسی ہی سوچ کے حاملکچھ  افراد پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ حقیقت میں امریکا نے یہ معاہدہ خطے میں فلسطین کے کازکو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے بنایا ہے اور ساتھ ساتھ عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ کھڑا کر کے وہ خطے میں اسرائیل کے سب سے بڑے مخالف ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے، جب کہ اس معاہدے کا ظاہر مقصد جو دنیا کو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں اور اس عنوان سے آپس میں تعاون ہونا چاہیے اور پھر اس تعاون کو سیکیورٹی، معاشی اور نہ جانے کون کون سے تعاون کے ساتھ جوڑکر پیش کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں ایران کے ساتھ امریکا اور اسرائیل کی 12روزہ جنگ کے بعد تل ابیب میں ایک بڑا بینر آویزاں کیا گیا ہے جس میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے تصویروں کے ساتھ  مسلمان حکمرانوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ اس تصویر سے واضح ہوتا ہے کہ ان سب حکمرانوں نے فلسطین بارے امریکی موقف کی حمایت کر دی ہے ۔ اس تسلسل میں  امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ’’ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘  یہ تصور نہ کیا جانے والا ملک کون ہوسکتا ہے ؟ حالات اور واقعات کچھ اس جانب اشارے تو دے رہے ہیں،  حال ہی میں پاکستان  نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو تبھی تسلیم کرے گا جب فلسطین کی آزاد ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہوگا، حالانکہ اس معاملے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وضع کردہ خارجہ پالیسی اور نظریہ کے اصولی موقف میں کسی جگہ ایسی بات موجود نہیں ہے کہ پاکستان کسی شرط کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرے گا، بلکہ قائد اعظم کی پالیسی کے مطابق پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ کچھ پاکستانی وزرا ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے اشارے دے رہے ہیں اورکہہ رہے  ہیں کہ پاکستان کو اس میں اپنا مفاد دیکھنا ہے یعنی ایک شک اور شبہ ایجاد کردیا۔ یہاں بھی قائداعظم محمدعلی جناح کے نظریہ اور اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔  ایک  حکومتی وزیر کہتے ہیں کہ پاکستان کو ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے عنوان سے عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ  ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ  فلسطین کے بارے میں اب کوئی سوال نہیں ہوگا، یعنی فلسطین کو فراموش کیا جائے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ ستر ہزار سے زائد معصوم بچوں اور خواتین کا غزہ میں بہنے والا خون ابھی تک غزہ کی گلیوں میں خشک نہیں ہوا ہے لیکن کچھ افراد  امریکا اور اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں ۔ فلسطین کے مسئلے پرکسی بھی قسم کا یو ٹرن اور امریکا کے اشاروں پر ابراہیمی معاہدے میں شمولیت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے برعکس ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ ، علامہ اقبال کے افکار  سب کے یہ خلاف ہے، یہ سب کچھ ابراہیمی معاہدے میں شمولیت سے ہوگا۔ پاکستان کے عوام ہمیشہ قائد اعظم کے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور آج بھی حکومت کو بتا دیتے ہیں کہ قائد کے پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل