Loading
دنیا کی تاریخ میں ہر لمحہ، ہر ذکر یا ہر واقعہ تاریخ کی نظر میں کبھی متوازی نہیں رہا، تاریخ میں ہونے والی کسی بھی جنگ یا واقعے پر بھی مختلف رائے رکھنے والے موجود ہیں اور سوچ کے تغیر و تبدل کے ساتھ موجود رہیں گے۔ تاریخ میں پیش آنے والے واقعات پر مختلف نکتہ نظر رکھنا میرے نزدیک ایک صحت مند روایت ہے بشرطیکہ اس میں علمی مباحث ہوں نہ کہ کسی بھی واقعہ کو خواہش کی بھینٹ چڑھا کر اصل حقائق ہی کو یکسر مسخ کردیا جائے۔ تاریخ کے تناظر میں دو فریق کے مابین رائے اور سوچ کا اختلاف رکھنا کوئی بری بات نہیں، البتہ کسی کی رائے یا سوچ کو اپنی خواہش کے معنی پہنانا دراصل حقائق سے نہ صرف دور رکھنے کی کوشش کہی جائے گی بلکہ یہ کسی بھی واقعہ کے جملہ حقائق کو مسخ کرنے کی ایک مجرمانہ غفلت یا اسے ایسی کوشش کہا جائے گا جس کا لازمی نتیجہ علم کے مقابل خواہشات کی خاطر نسل کو حقیقی حقائق تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش ہوگا۔ انسان بنیادی طور پر فطرتی لحاظ سے ایک آزاد خیال، پرمغز سوچ اور اپنے اندر کی تغیر پسندی کا وہ مجموعہ ہے جو سوچنے سمجھنے کی نہ صرف عملی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا زمانہ موجود میں عملی اظہار بھی چاہتا ہے۔ اب اس مقام پر ہم جب ذرا ٹہرکر دیکھتے ہیں تو ہم اکثر پرمغز اور سوچنے والے انسان کو انسانی معاشرت کی صدیوں سے چلتی ہوئی ان روایات کے قیدی بنانا چاہتے ہیں جن کو رسم و روایات کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی نسل کو آگے بڑھنے اور نئے زاویوں سے سوچنے کی سوچ کو روکنا چاہتے ہیں یا اس کی سوچ کو روایتی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں، یہی نئی نسل اور پرانی نسل کا وہ تضاد ہے جو آگے جاکر روایت شکن کہلاتا ہے، عمومی طور سے ہم روایت شکن سوچ کو اپنے زمانے یا روایت کے خلاف تصور کر کے روایت شکن فرد کو معتوب کرتے رہتے ہیں جو آخرکار سوچ کے ’’ ٹکراؤ‘‘ کا سبب بنتا ہے، یہاں یہ واضح ہو کہ یہ قطعی طور سے ٹکراؤ ہرگز نہیں بلکہ اس اختلاف کو کشادہ دلی کے جذبے سے دیکھا جائے تو یہ نئی سوچ کی وہ پھوٹی ہوئی کونپل ہوتی ہے جو اپنے ارد گرد کے معاشرتی جبر سے مقابلہ کر کے پھوٹ رہی ہوتی ہے، بس اسی تضاد یا تغیر پذیری کو اگر ہم اپنی سوچ میں جگہ فراہم کردیں گے تو شاید بہت جلد ہم ایک غیر استحصالی سماج اور انصاف بر مبنی معاشرے کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمارے سماج کا مجموعی رویہ خود پسندی اور خود ستائش کا بن گیا ہے، جس کا نقصان حقائق تک پہنچنے میں دشواری کا خطرناک رجحان پیدا ہوا ہے جو کسی بھی دوسرے نکتہ نظرکو سننے یا ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے، اس تناظر میں پچھلے دنوں ایک معروف صحافی کے ایران کی حالیہ جنگ کے بارے میں تاریخی حوالوں سے لکھے گئے کالم کو ایک خاص نکتہ نظر سے ہدف تنقید بنایا گیا جب کہ دوسری سمت انگریزی کے معروف صحافی کی سندھ کی مجموعی زبوں حالی کے متعلق ایک پوسٹ کو ’’جذباتی‘‘ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ اس تمام صورتحال کی روشنی میں حقائق تک پہنچنے اور ان حقائق کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کا یہ ایسا دشوار عمل ہے، جس میں احتیاط اور حقائق تک پہنچنے کی کوشش ہی ایک مناسب حل تصورکیا جا سکتا ہے۔تمام تر جزوی اختلاف کے بعد ایک بات تو اکثریتی بنیاد پر تسلیم کرنا پڑے گی کہ دنیا میں ازل سے دو قوتیں متحرک عمل میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں، جس کی تفہیم نیکی اور بدی یا حق و سچ کے مقابل باطل یا جھوٹ کی قوت ہے۔ عمومی طور سے یہ بات دیکھی گئی ہے کہ محرم کے دوران ’’ ایام عزا‘‘ کے شروع ہوتے ہی دو مختلف نکتہ ہائے نظر رکھنے والے دوست اپنی اپنی پسند کی تاریخ کے حوالوں سے ایک ایسی لایعنی کوشش میں سوشل میڈیا کا برا حال کر دیتے ہیں کہ ان مباحث کے درمیان متوازی سوچ کے افراد اکثر پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب اگر اسی پریشان کن نکتے کو ہی لے لیا جائے تو ان دو مختلف ہائے نظر کے دوستوں سے یہ سوال تو بنتا ہی ہے کہ کیا کسی بھی فرد کو لایعنی بحث میں شامل کر کے یہ دو نکتہ ہائے نظر کے دوست کیا واقعی دینی، اخلاقی یا سماج سدھارک کا فریضہ انجام دے رہے ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کس کے ایجنڈے پر لایعنی بحث کر کے نئی نسل کی قربتوں اور محبتوں کے رشتوں کو کمزورکر رہے ہیں؟ اسے نہ کسی طور آپ مذہبی فریضہ کہہ سکتے ہیں اور نہ سماج کے انسانی رشتوں کو جوڑنے والا بندھن قرار دے سکتے ہیں۔ یاد رکھا جائے کہ بنیادی طور سے انسان ایک ایسا سماجی جانور ہے جو آپسی رشتوں کے وقارکو تہذیب اور شائستگی کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے اور رائے کے فرق میں بھی رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی امنگ لیے ہوئے ہوتا ہے، سوکیوں نہ ہم ہجروی سال کے آغاز ہی سے اپنے اندر درس کربلا کے پانچ بنیادی اصولوں یعنی، رواداری، صبر، قناعت پسندی، حکمت عملی اور ترتیب کو اپنی سماجی زندگی کا حصہ بنا کر آپسی رشتوں کو حق کی طاقت سے مضبوط کر کے ہر قسم کے جبر اور انسانی تفریق کی قوتوں کو شکست دینے کی حکمت عملی ترتیب دیں اور مشترکہ طور پر ایک بہتر غیر استحصالی معاشرے کی بنیاد رکھیں، تاکہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کی اخلاقی تربیت کا وہ صحت مند ماحول فراہم کر جائیں جس سے ہماری نسلیں نہ صرف استفادہ کریں بلکہ ہم پر فخر بھی کریں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل